(۱۶)نکتہ ہفتم متعددسوالات پرمشتمل ہے جن پرہم الگ الگ بحث کریںگے۔
۱۔یہ امرکہ ایک اسلامی ریاست میںغیرمسلم کلیدی مناسب پرفائزنہیںہوسکتا‘ قرآن کی صریح ہدایات پرمبنی ہے۔قرآن نے اس قاعدے کوایجابی (positve) اور سلبی (negative) دونوںطریقوںسے بیان کیاہے۔ایجابی طریقے سے وہ کہتاہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ۔ النسا ء59:4
اے لوگو!جوایمان لائے ہو،اطاعت کرواللہ کی اوراطاعت کرورسول کی اور ان اولوالامرکی جوتم میںسے ہوں۔پھراگرتمہارے درمیان کسی امرمیںنزاع ہو جائے تواس کوپھیرواللہ کی طرف اوررسول کی طرف اگرتم ایمان رکھتے ہو خدا پراورروزآخرت پر۔
اس آیت سے صاف ظاہرہوتاہے کہ ایک اسلامی ریاست کے اولوالامرصرف مسلمان ہی ہوسکتے ہیں۔البتہ احکام دینے والے بااختیارلوگوںکے ماتحت غیر مسلموں کے اہل کارہونے میںیہ آیت مانع نہیںہے۔
دوسری طرف سلبی حیثیت سے سورہ آل عمران میںفرمایاگیاہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِکُمْ۔ آل عمران 118:3
اے لوگوجوایمان لائے ہواپنے سوا(یعنی مسلمانوںکے سوا)دوسرے لوگوں کو شریک رازنہ بنائو۔
’’شریک راز‘‘ہم نے لفظ بطانہ کاترجمہ کیاہے۔زمخشری نے ‘جوعربی زبان کے مسلم ماہرین میںشمارہوتاہے ۔اس لفظ کی تشریح یوںکی ہے:
بطانتہ خلاف الظھارۃ‘بطانتہ الثوب باطنہ‘بطانتہ الرجل وولیجتہ‘ خصیصہ وصفیہ الذی یطلع علی داخل امر۔
بطانہ کالفظ ظہارہ کی ضدہے۔کپڑے کے استرکوکپڑے کابطانہ کہتے ہیں۔ آدمی کابطانہ اورولیجہ اس شخص کوکہتے ہیںجواس کامخصوص دوست اورچیدہ ساتھی ہو‘جواس کے اندورنی معاملات پرمطلع ہو۔
سورہ توبہ میںپھرارشادہوتاہے:
اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَکُوْا وَ لَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰھَدُوْا مِنْکُمْ وَلَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلَارَسُوْلِہٖ وَلَاالْمُؤْمِنِیْنَ وَلِیْجَۃً وَاللّٰہُ خَبِیْرٌمبِمَا تَعْمَلُوْنo التوبہ 16:9
کیاتم لوگوںنے یہ سمجھ رکھاہے کہ تم یونہی چھوڑدئیے جائوگے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تودیکھاہی نہیںکہ تم میںسے کون ہیںوہ لوگ جنھوںنے اللہ اوررسول اورمومنوںکے سواکسی کواپنے معاملات میںدخیل نہیں بنایا اور اللہ باخبرہے ان اعمال سے جوتم لوگ کرتے ہو۔
اپنے معاملات میں’’دخیل‘‘لفظ’’ولیجہ‘‘کاترجمہ کیاگیاہے۔یہ لفظ ولوج سے نکلاہے جس کے معنی گھسنے اورداخل ہونے کے ہیں۔اس کے معنی کی تشریح راغب اصفہانی نے مخصوص لغت قرآن میںاس طرح کی ہے۔
الولیجتہ کل مایتخذہا الانسان معتمداًعلیہ ولیس من اھلہ من قبلھم فلان ولیجتہ فی القوم اذالحق بھم ولیس منھم انساناکان اوغیرہ۔
ولیجہ ہراس چیزکوکہتے ہیںجس کو انسان اپنامعمتدعلیہ بنائے اوردرحقیقت اس کا رفیق نہ ہو۔اہل عرب کے محاورے میںکہتے ہیںکہ فلاں فلاںقوم کاولیجہ ہے یعنی وہ درحقیت ان میںسے نہیںہے مگران کے ساتھ لاحق ہو گیا ہے۔ اس لفظ کااطلاق انسان اورغیرانسان دونوں پر ہوتا ہے۔
قرآن مجیدکی ان ہدایات کامنشایہ ہے کہ غیرمسلموںکورازوںمیںشریک نہ کیاجائے اور حکومت کے نظام کی رہنمائی اورپالیسی کی تشکیل میںان کودخیل نہ بنایاجائے۔ان ہدایات پرنبی اکرمﷺ اورخلفائے راشدین کے عہدمیںجس طریقے سے عمل کیاگیاوہ یہ تھاکہ اس پورے دورحکومت میںکسی غیرمسلم کونہ مجلس شوریٰ میںشریک کیاگیا‘نہ کسی صوبے کا گورنربنایاگیا‘نہ کسی فوج کاسالاربنایاگیا‘نہ قاضی بنایاگیااورنہ کوئی دوسراایسامنصب دیا گیا جوکلیدی منصب کی تعریف میںآتاہو‘یعنی جس کاپالیسی بنانے میںکوئی دخل ہویاجس کے ذریعہ سے وہ پالیسی پراثراندازہوسکے۔اگرچہ حکومت کی خدمات میںغیرمسلم شریک ضرورکیے گئے تھے۔مگرکلیدی مناصب سے فروتر مناصب ہی پررکھے گئے تھے۔حالانکہ نبی اکرمﷺ کی حکومت میںیہودی‘عیسائی اورمجوسی بڑی تعدادمیںذمیوںکی حیثیت سے موجود تھے اورخلفائے راشدین کے زمانہ میںسلطنت کی رعایا مسلمانوںکی بہ نسبت غیر مسلموں پر بہت زیادہ مشتمل تھی۔
