۴۔عدالت میں کفراورتکفیر کے متعلق کچھ اصولی سوالات بھی چھیڑے گئے ہیں مگران کے واضح اورتشفی بخش جوابات نہیں دئیے گئے۔اس سلسلے میں چند باتیں وضاحت کے ساتھ عدالت کے سامنے آجانی چاہئیں۔
(الف)’’کفر‘‘اور’’خروج ازاسلام‘‘ہرصورت اورہرحالت میںلازماًایک ہی چیز نہیںہیں۔جوکفرانسان کودائرہ اسلام سے خارج کریتاہے وہ صرف یہ ہے کہ آدمی(۱)ان بنیادی عقائدمیںسے کسی کاانکارکردے جن کے ماننے کااسلام میںمطالبہ کیاگیاہے،یا (۲) کسی ایسے قول یافعل کامرتکب ہوجوصریح طورپرانکارکامتراوف ہو‘مثلاً بت کوسجدہ کرنا یانبی ﷺ کوگالی دینایاقرآن کی بالارادہ توہین کرنایاخدااوررسول کے ثابت شدہ احکام میںسے کسی کوماننے سے انکارکردینا۔(۳)ایمانی عقائدمیںسے کسی کاانکارکر دے جس سے وہ عقیدہ بنیادی طورپربگڑجاتاہو‘مثلاًتوحیدکے ساتھ شرک جلی کی آمیزش یاانبیائ کے زمرے میںکسی غیرنبی کوشامل کرنااوراس کی تعلیمات کووحی منزل من اللہ ماننا۔
(ب)مذکورۂ بالاکفرکے سواقرآن اورحدیث میںبہت سے ایسے کافرانہ یامنافقانہ افعال‘اخلاق اورخیالات کاذکرکیاگیاہے جن کے لیے یاتوکفرکالفظ استعمال ہواہے یایہ کہا گیاہے کہ ایسے لوگ مومن نہیںہیں‘یادوسرے ایسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیںجوسلب ایمان کے ہم معنی ہیں۔مثلاًاستطاعت کے باوجودحج نہ کرنے کوقرآن میںکفرسے تعبیرکیا گیاہے۔ترک نمازکو حدیث میںکفرکہاگیاہے۔جہادسے جی چرانے والوںپرقرآن وحدیث، دونوںمیںمنافقت کاحکم لگایاگیاہے۔بدعہدی اورخیانت کرنے والے کے متعلق حدیث میںصاف کہاگیاہے کہ اس کادین ہے نہ ایمان۔اس طرح کی آیات اوراحادیث کا صحیح مطلب نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض فرقوں(مثلاًمعتزلہ اورخوارج)نے اوربعض دوسرے غیرمحتاط لوگوںنے ہرایسے شخص کوخارج ازاسلام ٹھہرا دیا جو خدا اور رسولﷺ کے ان ارشادات کامصداق ہو۔مگرنہ توقرآن وحدیث کاسیاق وسباق یہ ظاہرکرتاہے کہ اس خاص نوعیت کاکفرونفاق آدمی کوخارج ازملت کردیتاہے،اورنہ نبیﷺاورصحابہ کرامؓ کے دورکاعمل ہی یہ ثابت کرتاہے کہ جن لوگوںمیںاس نوعیت کاکفرونفاق پایاگیاان کو مسلمانوںکی ملت سے نکال باہرکیاگیاہو۔اسی وجہ سے محتاط اہل علم نے ہمیشہ اس کفرونفاق اورخارج ازملت کردینے والے کفرکے درمیان فرق ملحوظ رکھاہے اورانہیںخلط ملط کردینے کی سخت مخالفت کی ہے۔مصلحین امت نے اگرکبھی اس نوعیت کے کافرانہ خصائل رکھنے والوںکوغیرمسلمان کہابھی ہے توڈرانے اوراطاعت کی طرف مائل کرنے کے لیے کہاہے نہ کہ واقعی دائرہ اسلام سے خارج کردینے کے لیے۔
