Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرض ناشر
دیباچہ
باب اول: قادیانی مسئلہ
ختم نبوت کی نئی تفسیر:
مرزا غلام احمد قادیانی کا دعویٰ نبوت:
قادیانی ایک علیحدہ اُمت :
قادیانیوں کا مذہب مسلمانوں سے جدا ہے :
نئے مذہب کے نتائج :
قادیانیوں کو علیحدہ اُمت قرار دینے کامطالبہ :
ذمہ داران حکومت کا رویہ :
مسلمانوں میں شغل تکفیر:
مسلمانوں میں دوسرے فرقے:
قادیانیوں کے سیاسی عزائم:
پاکستان میں قادیانی ریاست :
قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کا مطالبہ :
قادیانیوں کی تبلیغ کی حقیقت :
انگریزی حکومت کی وفاداری :
قادیانیت کے بنیادی خدوخال :
مسلمانوں کا مطالبہ :
قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے لیے علما کی متفقہ تجویز
علما کے نام
باب دوم: مقدمہ
دیباچہ
جماعت اسلامی کی مخالفت
دیانت داری کاتقاضا :
مخالفین کی بے بسی :
مولانامودودی ؒ کا اصل جرم :
مقدمہ کا پس منظر:
سزائے موت :
ایک عجیب منطق :
رہائی کامطالبہ بھی جرم؟
ہمارے صحافی اوران کاضمیر:
اے پی پی کا افترا:
فرد جرم نمبر۱
بیان نمبر۱: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی
مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کے دو اخباری بیانات
فرم جرم نمبر۲
بیان نمبر۲ :مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی
مضمون : سزائے موت کے خلاف رحم کی اپیل کی گنجائش
چنداہم نکات
باب سوم
پہلابیان
وہ حالات جولاہور میں مارشل لا جاری کرنے کے موجب ہوئے
اصل مسئلہ اوراس کاپس منظر:
معاشرتی پہلو:
معاشی پہلو:
سیاسی پہلو:
تلخی پیداہونے کے مزیدوجوہ:
لازمی نتیجہ:
قادیانیوں کی اشتعال انگیزی:
مکروہ تقلید :
جماعتیں مسئلے پیدانہیں کرسکتیں:
شتابہ:
جماعت اسلامی کی مساعی:
بے تدبیری کاقدرتی ردعمل:
عام ناراضگی کے اسباب:
ایں گنا ہیست کہ درشہر شمانیز کنند:
ذمہ داری تمام تر بارڈر پولیس کے ظلم وستم پر ہے :
اصلاح حال کی کوشش :
مسلم عوام سر پھرے نہیں ہیں :
مارشل لا :
(۲) اضطراب کو روکنے اور بعد میں ان سے عہدہ برآہونے کے لیے سول حکام کی تدابیر کا کافی یا ناکافی ہونا :
(۳) اضطرابات کی ذمہ داری :
قادیانی مسئلہ کے متعلق میرااور جماعت اسلامی کاطرزعمل
’’رواداری‘‘کانرالاتصور:
غلطی کوغلطی نہ کہو:
عدالت سے درخواست:
اہم حقائق وواقعات
جماعت اسلامی کی دستاویزی شہادت:
قادیانیوں کومشورہ:
احسان شناسی:
دوسرابیان
قادیانیوں سے متعلق مطالبات بیک وقت سیاسی بھی ہیں اورمذہبی بھی:
مسلمانوں اورقادیانیوں کے اختلافات بنیادی ہیں:
تمام منحرفین کواقلیت قراردینے کامطالبہ ضروری نہیں:
ظفراللہ خان کی علیحدگی کے مطالبے کے وجوہ:
کلیدی مناصب کامفہوم اورمطالبہ علیحدگی کے لیے دلائل:
