Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرض ناشر
دیباچہ
باب اول: قادیانی مسئلہ
ختم نبوت کی نئی تفسیر:
مرزا غلام احمد قادیانی کا دعویٰ نبوت:
قادیانی ایک علیحدہ اُمت :
قادیانیوں کا مذہب مسلمانوں سے جدا ہے :
نئے مذہب کے نتائج :
قادیانیوں کو علیحدہ اُمت قرار دینے کامطالبہ :
ذمہ داران حکومت کا رویہ :
مسلمانوں میں شغل تکفیر:
مسلمانوں میں دوسرے فرقے:
قادیانیوں کے سیاسی عزائم:
پاکستان میں قادیانی ریاست :
قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کا مطالبہ :
قادیانیوں کی تبلیغ کی حقیقت :
انگریزی حکومت کی وفاداری :
قادیانیت کے بنیادی خدوخال :
مسلمانوں کا مطالبہ :
قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے لیے علما کی متفقہ تجویز
علما کے نام
باب دوم: مقدمہ
دیباچہ
جماعت اسلامی کی مخالفت
دیانت داری کاتقاضا :
مخالفین کی بے بسی :
مولانامودودی ؒ کا اصل جرم :
مقدمہ کا پس منظر:
سزائے موت :
ایک عجیب منطق :
رہائی کامطالبہ بھی جرم؟
ہمارے صحافی اوران کاضمیر:
اے پی پی کا افترا:
فرد جرم نمبر۱
بیان نمبر۱: مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی
مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کے دو اخباری بیانات
فرم جرم نمبر۲
بیان نمبر۲ :مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی
مضمون : سزائے موت کے خلاف رحم کی اپیل کی گنجائش
چنداہم نکات
باب سوم
پہلابیان
وہ حالات جولاہور میں مارشل لا جاری کرنے کے موجب ہوئے
اصل مسئلہ اوراس کاپس منظر:
معاشرتی پہلو:
معاشی پہلو:
سیاسی پہلو:
تلخی پیداہونے کے مزیدوجوہ:
لازمی نتیجہ:
قادیانیوں کی اشتعال انگیزی:
مکروہ تقلید :
جماعتیں مسئلے پیدانہیں کرسکتیں:
شتابہ:
جماعت اسلامی کی مساعی:
بے تدبیری کاقدرتی ردعمل:
عام ناراضگی کے اسباب:
ایں گنا ہیست کہ درشہر شمانیز کنند:
ذمہ داری تمام تر بارڈر پولیس کے ظلم وستم پر ہے :
اصلاح حال کی کوشش :
مسلم عوام سر پھرے نہیں ہیں :
مارشل لا :
(۲) اضطراب کو روکنے اور بعد میں ان سے عہدہ برآہونے کے لیے سول حکام کی تدابیر کا کافی یا ناکافی ہونا :
(۳) اضطرابات کی ذمہ داری :
قادیانی مسئلہ کے متعلق میرااور جماعت اسلامی کاطرزعمل
’’رواداری‘‘کانرالاتصور:
غلطی کوغلطی نہ کہو:
عدالت سے درخواست:
اہم حقائق وواقعات
جماعت اسلامی کی دستاویزی شہادت:
قادیانیوں کومشورہ:
احسان شناسی:
دوسرابیان
قادیانیوں سے متعلق مطالبات بیک وقت سیاسی بھی ہیں اورمذہبی بھی:
مسلمانوں اورقادیانیوں کے اختلافات بنیادی ہیں:
