۶۔اصولی سوالات پربحث کرنے سے پہلے میںاس غلط فہمی کوصاف کردینا چاہتا ہوں جوقائداعظم مرحوم کی اس تقریر({ FR 6480 })سے پیداہوئی ہے جوانھوںنے ۱۱/اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کی مجلس دستورسازمیںکی تھی۔اس تقریرسے تین نتیجے نکالے جاتے ہیں۔اول یہ کہ قائداعظم مرحوم نے اس تقریرمیںایک ایسی ’’پاکستانی قومیت‘‘کی بناڈالنے کااعلان کیا تھاجووطنیت پرمبنی ہواورجس میںپاکستان کے ہندو‘مسلمان ‘عیسائی وغیرہ سب ایک قوم ہوں۔دوم یہ کہ مرحوم نے اس تقریرمیںیہ فیصلہ کردیاتھاکہ پاکستان کادستورغیرمذہبی نوعیت کایعنی (secular) ہوگا۔ سوم یہ کہ مرحوم کی اس تقریرکوکوئی ایسی آئینی حیثیت حاصل ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے باشندے یااس کے دستورسازاب اس کے کھینچے ہوئے خطوط سے ہٹ نہیںسکتے ۔میرے نزدیک یہ تینوںنکات جواس تقریرسے بطورنتیجہ نکالے جاتے ہیں، صحیح نہیںہیںاوراپنی اس رائے کے لیے میرے دلائل حسب ذیل ہیں:
(الف)قائداعظم مرحوم کی اس تقریرکے الفاظ خواہ بظاہرپہلے اوردوسرے مفہوم کے حامل ہوںمگرہمارے لیے یہ باورکرنابہت مشکل ہے کہ ان کامنشابھی حقیقت میںوہی تھا جوان کے الفاظ سے مترشح ہوتاہے۔اس لیے کہ ان کے مرتبے کے انسان سے ہم یہ توقع نہیںکرسکتے کہ وہ پاکستان کے قیام سے پہلے دس سال تک جن اصولوںکوبنیادبناکر لڑتے رہے تھے ان سے وہ پاکستان قائم ہوتے ہی یک لخت پلٹ گئے ہوںگے اورانہی اصولوں کے قائل ہوگئے ہوںگے جن کے خلاف انھوںنے اپنی ساری قوم کوساتھ لے کر جنگ کی تھی۔نیزہم یہ گمان بھی نہیںکرسکتے کہ وہ قیام پاکستان کے پہلے ہی دن یکایک اپنے ان تمام وعدوںسے پھرگئے ہوںگے جوانھوںنے بارہاصاف اورصریح الفاظ میں اپنی قوم سے کیے تھے اورجن کے اعتمادہی پرقوم ان کواپنالیڈرمان کراپنی جان ومال ان کے اشاروں پرقربان کرنے کے لیے آمادہ ہوئی تھی۔پھرہمارے لیے یہ ماننابھی ممکن نہیںہے کہ قائداعظم ایسی متضادباتیںکرسکتے تھے کہ ۱۱/اگست کوایک اعلان کریں اور پھر اس کے بعد بارباراس کے بالکل خلاف باتوںکامسلمان پبلک کویقین دلاتے رہیں۔اس لیے ہمارے نزدیک ان کی مذکورۂ بالاتقریرکوان کے اگلے اورپچھلے ارشادات کی روشنی میں سمجھنا زیادہ بہتر ہے، بہ نسبت اس کے کہ ہم اس کاکوئی ایسامفہوم لیںجوان کی تمام باتوں کے خلاف پڑتاہے جوانھوںنے اس سے پہلے فرمائیںاوراس کے بعدبھی فرماتے رہے۔