عدالت کے سامنے پیش کردہ قادیانیوں کی بناوٹی پوزیشن:
قادیانیوں کی جارحانہ روش محض اتفاقی نہیں ہے:
کفر‘تکفیراورخروج ازاسلام :
گواہوں کاکٹہراعلمی بحث کے لیے موزوں نہیں:
دستوریہ میں قائداعظمؒ کی افتتاحی تقریرکاصحیح مدعا:
کیاقائداعظمؒ کی تقریردستوریہ کوپابندکرسکتی ہے:
اسلامی ریاست نہ تھیاکریسی ہے اورنہ مغربی طرزکی جمہوریت:
اسلام میں قانون سازی:
اسلامی ریاست کے مطالبے کے حق میں معقول وجوہ موجودہیں:
اسلامی ریاست میں ذمیوں کی حیثیت:
مرتدکی سزااسلام میں:
اسلامی قانون جنگ اورغلامی:
اسلام اورفنون لطیفہ:
فقہی اختلافات اسلامی ریاست کے قیام میں حائل نہیں:
جماعت اسلامی اورڈائریکٹ ایکشن:
۳۰/جنوری کی تقریرمیں فسادات کی دھمکی نہیں بلکہ تنبیہہ تھی:
ڈائریکٹ ایکشن کارائج الوقت تصوراورمفہوم:
ڈائریکٹ ایکشن قطعی حرام نہیں:
راست اقدام کے لیے شرائط مکمل نہ تھیں:
حکومت کی تنگ ظرفی سے جوابی تشددکاخطرہ تھا:
ڈائریکٹ ایکشن کی علانیہ مخالفت نہ کرنے کی وجہ:
تیسرابیان (جومورخہ ۱۳/فروری ۱۹۵۴ء کوتحریری شکل میں عدالت مذکور میں پیش کیاگیا۔)
بجواب نکتہ اول :(الف) درباب نزول مسیح علیہ السلام

قادیانی مسئلہ

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

بجواب نکتہ ششم:

(۱۴)ختم نبوت کی یہ تعبیرکہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکوئی نبی اورکسی نوعیت کانبی نہیںآسکتا، اوریہ کہ آپﷺ آخری نبی ہیںجن کے بعدنبوت ورسالت کاسلسلہ منقطع ہوگیا اوریہ کہ آپﷺ کے بعدجونبوت کادعویٰ کرے اورجواس کومانے وہ کاذب اورکافراوردائرۂ ملت سے خارج ہے‘یہ آغازاسلام سے آج تک تمام مسلمانوںکامتفقہ عقیدہ ہے جس میںاسلامی فرقوںکے درمیان کوئی اختلاف نہیںہے۔اس عقیدے کی بنیادقرآن‘سنت اوراجماع امت پرہے۔
(الف)قرآن میںاللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوبالفاظ صریح خاتم النبیین قراردیاہے۔
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَ لٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ
الاحزاب 40:33
محمدﷺ نہیںہیںتمہارے مردوںمیںسے کسی کے باپ مگروہ اللہ کے رسول ہیںاور خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ۔
خاتم کے لفظ کوخواہ بالکسرخاتم پڑھاجائے یابالفتح خاتم۔دونوںصورتوںمیںنتیجہ ایک ہی ہے۔خاتم لفظ ختم سے نکلاہے جس کے معنی مہرکرنے یالگانے کے ہیں۔اگرخاتِم پڑھا جائے تویہ مہرکرنے والے کے معنی ہوگا۔اوراگرخاتَم پڑھاجائے تواس کے معنی خودمہرکے ہیں۔دونوںصورتوںمیںمطلب صاف طورپریہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے انبیا کے سلسلے پرمہرلگ گئی ہے۔