تمام منحرفین کواقلیت قراردینے کامطالبہ ضروری نہیں:
ظفراللہ خان کی علیحدگی کے مطالبے کے وجوہ:
کلیدی مناصب کامفہوم اورمطالبہ علیحدگی کے لیے دلائل:
عدالت کے سامنے پیش کردہ قادیانیوں کی بناوٹی پوزیشن:
قادیانیوں کی جارحانہ روش محض اتفاقی نہیں ہے:
کفر‘تکفیراورخروج ازاسلام :
گواہوں کاکٹہراعلمی بحث کے لیے موزوں نہیں:
دستوریہ میں قائداعظمؒ کی افتتاحی تقریرکاصحیح مدعا:
کیاقائداعظمؒ کی تقریردستوریہ کوپابندکرسکتی ہے:
اسلامی ریاست نہ تھیاکریسی ہے اورنہ مغربی طرزکی جمہوریت:
اسلام میں قانون سازی:
اسلامی ریاست کے مطالبے کے حق میں معقول وجوہ موجودہیں:
اسلامی ریاست میں ذمیوں کی حیثیت:
مرتدکی سزااسلام میں:
اسلامی قانون جنگ اورغلامی:
اسلام اورفنون لطیفہ:
فقہی اختلافات اسلامی ریاست کے قیام میں حائل نہیں:
جماعت اسلامی اورڈائریکٹ ایکشن:
۳۰/جنوری کی تقریرمیں فسادات کی دھمکی نہیں بلکہ تنبیہہ تھی:
ڈائریکٹ ایکشن کارائج الوقت تصوراورمفہوم:
ڈائریکٹ ایکشن قطعی حرام نہیں:
راست اقدام کے لیے شرائط مکمل نہ تھیں:
حکومت کی تنگ ظرفی سے جوابی تشددکاخطرہ تھا:
ڈائریکٹ ایکشن کی علانیہ مخالفت نہ کرنے کی وجہ:
تیسرابیان (جومورخہ ۱۳/فروری ۱۹۵۴ء کوتحریری شکل میں عدالت مذکور میں پیش کیاگیا۔)
بجواب نکتہ اول :(الف) درباب نزول مسیح علیہ السلام

قادیانی مسئلہ

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

جماعت اسلامی اورڈائریکٹ ایکشن:

۱۵۔اب میںان حالات کوکسی قدرتفصیل کے ساتھ بیان کروںگاجوڈائریکٹ ایکشن اورمخالف احمدیت تحریک کے سلسلے میںبراہ راست مجھ سے متعلق ہیں۔میںنے اپنے ۲۹/جوالائی کے بیان میںاس قدرزیادہ تفصیلات پیش کرناغیرضروری سمجھا تھا مگر اب جوشہادتیںآپ کی عدالت میںپیش ہوئی ہیںان میںبکثرت باتیںخلاف واقعہ ہیں، اس لیے میںضرورت محسوس کرتاہوںکہ صحیح واقعات پوری وضاحت کے ساتھ تحریرکردوں۔
۱۶۔کنونشن کی سبجکٹس کمیٹی میں(جس کااجلاس ۱۶ / اور ۱۷یا۱۷ / اور ۱۸جنوری ۱۹۵۳ء کی درمیانی شب کوہواتھا)میری یہ تجویزکافی بحث کے بعدبالاتفاق پاس ہوئی تھی کہ قادیانیت کے بارے میںکوئی الگ جدوجہدنہ کی جائے بلکہ اس معاملے کو اس جدو جہد میںضم کر دیا جائے جوبی۔پی۔سی رپورٹ کی اصلاح کے لیے کی جانے والی ہے۔یہ فیصلہ اس وقت لکھ لیا گیاتھااورطے ہواتھاکہ دوسرے دن یہی تجویز سبجکٹس کمیٹی کی طرف سے کنونشن میںپیش کی جائے گی۔کم ازکم میرے سامنے کسی شخص نے اس فیصلے کے تحریر کیے جانے کے وقت اظہار اختلاف نہیںکیا۔
