(۲)امرِدوم کے متعلق میں واقعات کوان کی صحیح صورت میںتاریخی ترتیب کے ساتھ عدالت کے سامنے رکھ دیتاہوںپھریہ رائے قائم کرناعدالت کاکام ہے کہ ڈائریکٹ ایکشن کے ساتھ میرااورجماعت اسلامی کاتعلق کیاتھااورکیانہ تھا۔مئی ۱۹۵۲ء میںجب احرارنے قادیانی مسئلہ پرایجی ٹیشن کاآغازکیاتواس وقت جماعت اسلامی کی رائے یہ تھی کہ قادیانیوںکومسلمانوںسے الگ کرکے ایک مستقل اقلیت قراردینے کامطالبہ بجائے خودصحیح ہے مگراس وقت جب کہ ملک کادستوربن رہاہے مسلمانوںکی توجہ کسی ضمنی مسئلہ کی طرف پھیردینادرست نہیںہے۔اس وقت تمام کوششوںکوایک صحیح اسلامی دستوربنوانے پر مر کو ز کیے رکھناچاہیے اوردستورہی میںقادیانی مسئلہ کوبھی حل کراناچاہیے۔یہی رائے جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ نے اپنے جون ۱۹۵۲ء کے ایک ریزولیوشن میںظاہرکی تھی۔جولائی ۱۹۵۲ء میںاحرارنے لاہورمیںتمام مذہبی جماعتوںکی ایک کنونشن منعقدکی اوراس میں جماعت اسلامی کوبھی دعوت دی۔جماعت کی طرف سے مولاناامین احسن صاحب اورملک نصراللہ خان صاحب عزیزاس میںشرکت کے لیے بھیجے گئے اورانھوںنے وہاںجماعت کے نقطہ نظرکی ترجمانی کردی۔اس کنونشن میںپنجاب کے لیے ایک مجلس عمل بنائی گئی اوراس میںجماعت اسلامی کوبھی دونشستیںپیش کی گئیںمگرجماعت نے اس مجلس میںشرکت قبول نہیںکی۔
مئی سے جولائی تک پنجاب میںجواضطرابات رونماہوئے ان کواورخصوصاًملتان کے ہنگامے کوجماعت اسلامی نے سخت تشویش کی نگاہ سے دیکھااوراس کے دووجوہ تھے۔ایک یہ کہ اس ہنگامہ خیزی سے عوام کی ذہنیت بگڑرہی ہے اورعوامی تحریکات کارخ شورش کی طرف مائل ہوتاجارہاہے جس کی وجہ سے ملک میںکسی سنجیدہ اورمعقول تحریک کے لیے کام کرنا مشکل ہوجائے گا۔دوسرے یہ کہ ایک ضمنی مسئلہ نے عوام کی توجہ کودستورکے بنیادی مسئلہ سے ہٹادیاہے اوراس حالت میںاگرکوئی غلط دستوربن جائے تواس کاخمیازہ ملک کوایک مدت درازتک بھگتناپڑے گا۔ان دونوںپہلوئوںپراچھی طرح غورکرنے کے بعد ہم نے اگست ۱۹۵۲ء کے آغازمیںیہ طے کیاکہ ہم اسلامی دستورکے لیے جدو جہد کر رہے ہیں۔اس کے مطالبات میںقادیانیوںکواقلیت قراردینے کامطالبہ بھی شامل کرلیا جائے۔ اس تدبیرسے ہمارے پیش نظردومقصدتھے‘ایک یہ کہ عوام کے لیے قادیانی مسئلہ پرالگ جدوجہدکرنے کی ضرورت باقی نہ رہے اور ان کی توجہ دستور کے مسئلہ پر مرکوز کی جاسکے۔ دوسرے یہ کہ عوام کی ذہنیت کو شورش اور ہنگامے سے ہٹا کر آئینی جدوجہد کی طرف موڑدیاجائے۔
ان دونوںمقاصدکومیںنے اپنے ایک بیان میںواضح کردیاتھاجوروزنامہ ’’تسنیم‘‘ ۴/اگست کی اشاعت میںشائع ہوا۔
اگست کے اواخریاستمبرکے اوائل میںمولاناعبدالحلیم صاحب قاسمی ناظم جمعیت علما اسلام پنجاب مجھ سے ملے اورانھوںنے مجھ سے کہاکہ آل مسلم پارٹیزکنونشن پنجاب نے جو مجلس عمل بنائی ہے اس میںایسے عناصر کاغلبہ ہے جن کارجحان قادیانی مسئلہ کوشورش اور ہنگامے کے ذریعے سے حل کرنے کی طرف ہے اورہم لوگ جواس تحریک کوغلط رخ پرجانے سے روکناچاہتے ہیں‘قلیل تعدادمیںہیں۔