یہ آیت جس سیاق وسباق میںآئی ہے وہ اس معنی کوقطعی طورپرثابت کردیتاہے اورکسی دوسرے معنی کی گنجائش نہیںچھوڑتا۔سیاق و سباق یہ ہے کہ عرب میںمنہ بولے بیٹے کوبالکل صلبی بیٹے کی طرح سمجھاجاتاتھاجس سے بے اولادلوگوںکے دوسرے رشتے داروراثت سے محروم ہوجاتے تھے اورگھرمیںایک غیرصلبی بیٹے کااصلی بیٹے کی طرح رہنابہت سی معاشرتی خرابیاںپیداکرتاتھا۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے سورۂ احزاب کے پہلے رکوع میں متبنیٰ کی نفی فرمائی‘پھرجب نبی ﷺ کے متبنیٰ حضرت زیدبن حارثہ ؓنے اپنی بیوی حضرت زینبؓ کوطلاق دی تواللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کوحکم دیاکہ آپﷺ خود حضرت زینبؓ سے شادی کرکے عرب کی اس رسم کوعملاًتوڑدیں۔چنانچہ آپﷺ نے اس پرعمل کیااوراس پرنہ صرف مدینے میںبلکہ عرب کے دوسرے حصوںمیںبھی نبی ﷺ کے خلاف پروپیگنڈے کاایک سخت طوفان اٹھ کھڑاہوا۔منافقین‘یہوداورمشرکین سب یہ کہتے تھے کہ انھوںنے اپنی بہوسے شادی کرلی ہے اورجب یہ کہاجاتاتھاکہ جس شخص کی مطلقہ بیوی سے شادی کی گئی ہے وہ آپ کاصلبی بیٹانہ تھااس لیے اس سے شادی کرنا جائز تھا‘ توجواب میںوہ کہتے تھے کہ بالفرض یہ جائزہی سہی‘مگراس فعل کاکرناکیاتھا؟ ان اعتراضات کے جواب میںسورہ الاحزاب کاپانچواںرکوع نازل ہواجس میںپہلے تواللہ تعالیٰ صاف طورپرفرماتاہے کہ نبی نے یہ فعل ہمارے حکم سے کیاہے‘پھرمذکورۂ بالاآیت میں معترضین کوتین جواب دیتاہے:
۱۔یہ کہ محمدﷺتمہارے مردوںمیںسے کسی کے باپ نہیں‘یعنی جونکاح انھوںنے کیاہے‘وہ ’’بہو‘‘سے ہواہی نہیں‘پھراس پراعتراض کیسا۔
۲۔یہ کہ محمدﷺاللہ کے رسول ہیں‘یعنی ان کافرض ہے کہ شریعت الٰہی کے احکام کونہ صرف بیان کریںبلکہ خودان پرعمل بھی کریںاورغیرشرعی رسموںکومٹائیں۔
۳۔یہ کہ وہ خاتم النبیین ہیں‘یعنی وہ رسول بھی ایسے ہیںکہ ان کے بعدکوئی رسول یانبی آنے والا نہیںہے‘اگروہ کسی خرابی کوباقی رہنے دیںتویہ امیدنہیںکی جاسکتی کہ بعد میں کوئی دوسراآکراس کی اصلاح کردے گا۔
اس سیاق وسباق میںنہ یہ معنی لیے جاسکتے ہیںکہ وہ اپنی مہرلگاکرآئندہ نئے نبی بناتے رہیںگے اورنہ یہ معنی لیے جاسکتے ہیںکہ وہ خاتم النبیین بمعنی افضل النبیین ہیںجن پر نبوت کے کمالات توختم ہوگئے مگرسلسلہ نبوت بندنہ ہوا۔ان دونوںمن گھڑت معنوں میں سے جوبھی لیے جائیںگے‘خاتم النبیین کافقرہ اس سیاق وسباق میںبالکل مہمل ہوجائے گا۔
(تقابل کے لیے ملاحظہ ہوضمیمہ نمبر۱۷پیراگراف۱۰)
(ب)نبی ﷺ نے دونہایت واضح الفاظ میںمختلف مواقع پرمختلف طریقوںسے اس کی تشریح فرمادی ہے جس کے بعدکوئی شخص جس کے دل میںذرہ برابربھی ایمان ہو‘کسی دوسری تعبیروتاویل کاتصورتک نہیںکرسکتا۔ضمیمہ نمبر۴میںہم نے وہ تمام احادیث جمع کردی ہیںجواس آیت کی تفسیرمیںنہایت مضبوط سندوںکے ساتھ کتب حدیث میں نبیﷺ سے منقول ہیں۔ان احادیث کودیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضورﷺ نے یہ مضمون ایک دفعہ نہیں‘بارہابیان کیاہے اورایسے صریح الفاظ میںبیان کیا ہے جن سے زیادہ صریح الفاظ اس کے لیے اورکوئی نہیں ہو سکتے۔
