(۹)قیام پاکستان کے بعدخودقادیانیوںکی طرف سے پے درپے ایسی باتیںہوتی رہی ہیںجنھوںنے مسلمانوںکی تشویش میںمزیداضافہ کردیااورمسلمان یہ محسوس کرنے لگے کہ قادیانی مسئلہ انگریزی دورسے بھی بڑھ کران کے لیے اب ایک خطرناک مسئلہ بنتاجارہاہے۔چھوٹی چھوٹی باتوںکونظراندازکرکے میںصرف پانچ اہم باتوںکی طرف عدالت کوتوجہ لائوںگا۔
اول یہ کہ مرزابشیرالدین محموداحمدصاحب نے ۲۲/جولائی ۱۹۴۸ء کوکوئٹہ میں تقریر کرتے ہوئے اس خیال کااظہارفرمایاکہ وہ بلوچستان کوایک قادیانی صوبہ میںتبدیل کرنا چاہتے ہیںتاکہ پورے پاکستان پرقبضہ کرنے کے لیے وہ ایک (base)کے طورپرکام آئے۔ یہ خطبہ ۱۳/اگست ۱۹۴۸ء کے الفضل میںملاحظہ کیاجاسکتاہے۔مرزاصاحب نے اس خیال کوصرف ایک وقتی خواہش کے طورپرہی ظاہرنہیںکیاہے بلکہ وہ اس کا باربار اعادہ کرتے رہے ہیں۔چنانچہ ۵/جولائی ۱۹۵۰ء کے الفضل میں بھی ان کاایک خطبہ اسی خیال کا حامل ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ ایک مستقل منصوبہ ہے جو ان کے ذہن میں پکتا ہے۔
دوم یہ کہ انھوںنے اپنے اس منصوبہ کا بھی بار بار علی الاعلان اظہار کیا ہے کہ باقاعدہ ایک منظم کوشش کے ساتھ مختلف سرکاری محکموں میں قادیانیوں کو داخل کیاجائے اور پھر سرکاری عہدوں پر قبضہ کرکے حکومت کی مشینری کو قادیانی جماعت کے مفاد میں استعمال کیاجائے۔ اس کی مثال میں خلیفہ صاحب کے صرف ایک خطبہ کی حسب ذیل عبارت نقل کردینا کافی ہے:
’’اگر وہ (قادیانی جماعت کی صوبائی شاخیں ) اپنے نوجوانوں کو دنیا کمانے پر لگائیں تواس طرح لگائیں کہ جماعت اس سے فائدہ اٹھاسکے۔ بھیڑ چال کے طور پر نوجوان ایک ہی محکمہ میں چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ متعدد محکمے ہیں جن کے ذریعے سے جماعت اپنے حقوق حاصل کرسکتی ہے اور اپنے آپ کو شر سے بچا سکتی ہے۔ جب تک ان سارے محکموں میںہمارے اپنے آدمی موجو نہ ہوں اس سے جماعت پوری طرح کام نہیں لے سکتی ۔ مثلاً موٹے موٹے محکموں میں سے فوج ہے ، پولیس ہے ، ایڈمنسٹریشن ہے، ریلوے ہے ، فنانس ہے،اکائونٹس ہے ، کسٹم ہے ، انجینئرنگ ہے۔ یہ آٹھ دس موٹے موٹے شعبے ہیں جن کے ذریعہ سے ہماری جماعت اپنے حقوق محفوظ کرسکتی ہے ۔ ہماری جماعت کے نوجوان فوج میںبے تحاشا جاتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں ہماری نسبت فوج میں دوسرے محکموں کی نسبت سے بہت زیادہ ہے اور اس سے ہم اپنے حقوق کی حفاظت کا فائدہ نہیں اٹھا سکتے ۔ باقی محکمے خالی پڑے ہیں۔ بے شک آپ اپنے لڑکوں کو نوکری کرائیں لیکن وہ نوکری اس طرح کیوں نہ کرائی جائے جس سے جماعت فائدہ اٹھاسکے۔ ہمیں اس بارے میں خاص پلان بنانا چاہیے اور پھر اس کے مطابق کام کرنا چاہیے۔ (الفضل ،۱۱جنوری ۱۹۵۲ئ)