۱۷۔دوسرے روزغالباً۱۸ / جنوری کوجب میںکنونشن کے اجلاس میں پہنچا تو میرے بیٹھتے ہی صاحب صدرمولاناابوالحسنات نے اپنایہ فیصلہ سنایاکہ’’یہ کنونشن صرف تحفظ ختم نبوت کے لیے بلائی گئی ہے‘یہاںکوئی دوسرامسئلہ حتیٰ کہ اسلامی دستورکامسئلہ بھی نہیں چھیڑا جاسکتا۔‘‘اس کے بعدفوراًتاج الدین انصاری صاحب اٹھے اورانھوںنے ایک لکھا لکھایا ریزولیوشن پڑھناشروع کردیاجس میںوزیراعظم کے پاس وفدبھیجنے اور ان کومطالبات تسلیم کرنے کے لیے ایک مہینے کانوٹس دینے اورعدم تسلیم کی صورت میںڈائریکٹ ایکشن شروع کردینے کی تجویزدرج تھی۔مجھے اس وقت قطعاًیہ معلوم نہیںہواکہ میرے آنے سے پہلے ہی سبجکٹس کمیٹی کی طے کردہ تجویزکنونشن میں پیش بھی ہوچکی ہے اورردبھی کی جاچکی ہے۔یہ بات ایک مدت درازکے بعدمجھے اب معلوم ہوئی ہے۔بعض گواہوںنے غالباًصحیح واقعہ یادنہ ہونے کی وجہ سے یہ کہہ دیاہے کہ سبجکٹس کمیٹی کافیصلہ خودمیںنے کنونشن میںپیش کیاتھا۔واقعہ یہ ہے کہ سب کنونشن کے سامنے سرے سے وہ دلائل آئے ہی نہیں جو میںاس فیصلے کے حق میںرکھتاتھااورمجھے شبہ ہے کہ سبجکٹس کمیٹی کے جوارکان وہاں موجود تھے ‘انھوںنے بھی کنونشن کویہ بتانے کی کوشش نہیںکی کہ رات سبجکٹس کمیٹی کن وجوہ سے اس فیصلے پرپہنچی تھی۔میری غیرموجودگی میںیہ ایک لاوارث تجویزتھی جو حاضرین کے سامنے پیش کی گی اور مولانا عبدالحلیم قاسمی کی شہادت کے مطابق شوروہنگامہ میں ردکردی گئی۔
۱۸۔ڈائریکٹ ایکشن کاریزولیوشن جب پیش ہوااس وقت میرافوری ردعمل یہ تھاکہ اٹھ کراس کی مخالفت کروںاوراگریہ لوگ نہ مانیںتوکنونشن سے اپنی اور جماعت اسلامی کی علیحدگی کااعلان کردوں۔چنانچہ اسی نیت سے میںنے تقریرکی اجازت کے لیے صدرکوایک چٹ لکھ کربھی دے دی تھی لیکن مزیدغورکرنے کے بعدمیںاس نتیجہ پرپہنچاکہ علیحدگی اختیارکرکے میںاپنادامن توایک غلط اورنقصان دہ کارروائی کی ذمہ داری سے بچالوں گا مگر ملک کو، اورخصوصاًپنجاب کے مسلمانوںکوان نقصانات سے نہ بچا سکوں گا جو اس اقدام سے پہنچنے یقینی تھے۔اس لیے میںنے اپنی رائے بدل دی اوربراہ راست اس ریزولیوشن کی مخالفت کرنے کے بجائے یہ تجویزپیش کی کہ ایک مرکزی مجلس عمل بنائی جائے جوکنونشن کی شریک جماعتوںکے ذمہ دارلیڈروںپرمشتمل ہواوریہ پوری تحریک کلیتہً اسی مجلس کی رہنمائی میںچلائی جائے‘اس کے سواکسی اورکواس سلسلے میںکوئی پروگرام بنانے یا کارروائی کرنے کااختیارنہ ہو۔اس تجویزسے میرامقصدیہ تھاکہ معاملہ جب چندذمہ دار لیڈروںکے ہاتھ میںدیاجائے گاتوان کووہ نشیب وفرازاچھی طرح سمجھائے جاسکیںگے جو اس وقت کنونشن کے حاضرین نہیںسمجھ سکتے اوربہرحال اس طرح کی ایک مجلس اندھا دھند کارروائیاں کرنے پرآمادہ نہ ہوگی۔