(۱)قادیانیوں اورمسلمانوںکے درمیان اختلاف کآغازبیسویںصدی کی ابتداسے ہوا۔انیسویںصدی کے خاتمہ تک اگرچہ مرزاغلام احمدصاحب مختلف قسم کے دعوے کرتے رہے تھے جن کی بناپرمسلمانوںمیںان کے خلاف عام بے چینی پیداہوچکی تھی مگراس وقت تک انھوںنے کوئی ایک قطعی دعویٰ نہیںکیاتھا۔۱۹۰۲ء میںانھوںنے نبوت کاصریح اورقطعی دعویٰ کیاجس سے ان کے ماننے والوںاورعام مسلمانوںکے درمیان ایک مستقل نزاع شروع ہوگئی۔
اس نزاع کی وجہ یہ تھی کہ نبوت اسلام کے بنیادی مسائل میںسے ایک ہے۔ایک شخص کے دعوائے نبوت کے بعدہرمسلمان کے لیے لازم ہوجاتاہے کہ اس پرایمان لانے یانہ لانے میںسے کسی ایک رویہ کافیصلہ کرے۔جولوگ اس پرایمان لائیںوہ آپ سے آپ ایک الگ اُمت بن جاتے ہیںاوران کے نزدیک ایسے سب لوگ کافرہوجاتے ہیں۔جنھوںنے اس کونہ ماناہواوراس کے برعکس جولوگ اس پرایمان نہ لائیںوہ خودبخود مقدم الذکرگردہ سے الگ ایک اُمت قرارپاتے ہیں۔وہ ایسے سب لوگوںکوکافرسمجھتے ہیںجوان کے نزدیک جھوٹے نبی پرایمان لائے ہوں۔یہی وجہ کہ ہے کہ دعوائے نبوت کے بعدسے مرزاصاحب کے ماننے والے اورنہ ماننے والے ایک دوسرے سے جداہوتے چلے گئے۔مرزاصاحب اوران کے بعدان کے خلفا نے اعلانیہ اپنی تقریروںاورتحریروں میںان تمام لوگوںکوقطعی کافرٹھہرایاجوان پرایمان نہیںلائے اورمسلمانوںکے تمام فرقوںنے (جن میںسنی‘شیعہ ‘اہل حدیث‘حنفی دیوبندی‘بریلوی سب شامل ہیں۔) بالاتفاق مرزاصاحب اوران سب لوگوںکوکافرقراردیاجوان پرایمان لے آئے۔
(۲)اس نزاع کوتین چیزیںروزبروزتیزکرتی چلی گئیں۔
ایک: اس نئے مذہب کے پیروئوںکی تبلیغی سرگرمی اوربحث ومناظرہ کی دائمی عادت جس کی بنا پران میںکاہرشخص اپنے ماحول میںہمیشہ ایک کشمکش پیداکرتارہاہے۔
دوسرے: ان تبلیغی سرگرمیوںاوربحثوںاورمناظروںکازیادہ ترمسلمانوںکے خلاف ہوناجس کی وجہ سے بالعموم مسلمان ہی ان کے خلاف مشتعل ہوئے ہیں۔
تیسرے: ان کامسلمانوںکے اندرشامل رہ کراسلام کے نام سے تبلیغ کرناجس کی وجہ سے ناواقف مسلمان یہ سمجھتے ہوئے بآسانی ان کے مذہب میںداخل ہوجاتے ہیںکہ وہ ملت اسلامیہ سے نکل کرکسی اورملت میںنہیںجارہے ہیں۔یہ چیزقدرتی طور پرمسلمانوں میں اس سے زیادہ غصہ پیداکرتی ہے جوعیسائیوںیاکسی دوسرے مذہب والے کی تبلیغ سے کسی مسلمان کے مرتدہوجانے پرپیداہوتاہے۔کیونکہ ان کی تبلیغ کسی مسلمان کواس دھوکے میںمبتلانہیںکرتی کہ وہ مسلمانوںمیںرہ کربھی مسلمانوںہی میںشامل ہے۔