حال ہی میںبعض ذمہ داران حکومت کی طرف سے یہ نظریہ پیش کیاگیاکہ ملک کی فلاح اوربہبودکے لیے ’’رواداری‘‘کی سخت ضرورت ہے اورقادیانی مسئلہ پر گفتگو یا قادیانیوںکی علیحدگی کامطالبہ ’’نارواداری‘‘ہے‘اس لیے حکومت اس کوبجائے خودقابل اعتراض سمجھتی ہے اوراس کااستیصال کرناچاہتی ہے۔ میںکہتاہوںکہ یہ’’رواداری‘‘ اور ’’نارواداری‘‘کے الفاظ کاایک عجیب استعمال اوران کے مفہوم کابالکل ہی ایک نرالا تصور ہے جسے حاکمانہ طاقت سے ہم پرٹھونسنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اگرکسی نے یہ کہا ہوتاکہ فلاںگروہ کوملک میںجینے نہ دویااس کے شہری حقوق سلب کرلویااس کواپنے مذہب پرعقیدہ اورعمل رکھنے سے زبردستی روک دوتوبلاشبہ یہ نارواداری ہوتی اوراس طرح کے کسی خیال کی ترویج بجائے خودایک برائی ہوتی جس کے استیصال کواپنی پالیسی قراردینے میںحکومت بالکل حق بجانب تھی۔لیکن یہاںجس معاملہ پرلفظ ’’نارواداری‘‘کوچسپاںکیا جارہاہے وہ یہ ہے کہ مسلمان ایک ایسے گروہ کواپنے معاشرہ کاجزوبناکرنہیںرکھناچاہتے جو ایک طرف ان کے معاشرہ میںشامل بھی ہے اوردوسری طرف تمام مسلمانوںکوکافرکہہ کر اور ان سے معاشرتی مقاطعہ کرکے اوران کے مقابلہ میںاپنی جماعتی تنظیم اورمعاشی جتھہ بندی الگ کرکے اپنی تبلیغ سے پیہم اس معاشرہ میںاندرونی اختلال برپاکرتاجارہاہے۔ایسے گروہ کی علیحدگی کے مطالبہ کو ’’نارواداری‘‘قراردینے کے معنی یہ ہیںکہ ہمارے ارباب حکومت کے شاداب ذہن میں ’’رواداری‘‘کامطلب اپنی تخریب اوراپنے شیرازے کی پرا گندگی کے اسباب کوخوداپنے اندرپرورش کرناقرارپایاہے۔تصورات کی عجائب آفرینی کا یہی حال رہاتوبعیدنہیںکہ کل اسی ’’نارواداری‘‘کے الزام میںہروہ شخص ہسپتال سے جیل بھیج دیا جائے جواپنڈی سائٹس کاآپریشن کراناچاہتاہو۔