میری یہ تجویزوہاںمان لی گئی اورجہاںتک مجھے یاد ہے حسب ذیل آٹھ ارکان اسی وقت مرکزی مجلس کے رکن منتخب ہوگئے ۔ مولاناابوالحسنات صاحب، مولانا احتشام الحق صاحب‘مولانامحمداسماعیل صاحب (گوجرانوالہ)‘ حافظ کفایت حسین صاحب‘ ابوالاعلیٰ مودودی‘ پیرصاحب سرسینہ شریف ‘مولاناعطاء اللہ بخاری اورماسٹر تاج الدین انصاری۔ان آٹھ ارکان کویہ اختیاردیاگیاکہ اپنے ساتھ سات مزید ارکان کوشامل کرکے مجلس کی ترکیب مکمل کرلیں۔ارکان کے اس انتخاب کے بعدکنونشن نمازمغرب سے کچھ پہلے برخاست ہوگیا۔
۱۹۔۱۸ / جنوری کی رات کواگرمرکزی مجلس عمل کے کچھ ارکان کہیںجمع ہوئے اور انھوںنے کچھ فیصلے کیے تونہ ان کے اس اجتماع کومرکزی مجلس کااجلاس کہاجاسکتاہے اور نہ ان کے یہ فیصلے مجلس کے باضابطہ فیصلے کہے جاسکتے ہیں۔اس لیے کہ اس اجلاس کی کوئی اطلاع مجھے اورمجلس کے بعض دوسرے ارکان کونہیںدی گئی۔واقعہ یہ ہے کہ اب اخبارات میں مولاناابوالحسنات صاحب اوربعض دوسرے اصحاب کی شہادتیںپڑھ کریہ بات پہلی مرتبہ میرے علم میںآئی ہے کہ ان حضرات نے ۱۸/جنوری کی رات کوکسی دعوت کے موقع پر مجھے اس اجلاس کی دعوت دی تھی۔نیزیہ بیان بھی بالکل خلاف واقعہ ہے کہ اس اجلاس میںمیری طرف سے سلطان احمدصاحب شریک ہوئے۔
۲۰۔تاہم اگریہ مان بھی لیاجائے کہ ۱۸/جنوری کی رات کومرکزی مجلس کاکوئی اجلاس ہواتھاتواس وقت زیادہ سے زیادہ جوکارروائی ہوسکتی تھی وہ بس یہ ہوسکتی تھی کہ ساتھ آدمیوں کو(co-opt)کرنے کافیصلہ کیاجاتا۔اس کے بعدضروری تھاکہ ان سات آدموں کواس فیصلے کی اطلاع دی جاتی‘پھران کی منظوری حاصل کرنے کے بعدباقاعدہ اطلاع دے کر مجلس کامکمل اجلاس بلایاجاتااوراس اجلاس میںآگے کام کاکوئی پروگرام بنایا جاتا۔ آخر یہ کس طرح ممکن ہے کہ دوچاردن کے اندریہ سارے مراحل طے بھی ہوگئے ہوں اور ایک باقاعدہ اجلاس میںوہ وفدترتیب بھی دے دیاگیاہوجو۲۳/جنوری کوایک مہینے کانوٹس دینے کے لیے خواجہ ناظم الدین سے ملا۔حقیقت یہ ہے کہ میں۲۴/جنوری کی صبح تک کراچی میں رہا ہوںاوراس پوری مدت میںمجھے ان کارروائیوںکی کوئی خبر نہیںہوسکی جویہ چندحضرات بطور خودکرتے رہے۔۲۴/کی صبح کو کراچی سے روانہ ہونے کے بعدریل میںوفدکی ملاقات کاذکراخبارات میںمیری نگاہ سے گزرا اور میں اس پرحیران رہ گیا۔ میںپھراس بات کو پورے زورکے ساتھ دہراتا ہوں کہ اس وفدکونہ کنونشن نے ترتیب دیا تھا اور نہ مرکزی مجلس عمل کے کسی باقاعدہ اجلاس نے۔
