اسلامی ریاست، جس کاقیام اورفروغ ہمارانصب العین ہے، نہ تومغربی اصطلاح کے مطابق مذہبی حکومت(theocracy)ہے اورنہ جمہوری حکومت (democracy) بلکہ وہ ان دونوںکے درمیان ایک الگ نوعیت کانظام سیاست وتمدن ہے جوذہنی الجھنیںآج کل مغربی تعلیم یافتہ لوگوںکے ذہن میں’’اسلامی ریاست‘‘کے تصورکے متعلق پائی جاتی ہیںوہ دراصل ان مغربی اصطلاحات کے استعمال سے پیداہوتی ہیںجولازماًاپنے ساتھ مغربی تصورات اورپیچھے مغرب کی تاریخ کاایک پوراسلسلہ بھی ان کے ذہن کے سامنے لے آتی ہیں۔مغربی اصطلاح میںمذہبی حکومت (theocracy)دوبنیادی تصوارت کامجموعہ ہے:
(۱)خداکی بادشاہی قانونی حاکمیت(sovereignty)کے معنی میںاور (۲)پادریوںاورمذہبی پیشوائوںکاایک طبقہ جوخداکانمائندہ اورترجمان بن کرخداکی اس بادشاہی کوقانونی اورسیاسی حیثیت سے عملاًنافذکرے۔
ان دوتصورات پرایک تیسرے امرواقعی کابھی وہاںاضافہ ہواہے اوروہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام انجیل کی اخلاقی تعلیمات کے سواکوئی قانونی ہدایت نامہ چھوڑ کرنہیں گئے۔اورسینٹ پال نے شریعت کولعنت قراردے کرعیسائیوںکواحکام تورات کی پابندی سے آزادکردیا۔اب اپنی عبادات‘معاشرت‘معاملات اورسیاست وغیرہ کے لیے عیسائیوں کوقوانین واحکام کی جوضرورت پیش آئی، اسے ان کے مذہبی پیشوائوںنے اپنے خودساختہ احکام سے پوراکیااوران احکام کوخدائی احکام کی حیثیت سے منوایا۔اسلام میںاس مذہبی حکومت(theocracy)کاصرف ایک جزوآیاہے‘اوروہ ہے خداکی حاکمیت کا عقیدہ۔ اس کادوسراجزواسلام میں قطعاً نہیں ہے۔ رہاتیسراجزو‘تواس کے بجائے یہاں قرآن اپنے جامع اوروسیع احکام کے ساتھ موجودہے اوراس کی تشریح کے لیے نبی ﷺ کی ایسی قولی اورعملی ہدایات موجودہیںجن کی روایات میںسے صحیح کوغلط سے ممیزکرنے کے مستندذرائع ہمیںحاصل ہیں۔ان دومآخذسے جوکچھ ہمیںملے صرف وہی من جانب اللہ ہے۔اس کے سواکسی فقیہ‘امام ‘ولی یاعالم کایہ مرتبہ نہیںہے کہ اس کے قول وفعل کوحکم خداوندی کی حیثیت سے بے چون وچرامان لیاجائے۔اس صریح فرق کے ہوتے ہوئے اسلامی ریاست کواصطلاح میںمذہبی حکومت(theocracy)کہناقطعاًغلط ہے۔
دوسری طرف مغرب میںجس چیزکوجمہوری حکومت(democracy) کہتے ہیں وہ بھی دوبنیادی تصورات کامجموعہ ہے:
(۱)عوام کی قانونی اورسیاسی حاکمیت جوعوام کی اکثریت یاان کے منتخب کیے ہوئے نمائندوںکی اکثریت کے ذریعہ سے عملاًظہورمیںآئے اور(۲)ریاست کاانتظام کرنے والی حکومت کاعوام کی آزادانہ خواہش سے بننااوربدل سکنا۔
اسلام اس کے صرف دوسرے جزوکولیتاہے۔رہاپہلاجزوتووہ اسے دوحصوں میں تقسیم کرکے قانونی حاکمیت اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص کرتاہے جس کے احکام (خواہ وہ کتاب اللہ میںہوںیاسنت رسول اللہﷺ میں)ریاست کے لیے ناقابل تغیروتبدل قانون کی حیثیت رکھتے ہیںاورسیاسی حاکمیت کو’’حاکمیت‘‘کے بجائے’’خلافت‘‘(یعنی اللہ حاکم حقیقی کی نیابت)قراردے کرریاست کے عام مسلمان باشندوںکے حوالے کردیتاہے۔یہ خلافت مسلم عوام کی اکثریت یاان کے معتمدعلیہ نمائندوںکی اکثریت کے ذریعے سے عملاً ظہور میں آئے گی۔اس بنیادی فرق کودیکھتے ہوئے اسلامی ریاست کومغربی اصطلاح کے مطابق جمہوریت (democracy) کہنابھی کسی طرح صحیح نہیںہے۔