(ج)قدیم زمانے سے آج تک امت کے تمام علمائ اس آیت کے وہی معنی سمجھتے رہے ہیںجواوپرہم نے بیان کیے ہیں۔ضمیمہ نمبر۵میںہم نے تیسری صدی سے لے کر تیرہویںصدی تک کے تمام اکابرمفسرین کی تفسیریںنقل کردی ہیںجنھیں دیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ ہرزمانے میںہرملک کے مفسراس کاصرف یہی ایک مطلب لیتے رہے ہیں۔ اس کے سواکسی مفسرکاکوئی قول پیش نہیںکیاجاسکتا۔
(د)نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے متصلاً بعدصحابہ کرامؓ نے بالاتفاق ان سب لوگوںکے خلاف جنگ کی جنھوںنے نبوت کادعویٰ کیایااس دعوے کومانا۔اس سلسلے میںخصوصیت کے ساتھ مسیلمۂ کذاب کامعاملہ قابل ذکرہے۔معتبرروایات سے یہ ثابت ہے کہ مسیلمۂ نے نبی ﷺ کی نبوت کاانکارنہیںکیاتھا۔وہ آپﷺکونبی تسلیم کرتاتھا۔ البتہ خوداپنی نبوت کابھی مدعی تھا۔طبری وہ خط نقل کرتاہے جومسیلمہ نے حضورﷺکی وفات سے پہلے آپﷺ کولکھاتھا۔اس میںوہ لکھتاہے:
من مسیلمۃ رسول اللّٰہ الی محمدرسول اللّٰہ سلام علیک فانی قد اشرکت فی الامرمعک۔
مسیلمہ رسول اللہ کی طرف سے محمدرسول اللہ کی طرف ۔آپ پرسلام ہو۔ آپ کو معلوم ہوکہ میںآپ کے ساتھ امرنبوت میںشریک کیاگیاہوں۔ (جلددوم‘ص ۳۹۹)
مگراس کے باوجودوہ کافراورخارج ازملت قراردیاگیا۔پھرتاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ بنوحنیفہ نیک نیتی کے ساتھ(in good faith)اس پرایمان لائے تھے۔ البدایہ والنہایہ میںابن کثیرنے تفصیل کے ساتھ وہ وجوہبتائے ہیںجن کی بناپربنو حنیفہ اس کے فتنے میںمبتلاہوئے۔اس سلسلے میںوہ بتاتے ہیںکہ ایک شخص رحال بن عنفوہ پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکرمسلمان ہوااورکچھ مدت رہ کرقرآن سیکھتارہا۔پھروہ مسیلمہ کے پاس جاکراس کی نبوت پرایمان لیے آیااوراس نے بنوحنیفہ کویقین دلایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوداس کوشریک فی الامر کیا ہے۔ نیزجوقرآن اس کویادتھااسے اس شخص نے مسیلمہ پرنازل شدہ کلام کی حیثیت سے بنوحنیفہ کے سامنے پیش کیا۔یہی چیزبنوحنیفہ کے لیے سب سے بڑھ کرفتنے کاموجب بنی۔ (جلدپنجم‘صفحہ ۵۱) مگراس نیک نیتی کے باوجود صحابہ کرام نے بنوحنیفہ کومسلمان تسلیم نہیںکیا، اوران پرفوج کشی کی۔