۲۱۔پھراگرتھوڑی دیرکے لیے یہ بھی مان لیاجائے کہ یہ ایک باقاعدہ وفدتھاتوعقل عام اوردنیابھرکے مسلمہ طریق کارکاتقاضایہ تھاکہ یہ وفدوزیراعظم سے گفتگوکرنے کے بعدمرکزی مجلس عمل کواپنی رپورٹ پیش کرتا۔پھریہ فیصلہ کرنااس مجلس کاکام تھاکہ وزیراعظم کاجواب قابل اطمینان ہے یانہیںاوراس پرآگے کیاقدم اٹھاناچاہیے۔خواجہ ناظم الدین صاحب کے ساتھ وفدکی گفتگوکاخلاصہ مولاناعبدالحامدصاحب بدایونی نے اب عدالت کے سامنے بیان کیاہے۔یہ پہلی مرتبہ ان کی شہادت سے میرے علم میںآیاہے۔میںپورے وثوق کے ساتھ کہتاہوںکہ اگرمرکزی مجلس کاکوئی اجلاس ہوتااوراس میںیہ خلاصہ بیان کیاجاتاتومجلس کبھی اس نتیجے پرنہیںپہنچ سکتی تھی کہ خواجہ صاحب کاجواب اس حدتک ناقابل اطمینان ہے کہ اس پرآگے کسی مزیدگفت و شنید کا امکان نہیںاوربس اب ڈائریکٹ ایکشن ہی شروع کردیناچاہیے۔مگران حضرات نے وزیراعظم سے ملاقات کے بعدبطورخودہی یہ فیصلہ کردیاکہ ان کاجواب مایوس کن ہے اورپھربطورخودہی وہ کارروائی بھی شروع کردی جو اس مایوس کن جواب کے بعدوہ کرناچاہتے تھے۔اس وقت تک بھی ہمیںمعلوم نہیں ہو سکا ہے کہ ۲۳/ جنوری کے بعدسے۲۶/فروری تک جوسرگرمیاںمسلسل جاری رہیںاورایک مہینے کی معیادگزرنے پرجس اقدام کالوگوںکومتوقع کیاگیااس کافیصلہ مرکزی مجلس عمل کے کس اجلاس میں ہوا تھا اور کب یہ پروگرام بنایاگیاتھا؟
۲۲۔آگے بڑھنے سے پہلے میںایک خاص واقعے کی حقیقت کھولناضروری سمجھتا ہوں اوروہ یہ ہے کہ۱۵/فروری کوایک جلسہ عام میںمیرانام لے کریہ اعلان کیاگیاکہ اس نے جلسے میںعدم شرکت کی معذرت لکھ کربھیجی ہے اوریہ لکھاہے کہ میںآپ کے ساتھ ہوں۔ درحقیقت یہ محض ایک من گھڑت اعلان تھا۔میںنے ایساکوئی خط کسی کو نہیں لکھا۔ جس شخص کے متعلق آئے دن غلط بیانیاںہوتی رہتی ہوں،اس کے لیے یہ بہت مشکل ہے کہ وہ ہر روزان کی تردیدکرتارہے۔
۲۳۔میرے لیے یہ بہت مشکل تھاکہ ایک نظام میںشریک ہوجانے کے بعداس کی غلطیوںاورخرابیوںکی اصلاح کاحق خوداس کے اندراداکرنے سے پہلے اس کے خلاف کھلم کھلاپبلک میںکوئی اظہارخیال شروع کردیتا۔اسی لیے میںنے اصلاح کی تمام ترکوشش نظام کے اندرہی رہتے ہوئے کی اور۱۳ / اور۱۷ / فروری کواپنے نمائندوںکے ذریعہ سے وہ اعتراضات بھیجے جن کاذکرمیںاپنے۲۹جولائی کے بیان میں کرچکا ہوں۔ میرے ہی اصرار پر۱۷فروری کویہ طے ہواکہ جلدی سے جلدی مرکزی مجلس عمل کااجلاس لاہور میں ہو گا اور پھر یکایک ۲۱فروری کوایک نیادعوت نامہ جاری ہوا(مجھے ۲۲ کوملا) جس میںخبردی گئی کہ یہ اجلاس لاہورکے بجائے کراچی میںہوگا۔میںاس زمانہ میں بیماری کے باعث سفرکرنے سے معذورتھا،اس لیے مجھے مجبوراًسلطان احمدصاحب کو لکھنا پڑا کہ وہ میری طرف سے اس اجلاس میںنمائندگی کریں۔