۲۔عدالت میںیہ خیال بھی ظاہرکیاگیاہے کہ صدرانجمن احمدیہ ربوہ کی طرف سے اس کے وکیل نے عدالت کے دئیے ہوئے سات سوالوںکے جواب میںجوبیان دیاہے اس سے مسلمانوںاورقادیانیوںکااختلاف رفع ہوجاتاہے۔میںنے اس بیان کوپورے غورکے ساتھ پڑھاہے، میری سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ اس بیان سے پوزیشن میںذرہ برابر بھی تغیرواقع نہیںہوتااوراس کے باوجودنزاع واختلاف کے وہ تمام اسباب جوںکے توں باقی رہتے ہیںجواب تک خرابی کے موجب رہے ہیں۔اس بیان میںقادیانیوںنے پوری ہوشیاری کے ساتھ یہ کوشش کی ہے کہ اپنی اصلی پوزیشن کو تاویلوںکے پردے میںچھپا کرایک بناوٹی پوزیشن عدالت کے سامنے پیش کریںتاکہ عدالت اس سے دھوکہ کھاکران کے حق میںمفیدمطلب رپورٹ بھی دے دے اوروہ اپنی سابق روش پرعلی حالہٖ قائم بھی دہ سکیں۔ان کی سابقہ تحریروںاوران کے اب تک کے طرزعمل سے جوشخص کچھ بھی واقفیت رکھتاہووہ یہ محسوس کیے بغیرنہیںرہ سکتاکہ انھوںنے اس بیان میںاپنی پوزیشن بدل کرقریب قریب وہ پوزیشن اختیارکرلی ہے جولاہوری احمدیوںکی پوزیشن تھی۔لیکن یہ تبدیلی وہ صاف صاف یہ کہہ کراختیارنہیںکرتے کہ ہم مسلمانوںکے ساتھ نزاع ختم کرنے کے لیے اپنے عقیدے اورمسلک میںیہ تغیرکررہے ہیںبلکہ وہ اسے اس رنگ میںپیش کرتے ہیںکہ ہماری پوزیشن ابتدا سے یہی رہی ہے۔حالانکہ یہ صریح غلط بیانی ہے ۔اس کاصاف مطلب یہ ہے کہ وہ عملاًاپنی سابق پوزیشن کی توثیق کررہے ہیںاورآئندہ بھی اسی پرقائم رہناچاہتے ہیں، البتہ عارضی طورپراس تحقیقات کے دوران میںانھوںنے ایک مناسب وقت پوزیشن اختیارکرلی ہے جوتحقیقات کادورگزرنے کے ساتھ ہی ختم ہوجائے گی۔اس فریب کی حقیقت اچھی طرح واضح ہوجائے گی اگران کے بیان کاذراتفصیلی جائزہ لے کر دیکھ لیاجائے:
(الف)عدالت نے سوال کیاتھاکہ جومسلمان مرزاصاحب کونبی نہیںمانتے کیاوہ مومن اورمسلم ہیں؟جواب میںوہ کہتے ہیں:
’’کسی شخص کوحضرت بانی سلسلہ احمدیہ کونہ ماننے کی وجہ سے غیرمسلم نہیںکہاجاسکتا۔‘‘
مگریہ جواب دینے کے ساتھ ہی انہیں یادآجاتاہے کہ ان کی پچھلی تحریرات اس کے بالکل خلاف ہیں۔اس لیے وہ ان کی تاویل یوںکرتے ہیںکہ:
’’ممکن ہے ہماری بعض سابقہ تحریرات سے غلط فہمی پیداکرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے متعلق ہم کہہ دیناچاہتے ہیںکہ ہماری ان سابقہ تحریرات میںجواصطلاحات استعمال کی گئی ہیںوہ ہماری مخصوص ہیں۔عام محاورے کوجومسلمانوںمیںرائج ہے استعمال نہیں کیا گیاہے، کیونکہ ہم نے اس مسئلے پریہ کتابیںغیراحمدیوںکومخاطب کرکے شائع نہیں کیںبلکہ ہماری یہ تحریرات جماعت کے ایک حصے کومخاطب کرکے لکھی گئی ہیں۔اس لیے ان تحریرات میںان اصطلاحات کومدنظررکھناضروری نہیںتھاجودوسرے مسلمانوں میں رائج ہیں۔‘‘
