’’اس ملک کی پوری تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہواکہ سیکریٹریٹ کے کلرک دفتروں سے باہر نکل آئیں اور مظاہرہ کریں اور چیف سیکرٹری ، ہوم سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس کے ساتھ ناشائستہ برتائو کریں جیساکہ ان فسادات کے زمانہ میںہوا۔ دوسرے سرکاری ملازمین بھی جو ٹیلی گراف ، ریلوے ، ٹیلی فون اور اکائونٹنٹ جنرل کے محکموں سے تعلق رکھتے تھے، باہر نکل آئے۔ حتیٰ کہ سیکریٹریٹ کے کلرکوں کی یہ جرأت ہوگئی کہ اس امر کا تحریری نوٹس دے دیں کہ وہ مستقل طور پر کام چھوڑ بیٹھیں گے جب تک یہ مطالبات قبول نہ کیے جائیں گے اور سرظفر اللہ خاں کو وزارت سے الگ نہ کردیاجائے گا۔‘‘
مسلم لیگیوں کی ایک کثیر تعداد جن میں مسلم لیگ کے ایم ایل اے اور کونسلرز بھی شامل تھے کھلم کھلا اس تحریک کے حامی ہوگئے۔
(سرکاری ملازموں کے متعلق میاں صاحب نے کہا) ’’پبلک سروس میں سے صرف ایک پولیس ایسی رہ گئی تھی جس نے ایجی ٹیشن کرنے والوں کی ہمدردی میں کوئی مظاہرہ یا کسی اور قسم کااظہار دلچسپی نہیں کیا۔ ‘‘
ان شہادتوں سے یہ بات بالکل ناقابل انکار حد تک ثابت ہوجاتی ہے کہ قوم کی بڑی اکثریت ان مطالبات کی نہ صرف حامی بلکہ پرجوش حامی تھی اور صرف مذہبی جماعتیں ہی نہیں بلکہ مسلم لیگ کی اکثریت بھی ان کے حق میں تھی۔ اب یہ سوال عدالت کی توجہ کامستحق ہے کہ اگر یہ ایک جمہوری نظام ہے تو اس میں ان لوگوں کو قوم کی اکثریت کے خلاف اپنی مرضی چلانے کا حق کیاتھا؟ کیاپاکستان ان کی ذاتی ملکیت تھاکہ پاکستانیوں کی مرضی کے بجائے ان کی ذاتی رائے چلنی چاہیے؟ واقعات کی ترتیب سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ پہلے عوام کے مطالبات ٹھکرائے گئے تب عوام میں ناراضی پیداہوئی اور ڈائریکٹ ایکشن تک نوبت پہنچی، پھر عوامی مظاہروں کوپولیس کے بے تحاشاتشدد سے دبانے کی کوشش کی گئی تب لوگوں کا جوش عام طور پر بھڑک اٹھا، پھر عوام کے غصے کو اندھا دھند گولیاں چلاکر ٹھنڈاکرنے کی کوشش کی گئی تب فسادات تک نوبت پہنچی اور ان کو فرو کرنے کے لیے مارشل لا کاآخری ہتھیار استعمال کرڈالا گیا۔ یہ ترتیب واقعات تمام شہادتوں سے قطعی طور پر ثابت ہوچکی ہے۔ اس صورت حال میں کیا کوئی شخص یہ بات انصاف اور دیانت کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ ڈائریکٹ ایکشن تو حق بجانب نہ تھا،مگر وہ لوگ حق بجانب تھے جنھوںنے قوم کی بھاری اکثریت کے مطالبات کو ٹھکرایا اور پھر قوم کی جیب سے تنخواہ پانے والے ملازموں کو خود قوم ہی کے خلاف استعمال کیا؟ یہ سوال صرف سابق حکومت پنجاب اور سابق مرکزی حکومت ہی کے معاملے میں پیدا نہیں ہوتا بلکہ پنجاب اور مرکز کی موجودہ حکومتوں کے بارے میں بھی پیداہوتاہے کیونکہ اصل مطالبات کے بارے میں ان کی روش بھی وہی ہے۔
ب۔ اس وقت کے ذمہ داران حکومت کی شہادتوں سے یہ بھی ثابت ہوچکاہے کہ مطالبات کے حسن و قبح کے بارے میں حکومت نے اپنا نقطۂ نظر پبلک کو سمجھانے اور لوگوں کو اپنی رائے کی صحت پر مطمئن کرنے کی قطعاً کوئی کوشش نہیں کی ، بلکہ عوام کو صاف صاف یہ نہیں بتایا کہ حکومت کانقطۂ نظر ان مطالبات کے بارے میں کیاہے۔ اس بیان کی تائید میں ہم چند خاص خاص شہادتوں کی طرف محترم عدالت کو توجہ دلاتے ہیں۔