جو حالات میں نے اوپر بیان کیے ہیں ان کی بنا پر میرے نزدیک ان اضطرابات اور ہنگاموں کی ذمہ داری چار فریقوں پر بالکل برابر تقسیم ہوتی ہے۔
(۱) قادیانی جماعت: جس نے مسلمانوں میں شامل رہ کر اپنی تکفیر ، تبلیغ، جداگانہ تنظیم، معاشرتی مقاطعہ اور معاشی کشمکش سے مسلمانوں کے اندر پچاس برس سے مسلسل ایک تفرقہ برپا کررکھاتھا اور جس نے قیام پاکستان کے بعد اپنے خطرناک منصوبوں کے اظہار اور اپنی جنگ جو یانہ باتوں سے عوام کو اپنے خلاف پہلے سے زیادہ مشتعل کرلیا حالانکہ اگر وہ ’’بہائیوں ‘‘ کی پالیسی اختیار کرکے اپنامذہب الگ بنالیتے اور مسلمانوں کے معاشرے میں شامل ہو کر تفرقہ انگیز یاں نہ کرتے تو مسلمان اسی طرح ان کے ساتھ رواداری برتتے جس طرح وہ ہندوئوں ، عیسائیوں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں سے برتتے ہیں۔
(۲) وہ جماعتیں جنھوںنے لوگوں کو ڈائریکٹ ایکشن کاراستہ دکھایا حالانکہ یہ بالکل بے موقع اور غیر ضروری تھا اور مسلم پبلک کے مطالبہ کو منوانے کے لیے آئینی ذرائع کے امکانات ابھی ختم نہیں ہوئے تھے ۔
(۳) مرکزی حکومت (جس سے میری مراد مرکزی وزارت ہے) جس نے مئی ۱۹۵۲ء سے مارشل لا کے اعلان تک مسلسل اپنی غیر دانشمندانہ پالیسی سے معاملات کو بگاڑ ا اور آخر کار ہزار ہا بندگان خدا کی تباہی کا سامان کیا۔
(۴) صوبائی حکومت (اس سے میری مراد صوبائی وزارت ہے) جس کی دورُخی پالیسی نے حالات کو خراب کرنے میں خاص حصہ لیا ہے۔
ان چاروں فریقوں میں سے کسی کا گناہ بھی دوسرے سے کم نہیں ہے اور یہ سب اس کے مستحق ہیں کہ ان پر مقدمہ چلایا جائے ۔ اگر یہاں نہ چلے گا تو ان شاء اللہ خدا وند عالم کی آخری عدالت میں چل کر رہے گا۔