۵۔عدالت میں اسلامی ریاست اس کے نظام اس میں ذمیوں کی حیثیت ‘پاکستان میںاس کے قیام اوراسلامی قوانین کے اجرا، فقہ اورسنت میںمسلم فرقوں کے اختلافات ‘ اسلام کے قوانین جنگ اوران میںخصوصیت کے ساتھ اسیران جنگ کی حیثیت، اوراسی طرح کے دوسرے دینی وعلمی مسائل بھی باربارزیربحث آئے ہیں۔میںمحسوس کرتاہوںکہ اس نوعیت کے جتنے سوالات بھی کیے گئے ہیںان کے کافی وشافی جوابات عدالت میںنہیںدئیے جاسکتے۔اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ایسے مسائل پربحث وگفتگوکے لیے یہ کوئی موزوںشکل نہیںہے کہ سوال کرنے والاعدالت کی کرسی پرہواورجواب دینے والا گواہوں کے کٹہرے میںان تمام حدودکی پابندی کے ساتھ کھڑایابیٹھاہوجوعدالت میںایک گواہ کے لیے مخصوص ہیں۔نیزجس منتشراورغیرمرتب طریقے سے یہ سوالات گواہوںسے کیے گئے ہیںاس کے ساتھ کسی علمی اوردینی مسئلے پربھی تشفی بخش بحث نہیںہوسکتی ۔اس کے لیے توضروری ہے کہ آدمی کے سامنے ایک ایک سوال وضاحت کے ساتھ رکھاجائے‘پھراسے موقع دیاجائے کہ اس پرایک جامع تقریرکرکے اس کے ہرگوشے پرروشنی ڈالے اورجب تک وہ مسئلہ صاف نہ ہودوسراسوال نہ چھیڑاجائے۔عدالتی جرح کے اندازمیںسوال و جواب کسی علمی مسئلے کی بحث کومفیدنتیجے پرنہیںپہنچاسکتا۔علاوہ بریںیہ بات بھی واضح نہیں ہوسکی کہ یہ مسائل اس تحقیقات میںکس مناسبت سے زیربحث آئے ہیں۔ اگر مناسبت کا پہلوواضح ہوتاتوخاص طورپران مسائل کے اسی پہلوپراچھی طرح روشنی ڈالی جاتی جس کے لحاظ سے یہ موجودہ تحقیقات سے متعلق سمجھے گئے ہیں۔بہرحال چونکہ یہ مسائل زیربحث آگئے ہیںاورعدالت کی جورودادیںاخبارات میںشائع ہوئی ان سے ان مسائل کے بارے میںبکثرت غلط فہمیاںپیداہوگئی ہیں،اس لیے میںضروری سمجھتاہوںکہ اپنے اس بیان میںان پربھی کلام کروں۔