(ج) کسی شخص کے قول یافعل سے اگرکوئی ایسامفہوم نکلتاہوجوکفرصریح کاہم معنی ہو تو اس پرتکفیرکافتویٰ دینے سے پہلے ضروری ہے کہ(۱)خوداس شخص سے اس کی بات کامطلب پوچھاجائے (۲)اس کے اقوال وافعال پربحیثیت مجموعی نگاہ ڈال کردیکھاجائے کہ اس کے اس خاص قول یافعل کاکون سامفہوم اس کے مجموعی طرزخیال و عمل سے مناسبت رکھتا ہے اور (۳)اگراس کے قول یافعل کی اچھی اوربری دونوں تاویلیںممکن ہوںتواچھی تاویل کوترجیح دی جائے اِلاّیہ کہ بری تاویل کوترجیح دینے کے لیے قوی قرائن موجود ہوں۔ اس میںشک نہیںکہ بہت سے علمائ نے ان ضروری احتیاطوںکالحاظ کیے بغیر دوسروں پر بے تحاشا تکفیر کے فتوے جڑدیے ہیں، مگراس طرح کی غیرمحتاط تکفیرکبھی یہ نتیجہ پیدانہ کرسکی کہ جس کی تکفیرکی گئی ہو، وہ واقعی خارج ازملت قرارپاگیاہو۔صرف یہی نہیںکہ ایسے مکفرین کے دلائل کو دوسرے علمائ کے دلائل نے بے وزن کردیا، بلکہ مسلمانوںکے اجتماعی ضمیرنے تکفیر کے ان فتوئوںکوقبول نہ کیا۔تاریخ میںصرف چندہی ایسی مثالیںملتی ہیںکہ کسی فرقے کے خارج ازملت ہونے پرمسلمانوںمیںاتفاق ہواہواورایسی ہرمثال میںخروج ازملت کا اتفاق کسی ایسے کفرصریح کی وجہ سے ہواہے جس میںواقعی کسی تاویل کی گنجائش نہ تھی۔ مثلاً نصیریوں کے معاملے میں‘جوحضرت علیؓ کوخداکہتے تھے یافرقہ یزیدیہ کے معاملے میں، جواس بات کے قائل تھے کہ محمدﷺ کے بعدایک اورنبی آئے گااوراس کے آنے پر شریعت محمدیہ منسوخ ہوجائے گا۔یافرقہ میمونیہ کے معاملے میںجوسورۂ یوسف کوقرآن کی ایک سورت ماننے سے انکارکرتے تھے۔ان گنی چنی مثالوںپراب صرف ایک قادیانی گروہ کااضافہ ہوا ہے جن کی تکفیر(معنی خروج ازملت)پرتمام علمائے اسلام اورعام مسلمان متفق ہوگئے ہیںکیونکہ وہ بات ہی ایسی لے کراٹھے ہیںجس کی موجودگی میںہمارااوران کابیک وقت مسلم و مومن ہوناممکن نہیںہے۔ان کانبی اگرسچاہے توہم کافرہیںاورجھوٹاہے تووہ کافرہیں۔
(د)بلاشبہ ایک حدیث میںیہ کہاگیاہے کہ اگرکوئی شخص دوسرے شخص کوکافرکہے اور وہ درحقیقت کافرنہ ہوتوکفراسی شخص کی طرف پلٹ جائے گاجس نے اسے کافر کہا تھا مگر اس کایہ مطلب ہرگزنہیںہے کہ جوکوئی میری تکفیرکرے، میںجواب میںاس کی تکفیر کر ڈالوں۔ یہ بات نہ حدیث کے الفاظ سے نکلتی ہے اور نہ آنحضرت ﷺ کایہ منشا ہوسکتا تھا کہ جھگڑالوشخصیتوںکوتکفیربازی کے لیے ایک ہتھیارفراہم کردیں۔حدیث کامنشا صرف یہ ہے کہ تکفیر کا فتویٰ دیتے ہوئے آدمی کو ڈرنا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ جس کی وہ تکفیرکررہاہووہ حقیقت میںکافرنہ ہواورخداکے ہاںالٹایہ مفتی ہی کفربانٹنے کے جرم میں پکڑاجائے۔