(ب)مسلمانوں اورقادیانیوں کے اختلاف کومختلف فرقوں کے اختلافات کی نظیر فرض کرکے عدالت میں باربارعلما اورفرقوں کی باہمی کشمکش کے متعلق سوالات کیے گئے ہیں مگریہ محض ایک خلط مبحث ہے۔ان دونوںقسم کے اختلافات میںدرحقیقت کوئی مماثلت ہی نہیںہے کہ ایک کودوسرے کی نظیرقراردیاجاسکے۔بلاشبہ یہ ایک افسوس ناک واقعہ ہے کہ بعض فرقوںکے علمائ نے بعض دوسرے فرقوںاوران کے علمائ کی تکفیرکی ہے۔اوراپنے فتووئوںمیںحدسے زیادہ تجاوزبھی کیاہے،لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے جس سے انکارنہیںکیاجاسکتاکہ جن مسائل پریہ تکفیربازی کی گئی وہ محض چنددینیانی مسائل کی تعبیرات کے اختلافات تھے۔اسی بناپرمسلم ملت نے بحیثیت مجموعی تکفیرکے ان فتووئوں کو کبھی اہمیت نہ دی ۔محتاط علمائ نے ان کوہمیشہ ناپسندکیا۔کسی شخص یاگروہ کوخارج از ملت قرار دینے پرمسلمانوںکے درمیان کبھی اتفاق نہیںہوا۔مختلف فرقوںکے مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ نمازیںپڑھتے رہے،ایک دوسرے کی نمازجنازہ میںشریک ہوتے رہے،آپس میںشادی بیاہ کرتے رہے حتیٰ کہ سنیوں اور شیعوںکی باہمی مناکحت کی بھی ہزاروں مثالیں موجودہیںاورمجھے خودبارہاشیعوںکے ساتھ نمازپڑھنے کااتفاق ہواہے۔ پھر سب سے بڑھ کریہ کہ جب کبھی کوئی اہم قومی مسئلہ پیداہوا، تمام مسلمانوںنے مل کراس کے لیے جدوجہدکی۔ان کاقومی مفادایک رہااوران کے قومی جذبات اورسیاسی مقاصدمشترک رہے۔ اس کے برعکس قادیانیوں اور مسلمانوںکااختلاف ایک بنیادی اختلاف ہے۔کوئی شخص جو اسلام کے متعلق سرسری سی واقفیت بھی رکھتاہو‘اس امرسے بے خبرنہیںہوسکتاکہ نبوت کا عقیدہ اسلام کے اساسی عقائدمیںسے ہے اورایک شخص کے دعوائے نبوت پرایمان لانے یانہ لانے سے لازماً کفروایمان کی تفریق واقع ہوجاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ مرزاغلام احمد صاحب کے دعوائے نبوت پران کے ماننے والوںاورنہ ماننے والوںکے درمیان اختلاف کی ایک ایسی دیوار حائل ہوگئی جواس سے پہلے کبھی مسلم فرقوںکے درمیان حائل نہ ہوئی تھی۔تمام فرقوںکے مسلمانوںنے بالاتفاق قادیانیوں کو کافر قرار دیا اور قادیانیوں نے اس کے برعکس ان سب لوگوںکوکافرٹھہرایاجومرزاصاحب کونبی نہ مانیں۔ دوسری تکفیروں کے برعکس اس تکفیرنے عملاًدونوںگروہوںکوایک دوسرے سے الگ کر دیا۔ عبادت سے لے کرمعاشرت تک ان کے درمیان ہرچیزمیںجدائی پڑگئی۔ان کے قومی مفاداورسیاسی حوصلے (political ambitions)تک ایک دوسرے سے مختلف ہوگئے اورعلیحدگی سے گزرکرنوبت کشمکش اورمخاصمت تک پہنچ گئی۔اس صریح فرق کوآخرکیسے نظراندازکیاجاسکتا ہے اورقادیانی مسلم اختلافات کوفرقوںکے باہمی اختلافات سے خلط ملط کردیناکس طرح صحیح ہوسکتاہے؟تاہم اگرایساکوئی فیصلہ کربھی دیاجائے توکیایہ ممکن ہے کہ عملاًوہ کشمکش ختم ہوجائے جوشہروںسے لے کردیہات تک ہزاروں خاندانوں میں اور دفتروں سے لے کر منڈیوںتک ہزاروں افراد میںبرپاہے؟