۱۰۔اسلامی ریاست میں غیرمسلموں کی حیثیت کے متعلق عدالت میں جوسوالات چھیڑے گئے ہیں،ان کے جوابات سلسلہ وارحسب ذیل ہیں:
(الف)اسلامی ریاست کی غیرمسلم رعایاکواسلامی اصطلاح میں’’ذمی‘‘ کہا جاتا ہے۔ ذمی کوئی گالی نہیںہے اورنہ یہ لفظ شودراورملیچھ کاہم معنی ہے۔ذمہ عربی زبان میں (guarantee)کوکہتے ہیںاورذمی وہ شخص ہے جس کے حقوق اداکرنے اورمحفوظ رکھنے کا اسلامی حکومت نے ذمہ لیاہو۔اسلامی حکومت یہ ذمہ محض اپنی طرف سے یامسلم باشندوں کی طرف سے نہیںبلکہ خدااوررسولﷺ کی طرف سے لیتی ہے اوراس کی اہمیت اس درجے کی ہے کہ اگرکسی غیرمسلم حکومت میںمسلمانوںکاقتل عام بھی کرڈالاجائے توہم انتقاماً اپنے ملک میںاس کے ہم مذہب ذمیوںکابال تک بیکانہیںکرسکتے۔ایک اسلامی حکومت میںکوئی پارلیمنٹ ان کے شرعی حقوق غصب کرنے کی سرے سے مجازہی نہیںہے۔
(ب)ذمیوںکی تین قسمیںہیں:اول وہ جوکسی معاہدے کے ذریعہ سے اسلامی حکومت کے تابع ہوئے ہوں۔دوم وہ جوبزورشمشیرفتح ہوئے ہوں۔سوم وہ جونہ مفتوح ہوںاورنہ جن سے کوئی باقاعدہ معاہدہ ہی ہواہو۔پہلی قسم کے ذمیوںسے اس معاہدے کے مطابق برتائوکیاجائے گاجوان سے طے کیاگیاہو۔دوسری قسم کے ذمیوںکووہ حقوق دئیے جائیںگے جوشریعت میںاہل ذمہ کے لیے مقررکیے گئے ہیں۔رہے تیسری قسم کے ذمی، توانہیں بہرحال دوسری قسم والوںکے حقوق تودئیے ہی جائیںگے،اورمزیدایسے حقوق بھی ہم ان کودے سکتے ہیںجواسلامی اصولوںسے نہ ٹکراتے ہوں اور جنھیں دیناہم اپنے حالات کے لحاظ سے مناسب سمجھیں۔
(ج)ذمیوںکے کم سے کم حقوق جوشریعت میںمقررکیے گئے ہیں‘یہ ہیں:مذہب کی پوری آزادی ‘مذہبی تعلیم کی اجازت‘مذہبی لٹریچرطبع اورشائع کرنے کی اجازت‘قانون کے حدودمیںمذہبی بحث کی آزادی،معابدکی حفاظت،پرسنل لاکی حفاظت،جان ومال اور عزت کی حفاظت‘دیوانی اورفوجداری قوانین میںمسلمانوںکے ساتھ پوری مساوات، حکومت کے عام برتائومیںذمی اورمسلم رعایاکے درمیان عدم امتیاز۔معاشی کاروبارکے ہر میدان میںمسلمانوںکی طرح یکساںمواقع، حاجت ہونے کی صورت میںمسلمان کی طرح ذمی کابھی بیت المال سے مددپانے کااستحقاق۔یہ حقوق اسلامی ریاست صرف کاغذ ہی پرنہیںدیتی بلکہ وہ اپنے دین وایمان کی روسے عملاًانہیںاداکرنے پر مجبور ہے۔قطع نظر اس سے کہ غیرمسلم ریاستیںمسلمانوںکو کاغذپرکیاحقوق دیتی ہیں اور عملاً کیا۔