۲۔یہ امرکہ غیرمسلموںکواپنے مذہب کی اعلانیہ اشاعت کاحق حاصل ہے یا نہیں؟ اس باب میں‘جہاںتک ہمیںعلم ہے نفیاًیااثباتاًکوئی احکام نہیںدئیے گئے ہیںنہ اس کی صاف صاف اجازت ہی کاکوئی حکم ہے‘نہ اس کی صریح ممانعت ہی پائی جاتی ہے۔ لہٰذا ہمارے نزدیک ایک اسلامی ریاست کے اہل حل وعقد‘اسلام کی عمومی پالیسی کومد نظر رکھتے ہوئے‘اس کے متعلق خودہی مناسب حدودتجویزکرسکتے ہیں۔
۳۔اس سلسلے کاآخری مسئلہ جو(vicarious liability in sin)کے عنوان سے پیش کیاگیاہے اس سے اگرعدالت کامنشایہ معلوم کرناہے کہ اسلام میںایک شخص کے گناہ کی ذمہ داری میںدوسرے لوگ کس حدتک اورکس حیثیت سے شریک ہیں‘تواس کا جواب یہ ہے کہ اسلام میںمعاشرے کی فلاح وبہبودمعاشرے کے تمام افرادکی مشترک ذمہ داری ہے‘اس لیے ہرفعل جومعاشرے میںکسی نوعیت کی خرابی پیداکرتاہوایک شخص کا محض ذاتی گناہ نہیںہے بلکہ ایک اجتماعی گناہ ہے‘اس کوروکنے کی کوشش کرناہرشخص کافرض ہے‘نہ روکے توگناہ کی اشاعت میںحصہ دارہوگااورجوشخص معاشرے میںجتنی زیادہ طاقت اورذمہ دارانہ حیثیت رکھتاہے وہ اس خرابی سے رواداری برت کراتناہی زیادہ سخت جواب دہی کامستحق ہوگا۔قرآن اورحدیث میںاس اجتماعی فریضے کے لیے امربالمعروف اورنہی عن المنکرکاعنوان اختیارکیاگیاہے اوراس کواتنی کثرت سے‘اتنے مختلف طریقوںسے زوردے دے کربیان کیاگیاہے کہ اس کامعتدبہ جزبھی اس بیان میںنقل نہیں کیا جا سکتا۔ تو ضیح مدعاکے لیے یہاںہم صرف دوحدیثیں نقل کرنے پراکتفاکرتے ہیں۔
الا‘کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ فالامام الذی علی الناس راع وھومسؤل عن رعیتہ‘والرجل راع علی اھل بیتہ وہومسؤل عن رعیتہ‘ والمراۃ راعیۃ علی اھل بیت زوجھاوولدہ وھی مسؤلۃ عنھم وعبد الرجل راع علی مال سیدہ وھومسؤل عنہ‘الافکلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ۔ (مشکوۃ‘بحوالہ بخاری ومسلم)
خبرداررہوتم میںسے ہرایک راعی ہے اورہرایک اپنی رعیت کے لیے جواب دہ ہے۔ امام جوسب لوگوںکافرماںرواہے وہ اپنی پوری رعیت کے لیے جواب دہ ہے۔مرداپنے اہل خانہ کاراعی اوروہ اپنی رعیت کے لیے جواب دہ ہے۔عورت اپنے شوہرکے گھروالوںاوراس کی اولادکی راعی ہے اوروہ اپنی رعیت کے لیے جواب دہ ہے۔غلام اپنے آقاکے مال کاراعی ہے اوروہ اس کے لیے جواب دہ ہے۔پس خبردار‘تم سب راعی ہواورتم میںسے ہرایک اپنی رعیت کے لیے جواب دہ ہے۔
اس سے معلوم ہواکہ جس کادائرہ اثرجتناوسیع ہے‘اس کی ذمہ داری بھی اتنی ہی زیادہ ہے۔ایک دوسری حدیث میںنبی اکرمؐ فرماتے ہیں:
مامن رجل یکون فی قوم یعمل فیھم بالمعاصی یقدرون علی ان یغیروا علیہ ولایغیرون الاصابھم اللّٰہ منہ بعقاب قبل ان یموتوا۔
(مشکوۃ بحوالہ ابودائود)
کبھی ایسانہیںہوتاکہ کوئی شخص کسی قوم میںرہ کرمعصیتوںکاارتکاب کرے اوراس قوم کے لوگ اس کوبدلنے کی قوت رکھنے کے باوجوداس کونہ بدلیں اور پھراللہ تعالیٰ مرنے سے پہلے ہی ان لوگوںکواس کی سزانہ دے۔
قرآن مجیدمیںہم کواس مضمون کی ایک سے زیادہ مثالیںملتی ہیںکہ معصیت اورغلط کاری کے ذمہ دارتنہاوہی لوگ نہیںہیںجواس کاارتکاب کریں،بلکہ وہ لوگ بھی ہیںجواس پرراضی ہوںاوروہ لوگ بھی ہیںجواس سے رواداری برت کراسے پھیلنے کاموقع دیں۔ چنانچہ قرآن قوموںپرعام عذاب نازل ہونے کی وجہ یہی بیان کرتاہے کہ اگرچہ ایسی قوموں کے سب لوگ یکساںمرتکب معصیت نہ تھے مگرمعصیت پرراضی ہوکراوراس سے رواداری برت کرسب گناہ میںشریک ہوگئے تھے‘اس لیے خدانے عام اورخاص سب کو مبتلائے عذاب کیا۔