اس عبارت سے صاف ظاہرہے کہ وہ اپنی سابق تحریرات کی تردیدنہیںبلکہ توثیق کر رہے ہیںاورعدالت کویقین دلاناچاہتے کہ ان تحریرات کامفہوم ان کے موجودہ جواب کے خلاف نہیںہے۔اب ذراان کی سابق تحریروںمیںسے صرف دوعبارتیںملاحظہ ہوں:
’’کُل مسلمان جوحضرت مسیح موعودکی بیعت میںشامل نہیںہوئے‘خواہ انھوںنے حضرت مسیح موعودکانام بھی نہیںسنا‘وہ کافراوردائرہ اسلام سے خارج ہیں۔‘‘
(آئینہ صداقت‘مصنفہ مرزابشیرالدین محموداحمدصاحب، ص۳۵)
’’ہرایک ایساشخص جوموسیٰ کامانتاہے مگرعیسیٰ کونہیںمانتا‘یاعیسیٰ کومانتاہے مگر محمد کو نہیں مانتا‘ یامحمدکومانتاہے مگرمسیح موعودکونہیںمانتا‘وہ نہ صرف کافربلکہ پکاکافراوردائرہ اسلام سے خارج ہے۔‘‘ (کلمتہ الفضل ‘مصنفہ صاحب زادہ بشیراحمدصاحب ،ص۱۱۰)
صاف دیکھاجاسکتاہے کہ ان دونوںعبارتوںمیںمحض مرزاصاحب کے نہ ماننے کی وجہ سے مسلمانوں کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قراردیاگیاہے۔کیایہ باورکیاجاسکتاہے کہ یہ تینوںالفاظ قادیانیوں کی مخصوص اصطلاحات ہیںاوران کامفہوم وہ نہیںہے جو مسلمانوںمیںعام طورپررائج ہے؟اس طرح کی تحریروںکی یہ تاویل کس قدربھونڈی تاویل ہے کہ ہم نے یہ تحریرات جماعت کے ایک حصے(یعنی لاہوری احمدیوں)کومخاطب کرکے لکھی تھیں۔آخر کون نہیںجانتاکہ لاہوری احمدیوںسے قادیانیوںکاجس بات پر پچھلے ۳۵سال جھگڑارہاہے وہ اسی نکتے پرتھاکہ قادیانی مرزاصاحب کی نبوت تسلیم نہ کرنے والے سب مسلمانوں کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دیتے تھے اور لاہوری ان کے اس عقیدے کو غلط ٹھہراتے تھے۔ اس مباحثے میں اگر فریقین کے نزدیک ’’کافر‘‘ اور دائرہ اسلام سے خارج کا مفہو م وہ نہ تھا جو مسلمانوں میں عام طور پر رائج ہے تو پھر جھگڑا کس بات پرتھا۔
(ب) عدالت کا دوسرا سوال یہ تھاکہ جو شخص مرزا کی نبوت تسلیم نہ کرے کیا وہ کافرہے؟صدرانجمن احمدیہ ربوہ کے وکیل صاحب اس کایہ جواب دیتے ہیںکہ:
’’کافرکے معنی عربی زبان میںنہ ماننے والے کے ہیں۔پس جوشخص کسی چیزکونہیں مانتااس کے لیے عربی زبان میںکافرکالفظ ہی استعمال ہوگا۔بس ایسے شخص کوجب تک وہ یہ کہتاہے کہ میںفلاںچیزکونہیںمانتااس کواس چیزکاکافرسمجھاجائے گا‘‘
