اس بیان کوختم کرنے سے پہلے میں یہ بات بھی عدالت کے علم میں لانا چاہتا ہوں کہ میںنے جس طرح حکومت کواس غلط پالیسی سے اورڈائریکٹ ایکشن کے لیڈروں کو ان کے غلط فیصلہ سے روکنے کی آخروقت تک کوشش کی ہے اسی طرح میں قادیانیوںکوبھی ان کی غلطی سمجھانے اورصحیح مشورہ دینے کی پوری کوشش کرتارہاہوں۔
گزشتہ ماہ جولائی میںشیخ بشیراحمدصاحب ایڈووکیٹ لاہور،مولوی ابولعطا جالندھری اورجناب شمس صاحب کومیںنے سمجھایاتھاکہ جوباتیںانگریزی دورمیںنبھ گئیں،وہ اب اس آزادی کے دورمیںجب کہ جمہوری حکومت کے اختیارات مسلم اکثریت کے ہاتھ میںہیں‘ زیادہ دیرتک نہ نبھ سکیںگی۔لہٰذاقبل اس کے کہ آپ کی جماعت اور مسلمانوں کے تعلقات کی تلخی میںمزیداضافہ ہو، آپ لوگ معاملہ فہمی اورتدبرسے کام لیتے ہوئے دوصورتوںمیں سے کسی ایک صورت کواختیارکرلیں۔یاتواپنے عقائد اور طرز عمل میں ایسی ترمیم کیجئے کہ جس سے مسلمان آپ کو اپنے اندرشامل رکھنے پرراضی ہوسکی ںیاپھرخودہی مسلمانوںسے الگ ہوکرایک مستقل اقلیت کی حیثیت سے اپنے لیے وہی حقوق حاصل کر لیجیے جوپاکستان میں دوسری اقلیتوں کوحاصل ہیں۔مگرافسوس کہ انھوںنے میرے اس دوستانہ مشورہ کوقبول نہ کیا۔پھرمارشل لا کے زمانہ میں۲۰/مارچ کے قریب خواجہ نذیراحمد صاحب ایڈووکیٹ لاہورسے میری ملاقات ہوئی اوران سے میںنے کہاکہ مزرابشیرالدین محمودصاحب سے خودجاکرملیںاوران کومشورہ دیںکہ اگروہ واقعی مسلمانوںسے الگ ہونا پسندنہیںکرتے اورچاہتے ہیں کہ ان کی جماعت اسی ملت کاایک جزوبن کررہے تووہ صاف الفاظ میںحسب ذیل تین باتوں کااعلان کردیں:
۱۔یہ کہ وہ نبی اکرمﷺ کواس معنی میںخاتم النبیین مانتے ہیںکہ حضوراکرمﷺ کے بعدکوئی اور نبی مبعوث ہونے والانہیںہے۔
۲۔یہ کہ وہ مرزاغلام احمدصاحب کے لیے نبوت یاکسی ایسے منصب کے قائل نہیں ہیںجسے نہ ماننے کی وجہ سے کوئی شخص کافرہو۔
۳۔یہ کہ وہ تمام غیراحمدی مسلمانوںکومسلمان مانتے ہیںاوراحمدیوںکے لیے ان کی نمازجنازہ پڑھنا‘ان کے امام کی اقتدا میںنمازیںاداکرنا‘ان کوبیٹیاںدیناجائزسمجھتے ہیں۔
میںنے خواجہ صاحب سے کہاکہ اگرآج مرزاصاحب ان باتوںکاواضح طور پر اعلان کردیںتومیںآپ کویقین دلاتاہوںکہ یہ ساراجھگڑافوراًختم ہوجائے گا۔ بعدمیں مجھے معلوم ہواکہ خواجہ صاحب میری اس تجویزکولے کرمسٹرچندریگرسے ملے اورانھوںنے نہ صرف اس سے اتفاق کیابلکہ اس تجویزمیںخودبھی بعض الفاظ کااضافہ کیا۔پھرمجھے یہ بھی معلوم ہے کہ خواجہ صاحب نے ربوہ میںجاکراس پرمرزاصاحب سے گفتگو کی۔ اور مرزا صاحب نے وعدہ کیاکہ وہ اپنی جماعت کی مجلس شوریٰ بلاکراس پرغورکریںگے مگراسی دوران میںمیری گرفتاری عمل میںآگئی اوربعدکی کوئی اطلاع مجھے نہ مل سکی۔ غالباً مرزا صاحب نے یہ دیکھ کرکہ حکومت پوری طاقت سے ان کی حمایت اورمسلمانوںکی سرکوبی کر رہی ہے میری اس تجویزکودرخوراعتنانہ سمجھاہوگا۔کیونکہ اس وقت تک ان کی طرف سے ایساکوئی اعلان شائع نہیںہواجس میںان تین باتوںکی تصریح ہو۔