(ب)سب کومعلوم ہے کہ قائداعظم کی کانگریس سے لڑائی تھی ہی دوقومی نظریے کی بنیادپر۔۱۰/اگست ۱۹۴۷ء تک ان کامستقل نظریہ یہ تھاکہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں اور وہ غیر مسلموںکے ساتھ مل کرایک متحدہ وطنی قومیت نہیںبناسکتے۔اس کے متعلق ان کی بہت سی تحریروںاورتقریروںمیںسے صرف ایک تحریرکااقتباس میںیہاںنقل کروںگاجوستمبر ۱۹۴۴ء میںگاندھی جی کے ساتھ اپنی خط کتابت کے سلسلے میںلکھی تھی۔({ FR 6478 })
’’ہم اس کے قائل ہیں اورہمارایہ دعویٰ ہے کہ مسلمان اورہندودوبڑی قومیںہیںجو ’’قوم‘‘کی ہرتعریف اورمعیارپرپوری اترتی ہیں۔ہم دس کروڑکی ایک قوم ہیں۔مزید برآں ہم ایک ایسی قوم ہیںجوایک مخصوص اورممتازتہذیب وتمدن ‘زبان وادب‘آرٹ اور فن تعمیر‘احساس اقدارتناسب‘قانونی احکام واخلاقی ضوابط‘رسم ورواج اورتقویم (کیلنڈر) تاریخ اور روایات‘رجحانات اورعزائم کی مالک ہے۔خلاصہ بحث یہ ہے کہ زندگی اوراس کے متعلقات کے بارے میںہمارااپناایک امتیازی زاویہ نگاہ ہے۔ اورقانون بین الاقوامی کی ہردفعہ کے لحاظ سے ہم ایک قوم ہیں۔‘‘ (مسٹرجناح کی تقریریںاورتحریریں۔مرتبہ جمیل الدین احمد‘ص۱۸۱)
اب کیاہم یہ باورکرلیںکہ ۱۱/اگست کویک لخت وہ تمام خصوصیتیںمٹ گئیں جومسلمانوں کو غیر مسلموں سے جداکرکے ایک قوم بناتی تھیںاوریکایک ایک ایسی نئی قومیت کے اسباب فراہم ہوگئے جس میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کا جذب ہونا ممکن ہوگیا؟ اگر ہم اس بات کو مان لیں تو قائد اعظم مرحوم کو اس الزام سے نہیں بچایاجاسکتا کہ وہ ایک بااصول آدمی نہ تھے بلکہ محض سیاسی مصلحتوں کی خاطر اصول بناتے اور بدلتے تھے ۔ مرحوم کی وفات کے پانچ سال بعد ان کی روح کو ایسے الزامات کا تحفہ پیش کرنے کے لیے میں تو کسی طرح تیار نہیں ہوسکتا۔
(ج)بے شمار شہادتیں اس امر کی موجود ہیں کہ پاکستان کےقیام سےپہلےبھی قائداعظم مرحوم مسلمانوںسے ایک ریاست کاوعدہ کرتے رہے تھے اوراس کے بعدبھی وہ اس وعدے کودہراتے رہے۔پہلے کے وعدوںمیںسے صرف چندمثالیںملاحظہ ہوں۔ ۲۱/ نومبر۱۹۴۵ء کوفرنٹیئر مسلم لیگ کانفرنس میںتقریرکرتے ہوئے انھوںنے فرمایا:۔
’’مسلمان پاکستان کامطالبہ کرتے ہیںجہاںوہ خوداپنے ضابطہ حیات‘ اپنے تہذیبی ارتقا،اپنی روایات اوراسلامی قانون کے مطابق حکمرانی کرسکیں‘‘۔ (حوالہ مذکور‘ص ۴۷۳)
پھراسی کانفرنس میںانھوںنے ۲۴/نومبرکوتقریرکرتے ہوئے اس خیال کااظہار فرمایا:
’’ہمارادین‘ہماری تہذیب اورہمارے اسلامی تصورات وہ اصل طاقت ہیں جو ہمیں آزادی حاصل کرنے کے لیے متحرک کرتے ہیں۔‘‘ (حوالہ مذکور‘ص ۴۲۲)