سوم یہ کہ خلیفہ صاحب قیام پاکستان کے بعد سے اپنے پیروئوں کو مسلسل ’’دشمن ‘‘ کے مقابلہ پر اکساتے اور بھڑکاتے رہے ہیں اور ان کے اندر ایک جنگ جویانہ ذہنیت پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کے ایک خطبہ کی ایک یہ عبارت ملاحظہ ہو:
’’لوگ گھبراتے ہیں کہ ان کی مخالفت کیوں کی جاتی ہے۔ لوگ جھنجھلا اٹھتے ہیں کہ ان کی عداوت کیوں کی جاتی ہے۔ لوگ چڑتے ہیں کہ انہیں دکھ کیوں دیا جاتاہے ۔ لیکن اگر گالیاں دینے اور دکھ دینے کی یہی وجہ ہے کہ وہ ہمارا شکار ہیں ، تو پھر ہمیں گھبرانا نہیں چاہیے اور نہ کسی قسم کی فکر کرنا چاہیے بلکہ ہمیں خوش ہونا چاہیے کہ دشمن یہ محسوس کرتاہے کہ اگر ہم میں کوئی نئی حرکت پیداہوئی تو ہم اس کے مذہب کو کھا جائیں گے۔ ‘‘ (الفضل، ۱۶جولائی ۱۹۴۹ء)
صریح طور پر دیکھاجاسکتاہے کہ اس عبارت میں ’’لوگ ‘‘سے مراد قادیانی ہیں۔ ’’دشمن ‘‘ سے مراد مسلمان ہیں۔ مرزا صاحب مسلمانوں کو اپنا ’’شکار ‘‘ قرار دے رہے ہیں اور اس بات پر مسرت کا اظہار فرمار ہے ہیں کہ مسلمان ان کی تحریک کو اپنے مذہب کے لیے تباہ کن خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ ایسے ہی جنگ جو یا نہ خطبے ۵ /جولائی ۱۹۵۰ء اور ۷/مئی ۱۹۵۱ء کے الفضل میں بھی موجود ہیں۔
چہارم یہ کہ قادیانی جماعت کی طرف سے جارحانہ ارادوں کا اظہار صرف جنگ جویانہ باتوں ہی کی شکل میں نہیں بلکہ عملی تدابیر کی شکل میں بھی ہوتارہاہے جن کی خبریں عام طور پر مسلمانوں میں پھیل کر اضطراب پیدا کرتی ہیں۔ مثلاً فوج میں فرقان بٹیلین کے نام سے خالص قادیانیوں پر مشتمل ایک بٹالین کا قیام ۔ قادیانیوں کے پاس اسلحہ سازی کے متعدد کارخانے ہونا اور قادیانیوں کو اسلحہ کے بکثرت لائسنس حاصل ہونا۔ ان چیزوں کو قادیانیوں نے خود ہی عوام کے سامنے بیان کر کرکے اپنا رعب بٹھانے کی کوشش کی ہے۔
پنجم یہ کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اور ان کی جماعت کے دوسرے لوگوں نے ۱۹۵۲ء کے آغاز سے مسلمانوں کو کھلم کھلا دھمکیاں دینا شروع کردیں جن کا لہجہ روز بروز اشتعال انگیز ہوتا چلاگیا۔ مثال کے طور پر ان کی حسب ذیل عبارتیں ملاحظہ ہوں:
’’ہم فتح یاب ہوں گے ۔ ضرور تم مجرموں کی طرح ہمارے سامنے پیش ہوگے اس وقت تمہارا حشر بھی وہی ہوگا جو فتح مکہ کے دن ابوجہل اور اس کی پارٹی کا ہوا۔ ‘‘
(الفضل ،۳ جنوری ۱۹۵۲ء)
’’۱۹۵۲ء کو گزرنے نہ دیجیے جب تک کہ احمدیت کا رعب دشمن اس رنگ میں محسوس نہ کرے کہ اب احمدیت منائی نہیں جاسکتی اور وہ مجبورہو کر احمدیت کی آغوش میں آگرے۔‘‘ (الفضل ،۱۶جنوری ۱۹۵۲ء)
’’ہاں اب آخری وقت آن پہنچاہے ان تمام علمائے حق کے خون کابدلہ لینے کا جن کو شروع سے لے کر آج تک یہ خونی ملا قتل کراتے آئے ہیں۔ ان سب کے خون کابدلہ لیا جائے گا۔
۱۔ عطاء اللہ شاہ بخاری سے
۲۔ ملا بدایوانی سے ۔
۳۔ ملااحتشام الحق سے۔
۴۔ ملامحمد شفیع سے ۔
۵۔ ملا مودودی (پانچویں سوار ) سے ۔
(الفضل ،۱۵جولائی ۱۹۵۲ء)