اس لیے ہم چاہتے ہیںکہ جماعت اسلامی مجلس عمل میںاپنے نمائندے بھیجناقبول کرلے تاکہ ہمارے ہاتھ مضبوط ہوںاورہم اس خطرے کی روک تھام کرسکیں۔میںنے محسوس کیاکہ ان کی اس بات میںوزن ہے اوراسی بنیاد پر میںنے جماعت اسلامی کے دونمائندے مجلس عمل کے لیے نامزدکیے جنھوںنے مجلس کے دوسرے سنجیدہ عناصرکے ساتھ تعاون کرکے متعددمواقع پرغلط رجحانات کا سدباب کیا۔ واقعات سے ثابت ہے کَہ اگست سے لے کرجنوری تک پھرکوئی شورش تحریک قادیانی مسئلہ کے متعلق نہ اٹھ سکی۔میںکہہ سکتاہوںکہ اس اصلاح حال میںجماعت کی مذکورہ بالادو تدبیروںکابھی بہت بڑاحصہ تھا۔
دسمبر۱۹۵۲ء میںمجلس دستورسازکی بیسک پرنسپل کمیٹی کی رپورٹ شائع ہوئی اور اس میںقادیانی مسئلہ کاکوئی حل تجویزنہیںکیاگیا۔ اس فروگذاشت نے ان کوششوںکوسخت نقصان پہنچایاجوہماری طرف سے اس تحریک کوآئینی طریقہ کار کاپابندرکھنے کے لیے کی جا رہی تھیں۔
جنوری ۱۹۵۳ء کے دوسرے ہفتہ میںپاکستان کے ۳۳سربرآوردہ علماکاایک اجتماع بی۔ پی۔ سی رپورٹ پرغورکرنے کے لیے کراچی میںمنعقدہوا۔اس اجتماع کاایک رکن میںبھی تھا۔علما نے اس اجتماع میںرپورٹ کاتفصیلی جائزہ لیااوراس کے دستوری خاکے میںبہت سی ترمیمات اوراصلاحات تجویزکیںجن میںسے ایک اصلاح یہ بھی تھی کہ رپورٹ میں جن اقلیتوںکے لیے جداگانہ انتخاب اورنشستوںکاتعین تجویزکیاگیاہے ان میں قادیانیوں کو بھی شامل کردیاجائے۔
اسی ماہ جنوری کے وسط میںکراچی ہی میںپورے پاکستان کی ایک آل مسلم پارٹیز کنونشن منعقدہوئی جس کامقصد’’تحفظ ختم نبوت‘‘کے مسئلہ پرغورکرناتھا۔مجھے بھی اس میں دعوت دی گئی تھی۔میںنے کنونشن کی سب جیکٹس کمیٹی (subjects committee) میں یہ تجویزپیش کی کہ جب علما نے بی۔پی سی رپورٹ پراپنی ترمیمات میںقادیانی مسئلہ کے آئینی حل کوشامل کرلیاہے تواس مسئلہ کے متعلق کوئی علیحدہ جدوجہدکرنے کی ضرورت نہیںہے بلکہ صرف وہی ایک جدوجہدتمام مقاصدکے لیے کافی ہے جوعلما کی تجویزکردہ ترمیمات کومنظورکرانے کے لیے کی جائے گی۔طویل مباحثہ کے بعدسب جیکٹس کمیٹی (subjects committee) نے میری اس رائے کومان لیامگرکھلے اجلاس میںکنونشن نے اسے ردکردیا۔
اس کے بعدمیںنے کنونشن میںدوسری تجویزیہ پیش کی کہ پورے پاکستان کی ایک مرکزی مجلس عمل بنائی جائے اورصرف وہی’’تحفظ ختم نبوت‘‘کے لیے پروگرام بنانے اور دوسرے اقدامات تجویزکرنے کی مجازہو۔اس مجلس کے سواکسی اورکوبطورخودکوئی قدم اٹھانے کا اختیارنہ ہوناچاہے۔میری یہ تجویزمان لی گئی اورپندرہ ارکان کی ایک مرکزی مجلس عمل بنادی گئی جن آٹھ ارکان اسی وقت منتخب کرلیے گئے اورطے ہواکہ سات ارکان بعد میں اس کے اندرشامل کیے جائیںجوارکان وہاںمنتخب کئے گئے تھے ان میںسے ایک مَیںبھی تھا۔