پھراسی زمانے میںاسلامیہ کالج پشاورکے طلبہ کوخطاب کرتے ہوئے انھوںنے یہ الفاظ ارشادفرمائے:
’’لیگ ہندوستان کے ان حصوںمیںآزادریاستوںکے قیام کی علم بردارہے جہاں مسلمانوںکی اکثریت ہے تاکہ وہ وہاںاسلامی قانون کے مطابق حکومت کرسکیں‘‘
(حوالہ مذکور‘ص ۴۴۶)
۱۱/اگست والی تقریرسے صرف ایک مہینہ بارہ دن پہلے ۲۹/۳۰/جون ۱۹۴۷ء کومرحوم نے سرحدکے حالات پرایک بیان دیتے ہوئے لکھا:
’’مگرخان برادران نے اپنے بیانات میںاوراخباری ملاقاتوںمیںایک اورزہر آلود شوربرپاکیاہے کہ پاکستان کی دستورسازاسمبلی شریعت کے بنیادی اصولوںاورقرآنی قوانین سے انحراف کرے گی۔یہ بات بھی قطعی طورپرغلط ہے‘‘۔
(ڈان۔۳۰/جون۱۹۴۷ء)
دوسری طرف ۱۱/اگست ۱۹۴۷ء کے بعدجوارشادات قائداعظم کی زبان سے سنے گئے اوران کے معتمدترین رفیقوںنے ان کی جوترجمانی باربارخودان کی زندگی میںکی اورجس کی کوئی تردیدان کی جانب سے نہ ہوئی اس کے چندنمونے ملاحظہ ہوں:
’’پشاور۱۴/جنوری ۔پاکستان کے وزیراعظم مسٹرلیاقت علی خان نے اتحادویک جہتی کے لیے سرحدکے لوگوںسے اپیل کرتے ہوئے قائداعظم کے ان اعلانات کا پھر اعادہ کیا کہ پاکستان ایک مکمل اسلامی ریاست ہوگا……انھوںنے فرمایاکہ پاکستان ہماری ایک تجربہ گاہ ہوگااورہم دنیاکودکھائیںگے کہ تیرہ سوبرس پرانے اسلامی اصول ابھی تک کار آمد ہیں۔‘‘ (پاکستان ٹائمز۔۱۵/جنوری ۱۹۴۸ء)
’’کراچی ۱۹۴۸/جنوری۔قائداعظم محمدعلی جناح گورنرجنرل پاکستان نے ایک اعزازی دعوت میں(جوانہیںکراچی بارایسوسی ایشن کی طرف سے گذشتہ شام دی گئی) تقریر کرتے ہوئے فرمایاکہ’’میرے لیے وہ گروہ بالکل ناقابل فہم ہے جوخواہ مخواہ شرارت پیدا کرنا چاہتا ہے اوریہ پروپیگنڈہ کررہاہے کہ پاکستان کادستورشریعت کی بناپرنہیںبنے گا‘‘۔ (پاکستان ٹائمز۔۲۷جنوری ۱۹۴۸ء)
’’راولپنڈی۵/اپریل۔مسٹرلیاقت علی خان وزیراعظم پاکستان نے آج راولپنڈی میںاعلان کیاکہ پاکستان کاآئندہ دستورقرآن مجیدکے احکام پرمبنی ہوگا۔انھوںنے فرمایا کہ قائداعظم اوران کے رفقا کی یہ دیرینہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان کانشوونماایک ایسی مضبوط اورمثالی اسلامی ریاست کی حیثیت سے ہوجواپنے باشندوںکوعدل وانصاف کی ضمانت دے سکے‘‘۔ (پاکستان ٹائمز۔۱۷/اپریل۱۹۴۸ء)
ان صاف اورصریح بیانات کی موجودگی میںقائداعظم کی ۱۱/اگست والی تقریرکاایک ایسامفہوم نکالناجوان کے تمام اگلے پچھلے ارشادات کے خلاف ہو،مرحوم کے ساتھ انصاف نہیںہے۔