(۱۷) ۲ مارچ تک لاہور میں پولیس کا رویہ بہت نرم تھا مگر اس کے بعد یکایک نہایت بے دردی سے پرامن جتھوں پر لاٹھی چارج شروع کردیے گئے۔ ان لاٹھی چارجوں میں جگہ جگہ نہایت دردناک مناظر دیکھے گئے جن کی وجہ سے شہر کی عام آبادی بھڑک اٹھی اور لاٹھی کا جواب پتھر سے دینے پر اتر آئی ۔ اس پر پولیس نے اور خصوصاً بارڈر پولیس نے فائرنگ شروع کیا۔ یہ فائرنگ بالکل اندھا دھند تھا۔ راہ چلتے آدمیوں کو بے قصور مارا گیا۔ دفتروں سے چھٹی پا کر نکلنے والے سرکاری ملازموں اور تعلیم گاہوں سے نکلتے ہوئے طلبہ تک پر باڑھیں ماری گئیں۔ انسانوں کو اس طرح شکار کیاگیا جیسے کہ جانور یا پرندے ہیں۔ اس پر سارے شہر میں کہرام مچ گیا۔ بڑے بڑے سرکاری دفتروں کے ملازمین حتیٰ کہ پنجاب سول سیکرٹریٹ تک کے ملازمین نے احتجاج کے طور پر ہڑتال کردی حالانکہ سرکاری ملازمین کا ان سے زیادہ ذمہ دار کوئی طبقہ نہ ہوسکتاتھا۔ ڈاک، تار، ٹیلیفون، ریلوے غرض اکثر و بیشتر محکموں کے آدمیوں نے اس وقت تک کام کرنے سے انکار کردیا، جب تک فائرنگ کا سلسلہ بند نہ کیاجائے۔ شہر کے باشندوں میں ایک تھوڑے سے اونچے طبقے کو چھوڑ کر کوئی عنصر ایسا باقی نہ رہا جو اس ظلم کے خلاف غصہ اور نفرت سے نہ بھر گیاہو۔ یہ حالات تھے جب میرے علم کی حد تک ۴ مارچ کی شام سے بعض لوگوں نے قتل، لوٹ مار، آتش زنی اور تخریب کا ارتکاب شروع کیا۔ واقعات کی اس ترتیب کو دیکھتے ہوئے میں پورے انصاف کے ساتھ یہ کہتاہوں کہ عوام کی طرف بدامنی کے یہ جس قدر بھی افعال ہوئے ان کی کوئی ذمہ داری ڈائریکٹ ایکشن کی تحریک کے کارکنوں اور رہنمائوں پر نہیں ہے اس کی ذمہ داری تمام تر بارڈر پولیس کے ظلم و ستم پر ہے۔ ڈائریکٹ ایکشن کے لیڈروں نے ان حرکات پر لوگوں کو ہرگز نہیں اکسایا۔ بارڈر پولیس کے ظلم نے لوگوں کو دیوانہ کرکے ان سے یہ حرکات کرائیں۔