(د)ذمیوںکوصرف امصارمسلمین میںنئے معابدبنانے سے روکاگیاہے البتہ اگر ان کے پرانے معابدوہاںموجودہوںتووہ ان کی حفاظت اورمرمت کرسکتے ہیں۔اب امصار مسلمین سے مرادوہ شہرہیںجومسلمانوںنے خاص اپنے لیے آبادکیے ہوں‘جیسے کوفہ اوربصرہ اورفسطاط۔باقی رہے ملک کے دوسرے شہراورقصبے اوردیہات ‘توان کو وہاں نئے معابد تعمیر کرنے اورپرانے معابدکی مرمت کرنے کی پوری آزادی ہوگی۔
(ہ)ذمیوں پر لباس وغیرہ کے متعلق جن قیودکاذکربعض فقہی کتابوںمیںکیاگیاہے اس سے کسی قسم کی غلط فہمی نہ ہونی چاہیے۔دراصل یہ تین قسم کی قیودتھیںجوپہلی دوسری صدی ہجری کے فقہائ نے حالات وضروریات کے لحاظ سے عائدکی تھیں:
پہلی قسم کی قیودوہ تھیںجن میںذمیوںکوفوجی وردی استعمال کرنے سے روکا گیا تھا۔ مسلمانوںکواس چیزسے اس لیے نہیںروکاگیاکہ ہربالغ مسلمان مردکے لیے اس وقت فوجی خدمت لازمی تھی اورذمی اس سے مستثنیٰ تھے۔
دوسری قسم کی قیودوہ تھیںجن میںمسلمانوںکوغیرمسلموںکے اورغیرمسلموںکو مسلمانوںکے مشابہ بننے سے روکاگیاتھا‘کیونکہ اس طرح کے تشبہ میںبہت سی قباحتیں ہیں۔ اس میںاندیشہ ہے کہ مختلف تہذبیوںکے مصنوعی اختلاط سے ایک دوغلی تہذیب پیدا ہوجائے گی۔اس میںیہ بھی اندیشہ ہے کہ مسلمانوںکے سیاسی غلبے سے مرعوب ہوکر غیرمسلموںمیںوہ غلامانہ خصوصیات پیداہوجائیںگی جن کی وجہ سے مغلوب قوم اپنے لباس اور اپنی معاشرت میںغالب قوم کی نقل اتارنے لگتی ہے۔اسلام اس طرح کی ذہنیت کوکسی کافرمیںبھی پرورش ہوتے نہیںدیکھناچاہتا۔اسی لیے غیرمسلموںکوحکم دیاگیاکہ وہ اپنی تہذیب ومعاشرت اوراپنے مذہب کی خصوصیات کومحفوظ رکھیںاورمسلمانوںکی ریس نہ کریں۔چنانچہ فقہ حنفی کی مشہورکتاب بدائع الصنائع میںیہ حکم ان الفاظ میںبیان ہواہے:
ان اھل الذمۃ یوخذون باظھارعلامات یعرفون بھاولایترکون یتشبھون بالمسلمین فی لباسھم: (جلد۷‘ص۱۱۱)
اہل ذمہ کوایسی علامت اورنشانیاںرکھنے کاپابندکیاجائے گاجن سے وہ پہچانے جائیں اوران کواپنے لباس میںمسلمانوںکے مشابہ بننے سے روکاجائے گا۔
علاوہ بریںاس میںقانونی پیچیدگیاںپیداہونے کابھی اندیشہ ہے۔مثلاً مسلمانوں کے لیے شراب پینا‘رکھنااوربیچنافوجداری جرم ہے اورذمیوںکے لیے یہ جرم نہیں ہے۔ اب اگرایک مسلمان ذمیوںکے مشابہ لباس پہنے تووہ پولیس کے مواخذہ سے بچ سکتا ہے اور اگرایک ذمی مسلمانوںکے مشابہ بن کررہے تووہ پولیس کی گرفت میںآسکتا ہے۔تیسری قسم کی قیوداس وقت کے مخصوص حالات کی وجہ سے عائدکی گئی تھیں۔اس وقت سندھ سے لے کراسپین تک بہت سے ممالک مسلمانوںکی تلوارسے مفتوح ہوئے تھے اورقدرتی طور پر ان سب ملکوںکی آبادی میںسابق حکمران طبقوںکے ایسے کثیرالتعدادلوگ موجودتھے جن میںاپناکھویاہوااقتدارواپس لینے کادم داعیہ تھا۔