اس عبارت سے عدالت کویہ باورکرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ مرزاصاحب کے نہ ماننے والوںکولغوی معنی میںکافرکہتے ہیںنہ کہ اسلام کے اصطلاحی معنی میں۔لیکن یہ صریح دھوکاہے۔اوپرمرزابشیرالدین محمودصاحب اورصاحب زادہ بشیراحمدکی جو دو عبارتیںنقل کی گئی ہیںان دونوںمیں’’کافر‘‘کی تشریح ’’دائرہ اسلام سے خارج‘‘ کے الفاظ میںکی گئی ہے اوراس کی مزیدتشریح مرزابشیرالدین محمودصاحب اورصاحب زادہ بشیراحمدصاحب کی یہ عبارات کرتی ہیں:
’’ہمارایہ فرض ہے کہ ہم غیراحمدیوںکومسلمان نہ سمجھیںاوران کے پیچھے نمازنہ پڑھیں کیونکہ ہمارے نزدیک وہ خداتعالیٰ کے ایک نبی کے منکرہیں۔‘‘ (انوارخلافت، ص۹۰)
’’اب جب کہ یہ مسئلہ بالکل صاف ہے کہ مسیح موعودکے ماننے کے بغیرنجات نہیں ہو سکتی توکیوںخواہ مخواہ غیراحمدیوں کومسلمان ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔‘‘
(کلمتہ الفضل ،ص۱۴۸)
ان عبارتوں کی موجودگی میں یہ کیسے ماناجاسکتاہے کہ قادیانی حضرات مرزاصاحب کے منکرمسلمانوںکومحض’’نہ ماننے والے‘‘کے معنی میںکافرکہتے ہیں؟پھراس سے بھی زیادہ بڑادھوکہ اس بیان میںدیاگیاہے کہ:
’’ہمارے نزدیک آنحضرت ﷺ کے بعدکسی مامورمن اللہ کے انکارکے ہرگزیہ معنی نہ ہوںگے کہ ایسے لوگ اللہ اوررسول کریمﷺ کے منکرہوکراُمت محمدیہ سے خارج ہیںیایہ کہ مسلمانوںکے معاشرے سے خارج کردئیے گئے ہیں۔‘‘
اس عبارت میںخط کشیدہ الفاظ نہایت ہوشیاری کے ساتھ استعمال کیے گئے ہیں۔ ان میںمسلمانوںکے دائرہ اسلام سے خارج ہونے کی نفی نہیںکی گئی ہے بلکہ صرف امت محمدیہ ﷺ میںشامل ہونے کااثبات کیاگیاہے۔ظاہربات ہے کہ جوشخص محمدﷺ کومانتاہوااورمرزاصاحب کونہ مانتاہووہ ’’امت محمدیہ‘‘سے خارج نہیںہوسکتا۔ یہ بالکل ایساہی ہے جیسے حضرت عیسیٰ کوماننے والاآدمی محمدﷺ کاانکارکرنے کے باوجوداُمت حضرت عیسویہ میںاورحضرت موسیٰ کوماننے والاشخص حضرت عیسیٰ کے انکارکے باوجودامت موسویہ میںشمارہوگا۔البتہ ایسے کسی شخص کو’’دائرہ اسلام ‘‘میںداخل نہیں سمجھا جائے گا۔اسی طرح قادیانی حضرات مرزاصاحب کے منکرمسلمانوںکوامت محمدیہ میںتوضرورشامل سمجھتے ہیں‘کیونکہ وہ محمدﷺ کے منکرنہیںہیں‘مگردائرہ اسلام سے بہرحال خارج سمجھتے ہیں کیونکہ خداکے ایک نبی کاانکاربھی آدمی کودائرہ اسلام سے خارج کردیتاہے اوران کے نزدیک مرزاصاحب خداکے نبی ہیں۔پھردوسرے فقرے میںوہ جوکچھ کہتے ہیںوہ یہ نہیںہے کہ غیراحمدی مسلمان دائرہ اسلام سے خارج نہیں‘بلکہ ازراہ لطف وکرم صرف یہ کہتے ہیںکہ وہ’’مسلمانوںکے معاشرے ‘‘ سے خارج نہیں کردئیے گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کامعاشرہ ان کے قبضے میںنہیںہے جس سے وہ کسی کوخارج کرسکیں۔
