(د)علاوہ بریں،اگرقائداعظم کی اس تقریرکواس کے ٹھیٹھ لفظی مفہوم میںبھی لے لیاجائے توہمیںجذبات سے قطع نظرکرتے ہوئے یہ غورکرناچاہیے کہ ان کے ان ملفوظات کی آئینی حیثیت کیاہےانھوںنے یہ تقریرخواہ صدرمجلس دستورسازکی حیثیت سے کی ہویاگورنرجنرل کی حیثیت سے‘بہرحال کسی حیثیت میںبھی وہ مجلس دستورساز‘ایک شاہانہ اختیارات رکھنے والے ادارے (sovereign body)کواس امرکاپابندنہیںکرسکتے تھے کہ وہ دستورانہی خطوط پربنائے جووہ کھینچ دیں۔رہی قوم ‘تواس نے مرحوم کواس لیے اپنا لیڈرماناتھاکہ وہ اس کے قومی عزائم اورمقاصدپورے کرنے میںاس کی رہنمائی کریں‘نہ اس لیے کہ کامیابی کے پہلے ہی روزوہ اس نصب العین کی رسم تجہیزوتکفین اداکردیںجس کے لیے لاکھوںمسلمانوںنے اپنی جانیںاورعزتیںاورجائیدادیںقربان کی تھیں۔یہ بات سمجھنے کے لیے کسی بڑے غوروفکرکی ضرورت نہیںہے کہ جوبات اگست۱۹۴۷ء میںکہی گئی تھی وہ اگرکہیںمارچ ۱۹۴۰ء میںکہہ دی جاتی توپاکستان کانعرہ دس کروڑ تو کیا دس ہزار مسلمانوں کو بھی جمع نہیںکرسکتا تھا۔