(۷)یہ اسباب نصف صدی سے اپناکام کررہے تھے اورانھوںنے خاص طورپر پنجاب میںقادیانیت کومسلمانوںکے لیے ایک ایسا مسئلہ بنادیاتھاجوچاہے کوئی بڑامسئلہ نہ ہومگراحساس کے لحاظ سے ایک تلخ مسئلہ ضرورتھاجس کی تلخی کوشہروںاوردیہات کے لاکھوںآدمی یکساںمحسوس کررہے تھے۔اس میںشک نہیںکہ یہ تلخی اس سے پہلے کسی بڑے ہنگامہ کی محرک نہ بنی تھی مگرپچھلے تیس چالیس سال کے دوران میںوہ برابرچھوٹے چھوٹے گھریلوخاندانی اورمقامی جھگڑے برپاکرتی رہی تھی جوبارہاعدالتوںتک بھی فوج داری اوردیوانی مقدمات کی صورت میںپہنچے ہیں۔مسلمانوںکے اونچے طبقے چاہے اس میںشریک نہ رہے ہوں مگرعوام اورنچلے متوسط طبقہ میںایک مدت سے یہ عام خواہش موجودرہی ہے کہ قادیانیوںکومسلمانوںسے علیحدہ ایک اقلیت قرار دے دیاجائے تاکہ انہیںمسلمانوںکے معاشرہ میںشامل رہ کراپنی تبلیغ سے اسی معاشرہ کے اجزا کوآئے دن پارہ پارہ کرتے رہنے کاموقع نہ ملے۔مسلمانوںکی اسی خواہش کی ترجمانی اب سے تقریباً بیس برس پہلے علامہ اقبال مرحوم نے اپنے رسالہ (islam and Ahmadism) میںفرمائی تھی اوراس کے حق میںبڑے مضبوط دلائل دیے تھے۔
(۸)انگریزی دورمیںمسلمان اس کی بہت کم امیدرکھتے تھے کہ وہ قادیانیوںکواپنے آپ سےالگ کرنے کی کوشش میںکامیاب ہوسکیںگے۔کیونکہ ایک بیرونی قوم سے قدرتی طورپریہ توقع نہیںکی جاسکتی تھی کہ وہ مسلمانوںکے ایک معاشرتی مسئلہ کوہمدردی کے ساتھ سمجھنے اورحل کرنے کی زحمت اٹھائے گی اورمسلمانوںکویہ بھی احساس تھاکہ انگریز قادیانیوں کو قصداًمسلمانوںکے اندرشامل رکھناچاہتے ہیںتاکہ بوقت ضرورت مسلم مفادکے خلاف ان کوآسانی کے ساتھ استعمال کیاجائے۔مگرجب پاکستان ایک خودمختار ریاست کی حیثیت سے وجودمیںآگیاتومسلمانوںنے بجاطورپراپنی قومی حکومت سے یہ توقع وابستہ کی کہ وہ دوسرے مسائل کی طرح قادیانیت کے مسئلہ کی طرف بھی توجہ کرے گی جوپچاس برس سے ان کی ملت میںمسلسل تفرقہ برپاکررہی تھی اورجس کی بدولت ایک ہی قوم کے اندردوایسے عنصرپیدا ہو رہے ہیں جو مذہبی‘ معاشرتی‘ معاشی اورسیاسی حیثیت سے باہم متصادم اور نبردآزما ہیں۔پاکستان کی عمرکے ساتھ یہ توقع بڑھتی اورپھربتدریج مایوسی اور بے چینی اورشکایت کی حدتک پہنچتی چلی گئی۔میںنے۱۹۵۰ء اور۱۹۵۱ء میں تقریباً پورے پنجاب کادورہ کیاہے اورشہروںکے علاوہ دیہاتی علاقوںتک بھی گیاہوں۔اس پورے دورے میںکوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاںمجھ سے قادیانیت کے بارے میںسوال نہ کیاگیاہو۔میںنے اسی وقت یہ محسوس کرلیاتھاکہ جس مسئلہ کے متعلق عام لوگوںکے دلوںمیںیہ احساسات موجودہوںاس کواگرحل نہ کیاگیاتووہ کبھی نہ کبھی ملک میںایک فتنہ اٹھاکررہے گا۔