۲۶فروری کایہ اجلاس حقیقت میںاس مجلس کا پہلا باقاعدہ اجلاس تھااوروہی آخری اجلاس بھی تھا،کیونکہ اس میںمجلس ہی توڑدینے کافیصلہ کر دیاگیا۔اس کے بعدمیںآزادتھاکہ پبلک میںان حضرات کے طریق کارسے اختلاف کروں۔ چنانچہ یہ اختلاف میںنے اپنے ۲۸/فروری کے بیان میں (جویکم مارچ کے تسنیم میں شائع ہوا)اوراپنے پمفلٹ ’’قادیانی مسئلہ‘‘کے اردو اور انگریزی‘دونوںایڈیشنوں کے آخری پیراگرافوںمیںکیا۔نیزجماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ نے اپنے اس ریزولیوشن میںبھی جو۷/مارچ کے تسنیم میںشائع ہواہے‘اس طریق کارسے علانیہ اظہاراختلاف کر دیا۔
۲۴۔۲۷/فروری کی شام کوسیدخلیل احمدصاحب اورحافظ خادم حسین صاحب مجھ سے ملے اورانھوںنے کہاکہ تحریک کے بڑے بڑے لیڈرگرفتارہوچکے ہیں‘اب آپ ہی باقی ہیں، لہٰذاآپ ہماری رہنمائی کریں۔میںنے ان سے کہاکہ مجلس عمل کے جولیڈرلاہور میں موجودہیں،انہیںآپ کل صبح میرے ہاںلے آئیے پھرمشورے کے بعدمیںکچھ عرض کرسکوںگا، اس سے زائداس وقت کوئی بات نہیںہوئی۔یہ محض ایک غلط بیانی ہے کہ اس وقت میںنے ان حضرات سے کہاکہ آپ والنٹیرکراچی بھیجنے کاسلسلہ جاری رکھیں۔
۲۵۔۲۷/فروری کی صبح کومیرے مکان پرحسب ذیل حضرات تشریف لائے۔ مولانا دائودغزنوی‘مولانامحمداسماعیل صاحب‘سیدخلیل احمدصاحب‘مولوی طفیل احمدصاحب (جمعیۃ علما ئے اسلام والے)ان کے علاوہ دوتین اصحاب اوربھی تھے جن کے نام میں نہیں جانتا اور نہ میری ان سے پہلے کی کوئی واقفیت تھی۔بعدمیںمولاناعبدالستارنیازی صاحب بھی تشریف لے آئے تھے۔اس موقع پرجوکچھ میںنے ان سے کہاجس کاخلاصہ یہ تھاکہ یہ ڈائریکٹ ایکشن ‘کنونشن کی بعض جماعتوںنے بالکل من مانے طریقے پرشروع کیاہے اورآپ لوگ جانتے ہیںکہ اس کاہرگزمویدنہ تھا۔میں بلاشبہ مقصدسے متفق ہوں‘ مگرطریق کارکوغلط اورنقصان دہ سمجھتاہوں۔میرے نزدیک اس سے نہ صرف یہ کہ اس مقصدکونقصان پہنچے گابلکہ تمام دینی جماعتوںکے وقارکواوران تمام دینی مقصدکوجن کے لیے ہم اب تک کوشش کرتے رہے ہیں، ایساصدمہ پہنچے گاجس کی تلافی مشکل ہی سے ہوسکے گی۔اب اس کے سوا چارہ نہیںہے کہ پنجاب میںبھی مجلس عمل کے نظام کو توڑ دیا جائے۔ جن جماعتوں نے یہ کام شروع کیاہے وہ اپنی ذمہ داری پراگراسے جاری رکھنا چاہیں تو رکھیں‘ مگر جو جماعتیں اس میںشریک نہیںہوناچاہتیں،انہیںاس سے علیحدہ رہنے دیا جائے۔ جماعت اسلامی کی حد تک میںصاف کہے دیتاہوںکہ ہم اس میںکوئی حصہ نہ لیںگے اوراپنے ایک آدمی کوبھی اس میںشریک ہونے کی اجازت نہ دیںگے۔