(ج)عدالت کاتیسراسوال یہ تھاکہ ایسے کافرہونے کے دنیااورآخرت میں کیا نتائج ہیں؟اس کاجواب صدرانجمن احمدیہ ربوہ کے وکیل صاحب یہ دیتے ہیںکہ:
’’ایسے کافرکی کوئی دنیوی سزامقررنہیںہے۔وہ اسلامی حکومت میںویسے ہی حقوق رکھتاہے جوایک مسلمان کے ہوتے ہیں۔اسی طرح عام معاشرے کے معاملے میںبھی وہی حقوق رکھتاہے جوایک مسلمان کے ہیں۔ہاںخالص اسلامی حکومت میںوہ حکومت کاہیڈ نہیںبن سکتا۔باقی رہے اخروی نتائج سوان نتائج کاحقیقی علم توصرف اللہ کوہے۔‘‘
یہاںپھرعدالت کوبالکل غلط اطلاع بہم پہنچائی گئی ہے۔قادیانی حضرات مسلمانوں پرجس کفرکافتویٰ لگاتے ہیںاس کے دنیوی نتائج صاحب زادہ بشیراحمدصاحب کے الفاظ میںدراصل یہ ہیں:
’’حضرت مسیح موعودنے غیراحمدیوںکے ساتھ صرف وہی سلوک جائزرکھاہے جو نبی کریمﷺ نے عیسائیوںکے ساتھ کیا۔غیراحمدیوںسے ہماری نمازیںالگ کی گئیں‘ان کو لڑکیاںدنیاحرام قراردیاگیا‘ان کے جنازے پڑھنے سے روکاگیا۔اب باقی کیارہ گیاہے جوہم ان کے ساتھ مل کرکرسکتے ہیں؟
دوقسم کے تعلقات ہوتے ہیں۔ایک دینی‘دوسرے دنیوی۔دینی تعلق کاسب سے بڑاذریعہ رشتہ وناطہ ہے۔سویہ دونوںہمارے لیے حرام قراردیے گئے۔اگرکہوکہ ہم کوان کی لڑکیاںلینے کی اجازت ہے تومیںکہتاہوںنصاریٰ کی لڑکیاںلینے کی بھی اجازت ہے۔اور اگریہ کہوکہ غیراحمدیوںکوسلام کیوںکہاجاتاہے،تواس کاجواب یہ ہے کہ حدیث سے ثابت ہے کہ بعض اوقات نبی کریم ﷺنے یہودیوںتک کوسلام کاجواب دیاہے۔‘‘
(کلمتہ الفصل‘ص۱۶۹)
رہے اس کفرکے اُخروی نتائج تووہ خودمرزاغلام احمدصاحب پر’’نازل شدہ الہام ‘‘ کے بموجب یہ ہیں:
’’جوشخص تیری پیروی نہیںکرے گااورتیری بیعت میںداخل نہیںہوگااورتیرامخالف رہے گاوہ خدااوررسول کی مخالفت کرنے والاجہنمی ہے‘‘۔ (تبلیغ رسالت‘جلدنہم‘ص۲۷)
اب یہ بات ہرشخص سمجھ سکتاہے کہ قادیانی حضرات کی نگاہ میںجووزن مرزاصاحب کے الہام کاہوسکتاہے وہ شیخ بشیراحمدصاحب ایڈووکیٹ کے اس بیان کا نہیں ہوسکتا جو انھوں نے اس تحقیقات کی ضرورت سے صدرانجمن احمدیہ کے وکیل کی حیثیت میںدیاہے۔ نیز مرزاصاحب کے مسلک کی جوتفسیران کے’’اہل بیت‘‘میںسے ایک بزرگ نے فرما دی ہے اسے بہرحال وکیل صاحب کے بیان کی بہ نسبت زیادہ سنداعتبارحاصل ہوگی۔
(د)عدالت کاسوال یہ تھاکہ کیامرزاصاحب کورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اوراسی طریقہ سے الہام ہوتاتھا؟جواب میںاقرارکیاگیاہے کہ مرزاصاحب پروحی نازل ہوتی تھی اوراس کے ساتھ یہ بھی کہاگیاہے کہ یہ وحی مرتبے اورحیثیت میںاس وحی سے کم ترتھی جونبی ﷺ پرنازل ہواکرتی تھی۔لیکن یہ عدالت کے سوال کاصحیح جواب نہیں ہے۔ اس میںجوبات چھپائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ قادیانی عقیدے کے مطابق مرزاصاحب کی وحی اپنی نوعیت کے لحاظ سے ویسی ہی ہے جیسی نبی ﷺ کی وحی تھی اوراس کے نہ ماننے والے کی حیثیت وہی ہے جوقرآن کے نہ ماننے والے کی ہے۔یہ بات مرزاغلام احمدصاحب نے خودان الفاظ میںبیان کی ہے۔