اس مرکزی مجلس عمل کاکوئی اجلاس ۲۶/فروری تک نہیںہوا۔اس میںجوسات مزیدار کان شامل کیے جانے تھے وہ بھی شامل نہیںکیے گئے۔جس کے معنی یہ ہیںکہ مجلس کی ترکیب ہی مکمل نہیںہوئی اورجیساکہ میںاوپربتاچکاہوںکنونشن کے مقصدپرعمل کرنے کے لیے پروگرام بنانے کی مجازصرف یہی مجلس تھی۔اس لیے۱۷جنوری سے ۲۶/فروری تک کنونشن کی ممبر جماعتوں میں سے بعض نے جتنی بھی کارروائیاںکیںوہ سب خلاف ضابطہ تھیں۔ ۲۳ /جنوری کوجو وفدوزیراعظم سے ملاوہ ان چندجماعتوںکاخودساختہ تھا۔کنونشن نے یامرکزی مجلس عمل نے اس وفدکوترتیب نہیںدیاتھا۔اس وفدنے وزیراعظم کوایک مہینہ کاجونوٹس دیااورمہینہ گزرنے کے بعدڈائریکٹ ایکشن شروع کرنے کاجواعلان کیااس کے لیے کسی نے اس کومجازنہیںکیاتھا۔اس کے بعد پنجاب آکران جماعتوںنے ڈائریکٹ ایکشن کی جوتیاریاں شروع کیںوہ سب کنونشن کے فیصلوںکے بالکل خلاف تھیں۔
میںنے ان بے ضابطگیوںکے خلاف سخت اعتراض کیا۔۲۳/فروری کومجلس عمل پنجاب کا جواجلاس ہوا،اس میںمیںنے اپنے اعتراضات تحریری صورت میںملک نصراللہ خان صاحب عزیزکے ذریعے سے بھیجے اوریہ مطالبہ کیاکہ مرکزی مجلس عمل کااجلاس منعقدکیاجائے اور تمام کارروائیوںکواس وقت تک روک دیاجائے جب تک مجلس کایہ اجلاس منعقدنہ ہو۔اس پرطے ہواکہ ۱۷/فروری کومرکزی مجلس عمل کااجلاس منعقد کیا جائے مگر۱۷ / کوکوئی اجلاس نہ ہوا اور میںنے دوبارہ اپنے اعتراضات تحریری صورت میںمیاںطفیل محمدصاحب، جنرل سیکرٹری جماعت اسلامی اورملک نصراللہ خان عزیزکے ذریعے سے مجلس عمل پنجاب کو بھیجے۔ آخرکار ۲۶/فروری کی تاریخ مرکزی مجلس عمل کے اجلاس کے لیے مقررہوئی۔
۱۹/فروری کومیری ہدایات کے مطابق جماعت اسلامی کے سیکرٹری نے اعلان کیاکہ مجلس عمل پنجاب کی طرف سے ڈائریکٹ ایکشن کے لیے حلف ناموںپرجماعت اسلامی کاکوئی رکن دستحظ نہ کرے اوریہ کہ کسی پروگرام کواس وقت تک قبول نہ کیاجائے جب تک کہ وہ مرکزی مجلس عمل کاپہلااجلاس منعقدہوااورمیری طرف سے اس میںسلطان احمدصاحب امیرجماعت اسلامی کراچی وسندھ شریک ہوئے۔میںنے پھروہ اعتراضات جوان بے قاعدگیوںپرمجھے تھے، تحریری صورت میںسلطان احمدصاحب کے ذریعے سے بھیجے اورمطالبہ کیاکہ ڈائریکٹ ایکشن کاجوپروگرام بالکل خلاف ضابطہ بنایاگیاہے اس کو منسوخ کردیاجائے اورسلطان احمد صاحب کویہ ہدایت کی کہ اگریہ بات نہ مانی جائے تووہ مرکزی مجلس عمل سے جماعت اسلامی کی علیحدگی کاعلان کردیں۔اس نئی مجلس میںنہ میںشامل تھا اورنہ جماعت اسلامی کاکوئی اورشخص۔
چاراورپانچ مارچ کوجماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کااجلاس لاہورمنعقدہوااوراس نے ڈائریکٹ ایکشن سے جماعت اسلامی کی قطعی بے تعلقی کافیصلہ کیا۔اسی موقع پرمیںنے پنجاب کے تمام اضلاع سے جماعت کے ذمہ دارکارکنوںکولاہوربلاکرہدایات دیںکہ وہ جماعت کے کارکنوںکواس تحریک سے بالکل علیحدہ رکھیں۔اس کے بعدصرف دومقامات سے مجھے اطلاع ملی کہ جماعت کے دوارکان نے ڈائریکٹ ایکشن میںحصہ لیاہے اور میں نے فوراًان دونوں کو جماعت اسلامی سے خارج کردیا۔
اس پوری مدت میںمیرے یاجماعت اسلامی کے کسی فعل سے یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ ان اضطرابات کی ذمہ داری میںہماراکوئی ادنیٰ ساحصہ بھی ہے۔اس کے باوجود جس طرح مجھے اورجماعت کے بہت سے ارکان کوخواہ مخواہ اس کی ذمہ داری میں گھسیٹا گیا ہے اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ جیسے ایک شخص سڑک سے ہٹ کرکھیتوںمیںجاکھڑاہواور دوسرا شخص وہاںموٹرلے جاکراس سےٹکرادے۔