(۱۰) یہ ہے حالات کا وہ تاریخی پس منظر، جس میں احرار نے قادیانی مسئلہ پر ایجی ٹیشن کاآغاز کیا۔ میری سابق تصریحات سے یہ بات معلوم ہوچکی ہے کہ مسئلہ فی الواقع پنجاب میں موجود تھا اور عوام کے اندر اس کے بارے میں اتنی بے چینی بھی موجودتھی کہ اسے ایک فتنہ بننے کے لیے بس کسی نہ کسی کے چھیڑ دینے کی ضرورت تھی ۔ اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ وہ احراری ہی کیوں تھے جنھوںنے اسے چھیڑا ؟اس کے بارے میں آج حکومت کی طرف سے جو نظریات پیش کیے جارہے ہیں ان کوسراسرافترااوراخلاقی پستی کی انتہاسمجھتاہوں۔ درحقیقت جو لوگ بھی اس ملک کی تحریکات سے براہ راست واقفیت رکھتے ہیں، وہ اس امرواقعی سے آگاہ ہیں کہ احرار کے لیے اس مسئلہ سے تعرض کرنے کا یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا۔ پچھلے پچیس سال سے وہ قادیانیوں کے خلاف تقریریں کرتے رہے ہیں اور یہ بحث ان کی دلچسپیوں کا خاص موضوع رہی ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد جب ۱۹۴۹ء میں احرارنے اپنے پچھلے سیاسی مسلک سے توبہ کی اور اپنی سیاست کو مسلم لیگ کی سیاست میں مدغم کرنے کا اعلان کیا تو اس وقت انھوںنے یہ اعلان بھی کیاتھاکہ آئندہ وہ جماعتی حیثیت سے اپنی جدوجہد کو صرف ’’تحفظ ختم نبوت ‘‘ پر مرکوز رکھیں گے۔ اس کے بعد سے ۱۹۵۲ء تک وہ مسلم لیگ کے سیاسی حلیف رہے۔ پنجاب اور بہاول پور کے انتخابات میں انھوں نے مسلم لیگ کا پورا پورا ساتھ دیا۔ پاکستان کے دونوں سابق وزیراعظم (مسٹر لیاقت علی خان مرحوم اورخواجہ ناظم الدین ) مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے ان کی خدمات سے فائدہ اٹھاتے رہے۔انتخابی جلسوں میں بارہا احراری لیڈروں نے مرکزی وزرا اور پنجاب وبہاول پور کے وزرا کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پر تقریریں کی ہیں اور خود ان تقریروں میں بھی انھوںنے قادیانی مسئلہ پر اظہار خیال کیا ہے ۔ اس پوری مدت میں ہم نے کبھی نہیںسنا کہ احراری اپنی سابق کانگریسیت کی وجہ سے پاکستان کی تخریب کے درپے ہیں یا باہر کی طاقتوں سے ان کا کوئی سازباز ہے۔ مگر جب انھوںنے حکمران پارٹی کی مرضی کے خلاف یہ تازہ ایجی ٹیشن شروع کیا تویکایک وہی پارٹی جس کے یہ احرارکل تک سیاسی حلیف تھے اپنے سرکاری بیانات میںہمیںیہ خبردینے لگے کہ یہ لوگ توکبھی پاکستان کے قیام سے راضی ہی نہیںہوئے اورانھوںنے محض دشمنوںکے اشارے پرپاکستان کی تخریب کے لیے یہ قادیانی مسئلہ چھیڑاہے۔میںاپنی پبلک لائف کے آغازسے احرارکاسیاسی مخالف رہا ہوں اورمیراان کے ساتھ کبھی کوئی حلیفانہ تعلق نہیں رہا ہے۔مگرانصاف اوردیانت کاتقاضایہ ہے کہ میںغداری اوربیرونی طاقتوںکے ساتھ سازبازکے ہراس الزام کوجومیرے ملک کے کسی شہری پرلگایاجائے اس وقت تک جھوٹاسمجھوںگاجب تک کہ اس کاثبوت کسی کھلی عدالت میںدے کرمجرم کواس کے جرم کی سزانہ دلوادی جائے۔ثبوت اورشہادت کے بغیرکسی شخص یاجماعت کے خلاف اس طرح کے گھنائونے الزامات لگانامیرے نزدیک سخت ناجائز ہے اورمیںاس کوروسیوںکی بہت ہی مکروہ تقلیدسمجھتاہوں۔اس لیے جب تک کوئی دوسری بات ثابت ہو‘میری ایمان دارانہ رائے یہ ہے کہ احرارنے قادیانیوںکے خلاف جوایجی ٹیشن شروع کیاوہ ان کے پچھلے پچیس سالہ جماعتی مسلک کاایک قدرتی تقاضا تھا۔ مسلم پبلک میںقادیانیوںکے متعلق جوجذبات اورمطالبات موجودتھے، ان کوایک تحریک کے راستہ پرڈالنے کے لیے اس ملک میںاگرکوئی جماعت تھی تووہ احراری جماعت ہی ہوسکتی تھی۔