آنچہ من بشنوم زوحی خدا
بخدا پاک دنمش زخطا
ہمچو قرآں منزہ اش دانم
ازخطاہا ہمیں ست ایمانم
بخدا ہست ایں کلام مجید
ازدہان خدائے پاک ووحید
آں یقینے کہ بود عیسیٰ را
بر کلامے کہ شد بر و القا
واں یقین کلیم بر تورات
واں یقین ہائے سیدالسادات
کم نیم زاں ہمہ بروئے یقین
ہرکہ گوید دروغ ہست لعین
(درثمین ،ص۲۸۷‘مجموعہ کلام مرزاغلام احمدصاحب ‘نزول المسیح‘ص۹۹)
(ہ)عدالت کاسوال تھاکہ کیااحمدیوںکے مذہب میںان لوگوںکی نمازجنازہ پڑھنے کے خلاف کوئی حکم موجودہے جومرزاصاحب کونہ مانتے ہوں؟ جواب میںاقرارکیاگیاہے کہ’’اس وقت تک جماعتی فیصلہ یہی رہاہے کہ غیرازجماعت لوگوںکی نمازجنازہ نہ پڑھی جائے۔‘‘اوراس کے بعدیہ بتایاگیاہے کہ اب مرزاصاحب کی ایک ایسی تحریرمل گئی ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ جوشخص حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کامکفریامکذب نہ ہواس کاجنازہ پڑھ لینے میںکوئی حرج نہیں۔‘‘لیکن اگرخط کشیدہ الفاظ پرغورکیاجائے توصاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اس سے درحقیقت سابق کی پوزیشن میںکوئی تغیرواقع نہیںہوتا۔یہ ظاہربات ہے کہ مرزاصاحب نے نبوت کادعویٰ کیاہے۔ایک مدعی نبوت کے معاملے میںآدمی کے لیے دوہی رویے ممکن ہیں۔یااس کے دعویٰ کومان لے یااس کا انکار کردے۔ اقرار اور انکار کے درمیان کوئی مقام نہیںہے۔اب کوئی شخص ان کے دعوے کا انکار کرتاہے وہ چاہے مکفر نہ ہو، مگر مکذب ہونے سے کسی طرح نہیںبچ سکتا۔اس طرح غیراحمدی مسلمانوںکی نماز جنازہ کے معاملے میںقادیانیوںکی پوزیشن عملاًوہی رہتی ہے جوپہلے سے چلی آرہی ہے۔ یہ بات اچھی طرں سمجھ لینی چاہیے کہ ایک مدعی نبوت کے معاملے میںمکذب لازماًصرف اسی شخص کونہیںکہتے جوصاف الفاظ میںاس کوجھوٹاکہے بلکہ اس کے دعویٰ کاانکاربھی اس کی تکذیب ہی ہے۔
(و)عدالت کاسوال تھاکہ کیااحمدی اورغیراحمدی میںشادی جائزہے؟اورایسی شادی کے خلاف ممانعت کاکوئی حکم موجودہے؟جواب میںوکیل صاحب بیان فرماتے ہیں کہ ’’احمدی مردکی غیراحمدی لڑکی سے شادی کی کوئی ممانعت نہیں۔البتہ احمدی لڑکی کے غیراحمدی مردسے نکاح کوضرورروکاجاتاہے۔‘‘نیزیہ کہ دراصل اس ممانعت کی بنااحمدیت سے بغض اورعداوت رکھنے والوںکے اثرسے لڑکیوںکابچاناتھااوریہ کہ کوئی احمدی اپنی لڑکی کانکاح غیراحمدی مردسے کردے تواس کے نکاح کوکالعدم قرارنہیںدیاجاتا‘‘۔لیکن اس جواب میںاصل پوزیشن عدالت کے سامنے پیش نہیںکی گئی۔اصل پوزیشن وہ ہے جو صاحب زادہ بشیراحمدصاحب نے کلمۃ الفصل میںبایںالفاظ بیان کی ہے:
