۳۔عدالت میں یہ سوال بھی اٹھایاگیاہے کہ اگراحمدی اپنے جارحانہ طورطریقوں سے بازآجائیں اورریاست کے اندرایک ریاست قائم کرنے کی کوشش ترک کردیں تو کیا پھربھی انہیں ایک غیرمسلم اقلیت قراردینے کامطالبہ کیاجائے گا؟اس سوال کاجواب یہ ہے کہ جوکچھ اس وقت تک قادیانیوں سے ظہورمیں آیاہے وہ اتفاقی واقعہ نہیں ہے بلکہ ایک امت کے اندردوسری امت بنانے کالازمی اورفطری نتیجہ ہے۔ہردعوائے نبوت عین اپنی فطرت کے تقاضے سے ایک مستقل امت پیداکرتاہے اوراسے ان سب لوگوںسے جدا کر دیتا ہے جواس دعوے کونہ مانیں۔یہ نئی امت اگرصاف اورسیدھے طریقے سے پہلی امت سے الگ ہوجائے تونزاع اورتصادم کی وہ خاص حالت کبھی پیدانہیںہوسکتی جو قادیانیوں اور مسلمانوں کے درمیان پیداہوئی۔لیکن اگروہ امت کے اندرایک امت بن کررہناچاہے تو کشمکش برپاہوناناگزیرہے۔کیونکہ اس صورت میںمذہبی نزاع کومعاشرتی نزاع بننے سے اورپھرمعاشی وسیاسی نزاع تک پہنچنے سے کسی طرح نہیں روکاجاسکتا۔لہٰذامحض خیالی مفروضات پرکوئی ایسی رائے قائم کرنالاحاصل ہے جوواقعات کی دنیامیںنہ چل سکتی ہو۔ قادیانیوں کے مسلمانوں میں شامل رہنے کی کوئی صورت اگرہے تووہ صرف یہ ہے کہ وہ مرزا صاحب کی نبوت کاعقیدہ چھوڑدیں۔اوراگروہ اسے نہیں چھوڑسکتے توپھر انہیں مسلمانوں سے الگ ایک امت بن کررہناچاہیے اوراس امرواقعی کودستوری وقانونی حیثیت سے تسلیم کیا جاناچاہیے۔