پھریہ کہنے کی بھی گنجائش نہیںہے کہ مسیلمہ اوربنوحنیفہ کے خلاف صحابہ کرامؓ کی جنگ بربنائے دعوائے نبوت نہ تھی بلکہ بربنائے خروج وبغاوت تھی۔اس کی دلیل یہ ہے کہ اسلامی قانون میںجن لوگوںکے خلاف خروج وبغاوت کے جرم میںفوج کشی کی جاتی ہے ان کے اسیروںکوغلام نہیںبنایاجاتا‘خواہ وہ مسلمان ہوںیاذمی۔مگرمسیلمہ کے پیروئوںکے خلاف جوفوج کشی کی گئی تھی‘اس کے آغازہی میںحضرت ابوبکرؓنے یہ اعلان فرمایاتھاکہ:
ان یسبی النساء والذرای ولایقبل من احدغیرالاسلام۔
ان کے بچوںاورعورتوںکوغلام بنالیاجائے گااوران سے اسلام کے سواکوئی چیز قبول نہ کی جائے گی یعنی وہ ذمی نہیںبنائے جائیںگے۔ (البدایہ والنہایہ جلد۶‘صفحہ ۳۱۶)
اورواقعتابھی یہی ہواکہ بنوحنیفہ کے اسیرغلام بنائے گئے اوریہ مشہورواقعہ ہے کہ انہی میںسے ایک لونڈی حضرت علیؓ کے حصے میںآئی۔حضرت علیؓ کے نامور صاجنرادے محمدبن حنیفہ اسی حنفی لونڈی کے بطن سے تھے۔ (البدایہ والنہایہ جلد۶‘صفحہ ۳۲۵)
یہ تھاختم نبوت اورارتدادکے مسئلے میںصحابہؓ کرام کی پوری جماعت کامتفقہ فیصلہ۔ اسلام اوراس کے اصول وقوانین کے لیے قرآن وحدیث کے بعداجماع صحابہؓ سے بڑھ کرکوئی سندنہیںہے اورکم ازکم کوئی معقول آدمی تویہ بات نہیںمان سکتاکہ جن لوگوںنے نبی اکرمﷺ سے براہ راست تعلیم وتربیت پائی تھی ان کی متفقہ رائے تواسلام کی صحیح ترجمان نہ ہواورآج کوئی زیدیابکرجس چیزکواپنی جگہ اسلام سمجھ بیٹھاہووہ اصلی اسلام ہو۔
(ہ)دورصحابہؓ کے بعدسے لے کرآج تک ختم نبوت کے بارے میںامت کے فقہا، محدثین اورمفسرین کاکیامسلک رہاہے‘اسے ہم نے ضمیمہ نمبر۵‘۶میںپیش کردیاہے۔اس میںیہ بات دیکھی جاسکتی ہے کہ ایک ہی بات ہے جسے پہلی صدی ہجری کے امام ابوحنیفہ سے لے کرتیرھویںصدی کے علامہ آلوسی تک سب کہتے چلے آرہے ہیں۔ان میںہندوستان کے مصنّفین فتاوائے عالمگیری‘ایران کے امام غزالی‘ماوراء النہرکے ملاعلی قاری‘ترکی کے اسماعیل حقی‘عراق کے علامہ الوسی‘شام کے علامہ ابن کثیر‘مصرکے امام سیوطی‘یمن کے امام شوکانی‘مراکش کے قاضی عیاض اوراندلس کے ابن حزم سب شامل ہیں۔پھران میں زمخشری معتزلی ہیںتوامام رازی اشعری‘شوکانی اہل حدیث ہیںتوابن حزم ظاہری‘ابن کثیرحنبلی ہیںتوامام غزالی شافعی‘قاضی عیاض مالکی ہیںتواسماعیل حقی اورآلوسی اورابن نجیم وغیرہ حنفی۔اس سے صاف ظاہرہوجاتاہے کہ اس مسئلے میںمشرق سے مغرب تک اورشمال سے جنوب تک ہرملک ‘ہرزمانے اورہرمسلک ومذہب کے مسلمانوںکاعقیدہ ایک ہی رہا ہے اور وہ وہی ہے جسے یہاںآل مسلم پارٹیزکنونشن نے پیش کیاہے۔