مسلمانوںنے دنیاکے دوسرے فاتحین کی طرح ان طبقوںکوتہ تیغ نہیںکیاتھا، بلکہ ذمی بناکرمحفوظ ومامون کردیاتھا۔مگربہرحال سیاسی مصالح کی بناپران کوکچھ نہ کچھ دباکررکھناضروری تھاتاکہ وہ پھرسراٹھانے کی ہمت نہ کریں۔اس لیے ان کواپنی سواریوںاوراپنے لباس اوردوسرے لوازم معاشرت میںوہ شان دکھانے سے روک دیاگیاجس سے ان کے دورحکمرانی کی یادتازہ ہوتی ہو۔اس طرح کے احکام وقتی تھے نہ کہ ابدی اوریہ احکام چاہے فقہ کی کتابوںہی میںلکھے گئے ہوں مگر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تمام اہل ذمہ پران کوچسپاںنہیںکیاجاسکتا۔
(و)اسلامی حکومت میںکوئی غیرمسلم صدرریاست‘وزیر‘سپہ سالار‘قاضی اورایسے کلیدی مناصب کاحامل نہیںبن سکتاجہاںوہ حکومت کی پالیسی میںحصہ دارہوسکے۔اس کی وجہ کوئی تعصب نہیںہے بلکہ اس کی صاف اورسیدھی وجہ یہ ہے کہ اسلامی حکومت ایک نظریے کواچھی طرح سمجھتاہواوراس کی صحت وصداقت پرایمان رکھتاہو۔اسلامی حکومت چونکہ خلوص اورایمان داری پرقائم ہوتی ہے اس لیے وہ اپنی غیرمسلم رعایامیںبھاڑے کے ٹٹوئوںکی سی ذہنیت(mercenary spirit)پیداکرناپسندنہیںکرتی۔اس کے برعکس وہ ان سے کہتی ہے کہ اگرتم ہمارے نظریے اوراصولوںکوصحیح سمجھتے ہوتوان کی صداقت کاعلانیہ اقرارکرو‘تمہارے لیے حکمران جماعت میںشامل ہونے کے مواقع کھلے ہوئے ہیں۔ اور اگر تم ان کی صداقت پرایمان نہیںرکھتے تومحض پیٹ اورجاہ طلبی کی خاطراس نظام کوچلانے اورفروغ دینے کے لیے نہ آئوجسے عقیدتاًتم غلط سمجھتے ہو۔
(س)ہمارے لیے یہ سوال قطعاًکوئی اہمیت نہیںرکھتاکہ غیرمسلم حکومتیںاپنے دائرہ اقتدارمیںمسلمانوںکے ساتھ کیاسلوک کرتی ہیںاورکیانہیںکرتیں۔ہم جس چیزکوحق سمجھتے ہیںاس پراپنے ملک میںعمل کریںگے اوردوسرے جس چیزکوحق سمجھیںاسے عمل میں لانے کے لیے وہ آزادہیں۔آخرکارہمارااوران کامجموعی طرزعمل دنیاکی رائے عامہ کے سامنے واضح کردے گاکہ ہم کیاہیںاوروہ کیا۔ہم بہرحال یہ مکاری نہیںکرسکتے کہ اپنے دستورکے صفحات پرغیرمسلموںکوسارے نمائشی حقوق دے دیںمگرعملاًان کی وہ حالت بنا کررکھیںجوہندوستان میںمسلمانوںکی‘امریکہ میںجشیوںاورریڈانڈین قبائل کی اور روس میں غیراشتراکی لوگوںکی ہے۔رہایہ سوال کہ کیاایسی حالت میںغیرمسلم اقلیتیںاسلامی حکومت کی وفاداربن کررہ سکیںگی؟تواس کاجواب یہ ہے کہ وفاداری اورناوفاداری دستور کے چند لفظوںسے پیدانہیںہوتی بلکہ اس مجموعی برتائوسے پیداہوتی ہے جوحکومت اور اکثریت اپنی زیراثراقلیتوںکے ساتھ عملاًاختیارکرے۔