’’حضرت مسیح موعودنے غیراحمدیوںکے ساتھ صرف وہی سلوک جائزرکھاہے جونبی کریمﷺ نے عیسائیوںکے ساتھ کیا۔غیراحمدیوںسے ہماری نمازیںالگ کی گئیں‘ان کو لڑکیاں دیناحرام قراردیاگیا‘ان کے جنازے پڑھنے سے روکا گیا… اگرکہوکہ ہم کوان کی لڑکیاںلینے کی اجازت ہے تومیںکہتاہوںکہ نصاریٰ کی لڑکیاںلینے کی بھی اجازت ہے۔‘‘(ص۱۶۹)
(ز)صدرانجمن احمدیہ ربوہ کے وکیل صاحب نے اپنے بیان میںعدالت کویہ باور کرانے کی بھی کوشش کی ہے کہ قادیانیوںنے مسلمانوںکی تکفیراوران سے عبادت و معاشرت میںمقاطعہ کرنے کی جوروش اختیارکی ہے اس کی نوعیت عام مسلمانوںکی دینی و اخلاقی حالت پرمختلف اصلاح پسندلوگوںکی تنقیدوںاورعلمائ کے فتاوائے تکفیرسے مختلف نہیں ہے۔حالانکہ ان دونوںکے درمیان اصولاً بڑافرق ہے۔مسلمانوںکے بہت سے قدیم وجدیداصلاح پسندلوگوںنے اپنی تنقیدوںمیںقوم کی عام اخلاقی ودینی حالت پر تنقید کرتے ہوئے جوملامت آمیزباتیںکہیںاورلکھی ہیں، ان کامنشاساری قوم کی تکفیرکرنا نہیں ہے بلکہ ان کواصلی اورحقیقی اسلام کی طرف واپس آنے کے لیے اکساناہے اوروہ کوئی نئی بات منوانے کی کوشش نہیںکرتے بلکہ اسلام کے انہی عقائداوراحکام کی پیروی کامطالبہ کرتے ہیںجو سب مسلمانوںکے نزدیک مسلم ہیں۔ اسی طرح مختلف فرقوںکے علمائ نے ایک دوسرے کی تکفیرمیںجتنی تحریریںبھی لکھی ہیں، وہ زیادہ تراس بنیادپرہیںکہ ایک عالم کی رائے میںدوسرے فرقے کے لوگ اسلام کے مسلمہ عقائدسے ہٹ گئے ہیں، نہ اس بنیاد پر کہ وہ اس عالم کی پیش کردہ کسی نئی بات کونہیںمانتے۔اس کے برعکس قادیانیوںنے تمام غیراحمدی مسلمانوںکے مقابلے میںتکفیراورعبادت ومعاشرت کے مقاطعے کی جوروش اختیارکی ہے اس کی بنیادیہ ہے کہ وہ مرزاغلام احمدصاحب کے دعوائے نبوت کونہیںمانتے اور ظاہر ہے کہ یہ دعوائے نبوت ایک نئی چیزہے اوراس عقیدۂ ختم نبوت کے بالکل خلاف ہے جوتمام مسلمانوںکے نزدیک اسلام کامسلمہ عقیدہ ہے۔یہ بنیادی اوراصولی فرق اس واقعی فرق کے علاوہ ہے کہ قادیانی تکفیرکے سواکوئی دوسری تکفیرایسی نہیںہے جس نے مسلمانوںکے کسی فرقے کوعام مسلمانوںسے عبادات ‘شادی بیاہ‘معاشی مفاداورسیاسی آزوئوںاورتمنائوں میںعملاًبالکل الگ کردیاہواورزندگی کے ہرمیدان میں اس کوسواداعظم سے نبردآزما کر دیا ہو۔