البتہ اصل مقصدکے لیے ہم اپنے طریق کارکے مطابق کوشش جاری رکھیںگے اورآپ کے طریق کار سے مسلمانوں پر جو مصائب نازل ہوںگے‘ان سے بھی جہاںتک ہمارے بس میں ہوگا‘ انہیںبچانے کی پوری کوشش کریںگے۔اس کے ساتھ میںنے ان لوگوںسے یہ بھی عرض کیاکہ اگرآپ اصل مقصدکوعزیزرکھتے ہیںتوبراہ کرم ان لوگوںکواپنے ساتھ الجھانے کی کوشش نہ کریںجوآپ کے شریک کارہوناپسندنہیںکرتے۔اسی پربات ختم ہوگئی اورکم ازکم میرااحساس یہی ہے کہ میری یہ صاف گوئی اس وقت کسی کوناگوارنہیںتھی۔سیدخلیل احمد صاحب نے مجلس کے خاتمے پرمجھ سے کہاکہ اگرہم آپ سے کبھی مشورہ لیناچاہیںتوآپ ہمیںمشورہ دینے سے تو پرہیزنہ کریںگے؟میںنے کہاکہ’’کوئی مسلمان بھی جب میرا مشورہ طلب کرے تو میں جو کچھ صحیح سمجھتاہوں‘اسے بتانے میںتامل نہیںکرتا۔اوراس وقت میراپہلامشورہ آپ کویہ ہے کہ جلدی سے جلدی اس بدنظمی کودورکیجیے جویکایک عوام کے مظاہروںمیںرونماہوگئی ہے‘اپنی تحریک کواخلاق کے ان حدودمیںلائیے جو’’ختم نبوت‘‘ جیسے پاکیزہ نام پراٹھنے والی تحریک کے شایان شان ہے‘اوراپنی تحریک کوبدامنی اورتشددکے رخ پرجانے سے روکیے‘‘۔یہ میراپہلااورآخری مشورہ تھاکیونکہ اس کے بعدمجھ سے نہ کوئی مشورہ طلب کیاگیا اورنہ میںنے دیا۔اب اس مجلس اوراس گفتگوکویہ رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ گویا میںنے اس روزاپنے گھرپربیٹھ کرکوئی خفیہ سازش کی تھی اورمیراان سے یہ سمجھوتہ ہواتھا کہ تم ڈائریکٹ ایکشن کرکے جیلوں میں جائو اور میں گرفتاری سے بچ کرباہرکام کروںگا۔مگراس بدگمانی کے متعلق میںاس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتاکہ لوگ اپنی طینت اوراپنی افتادطبع ہی کے مطابق رائے قائم کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کے لیے یہ تصورکرنامشکل ہے کہ دنیامیںکوئی شخص واقعی ایمان داراوربااصول اور حدود شناس بھی ہوسکتاہے۔
۲۶۔۲۷/فروری کے بعدجوجلسے لاہورمیںہوئے ان میںمتعددمرتبہ ڈائریکٹ ایکشن کی تحریک کے بعض غیرذمہ دارلیڈروںنے عوام کوجماعت اسلامی کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی۔اوراس بات پرلوگوںکواکسایاکہ وہ میرے مکان پرہجوم کرکے آئیںاورمجھے اس تحریک میںشامل ہونے پرمجبورکریں۔اس فتنے کوروکنے کے لیے طفیل محمد صاحب نے جوبیان ’’تسنیم‘‘میںشائع کرایاتھااس سے بھی یہ معنی نکالنے کی کوشش کی جار ہی ہے کہ جماعت اسلامی اورڈائریکٹ ایکشن کی تحریک کے لیڈروںمیںکوئی اندرونی سمجھوتہ تھا جس کے مطابق کچھ کام ہم نے اورکچھ انھوںنے اپنے ذمے لے رکھاتھا۔حالانکہ دراصل طفیل محمدصاحب کااشارہ اس گفتگوکی طرف تھاجس کاذکرمیںنے اوپرپیراگراف نمبر۲۵ میںکیاہے۔

شیئر کریں