۱۵۔یہ امرنظراندازنہ کیاجاناچاہیے کہ ختم نبوت کایہ عقیدہ محض ایک اعتقادی مسئلہ نہیںہے جس میںاختلاف رونماہونے کے اثرات ونتائج صرف فکروخیال کی دنیاتک محدودرہ سکتے ہوں‘بلکہ یہی وہ واحدبنیادہے جس پرمسلمانوںکی پوری قومی عمارت قائم رہ سکتی ہے‘جس کے بقا پرمسلم ملت کی وحدت اوراس کااستحکام منحصرہے اورجس کے متزلزل ہوجانے کے اثرات ونتائج محض’’مذہب‘‘کے دائرے تک محدودرہ جانے والے نہیں ہیں بلکہ تمدنی اورسیاسی اورمعاشی اوربین الاقوامی ہرحیثیت سے ہمارے لیے سخت مہلک ہیں۔ تاریخ میںمسلمانوںکے درمیان عقائداوراصول اورفروع میں بے شمار اختلافات رونما ہوچکے ہیںاوراب بھی ہوئے جارہے ہیںجن کے نہایت برُے اثرات ہمارے اجتماعی زندگی پرمرتب ہوئے ہیںاورہورہے ہیں۔مگرشروع سے آج تک جس چیز نے تمام تفرقوںاوراختلافات کے باجودہم سب کوایک ملت بنارکھاہے اورجس چیزکی بدولت ہمیشہ قومی خطرات ومصائب کے وقت یااہم قومی مسائل پیش آنے پر ہمارا متحد ہوکر کام کرناممکن ہواہے وہ صرف ایک رسول کی پیروی پرہمارامتفق ہوناہے۔یہ ایک بنیادبھی اگرمتزلزل ہوجائے اورنئے نئے رسولوںکی دعوتیںاٹھ کرہمیںالگ الگ امتوں میں بانٹنا شروع کردیںتوپھرکوئی طاقت ہمیںمستقل طورپرپراگندہ ہونے سے نہ بچا سکے گی اورکوئی چیزایسی باقی نہ رہے گی جوہم کوکبھی جمع کرسکے۔اس فتنہ عظیم سے جو لوگ ’’رواداری‘‘برتنے کاہمیںمشورہ دے رہے ہیںوہ صرف یہی نہیںکہ رواداری کے معنی اوراس کے حدود نہیں جانتے اورصرف یہی نہیںکہ وہ اسلام سے ناآشناہیں‘بلکہ درحقیقت وہ بڑی نادانی وبے فکری کے ساتھ مسلم ملت کی قبرکھودناچاہتے ہیں۔خصوصیت کے ساتھ پاکستان کے حق میںتوان کی یہ غلطی قطعی طورپرہلاکت کاپیغام ہے اوراس ریاست کاکوئی بڑے سے بڑابدخواہ بھی اس کے ساتھ وہ بدخواہی نہیںکرسکتاجویہ رواداری کے پیغمبرکررہے ہیں۔یہ ملک مسلمانوںکی متفقہ قومی خواہش سے بناہے اوراسی وقت تک یہ ایک خودمختارریاست کی حیثیت سے قائم ہے جب تک مسلمانوںکی متفقہ قومی خواہش اس کی پشت پناہ ہے۔ دنیا کے دوسرے مسلم ممالک میں‘جہاںزبان ایک ہے‘نسل ایک ہے اورجغرافی حیثیت سے قومی وطن یکجا ہے‘ مسلمانوںکواپنی قومیت کے لیے اسلام کے سوا دوسری بنیادیںبھی مل سکتی ہیں۔ مگرپاکستان جس میں نسل ایک نہ زبان ایک ‘اورجغرافی حیثیت سے جس کے دوٹکڑے ایک ہزارمیل کے فاصلے پرواقع ہیں‘یہاںقومیت کی کوئی دوسری نبیادتلاش کرنے والا اور اس کوممکن سمجھنے والاصرف وہی شخص ہوسکتاہے جولاطائل خیالات کی دنیامیںرہتاہواورجسے عملی سیاست کی ہواتک نہ لگی ہو۔یہاںمسلمانوںکے لیے بنائے وحدت اسلام کے سو ا اور کوئی نہیںہے اوراسلام میںبھی صرف ایک ختم نبوت وہ چیزہے جواس وقت عملاًبنائے وحدت بنی ہوئی ہے۔اس بنیادکورواداری کی مقدس دیوی کے آستانے پربھینٹ چڑھا دیجیے۔پھردیکھیے کہ کون سی طاقت اس عمارت کومسمارہونے سے بچاسکتی ہے۔آج اس اجرائے سلسلہ نبوت کے اثرات زیادہ ترپنجاب تک محدودہیں‘ اس لیے اس کے پورے کرشمے ہماری قومی قیادت کونظرنہیںآتے مگرجب یہ فتنہ اپنی تبلیغ سے دوسرے صوبوںتک پھیل جائے گاتب ان عقلائے روزگارکورواداری کے معنی اچھی طرح معلوم ہو جائیں گے۔

شیئر کریں