(جوانھوں نے فردجرم ضابط نمبر۸مارشل لا بشمول دفعہ نمبر۱۲۴/الف کے جواب میں فوجی عدالت میںدیا۔)
اس مقدمے میںمیرابیان وہی ہے جومیںنے ’’قادیانی مسئلہ ‘‘کے مقدمے میں پیش کیاہے۔اس لیے اس کی نقل داخل کررہاہوں۔البتہ اس پرمیں چند نکات کااوراضافہ کرناچاہتاہوں۔میرے جن بیانات کوقابل اعتراض ٹھہرایاجارہاہے، ان کے بارے میںایک منصفانہ رائے قائم کرنے کے لیے صرف اتنی بات کافی نہیںہے کہ محض ان بیانات کی عبارتوںیاچندفقروںاورالفاظ ہی کودیکھاجائے۔بلکہ میرے اس پورے طرزعمل کونگاہ میںرکھناضروری ہے جومیںنے قادیانی مسئلہ کے متعلق ایجی ٹیشن کے آغازسے اب تک اختیارکیاہے۔بحیثیت مجموعی اس پورے منظرمیںرکھ کرمیرے بیانات کودیکھنے سے ہی میری پوزیشن عدالت کے سامنے صحیح طورپرواضح ہوسکتی ہے۔جوواقعات میں نے اپنے بیان میںپیش کیے ہیںاورجوباتیںدستاویزی اورشخصی شہادتوںسے عدالت کے سامنے آئی ہیںان سے یہ ثابت ہوتاہے کہ:
۱۔میںنے اپنی حدتک ڈائریکٹ ایکشن کوروکنے کی پوری کوشش کی ہے اورخوداس نظام میںجواس مسئلہ پرجدوجہدکرنے کے لیے بتایاگیاہے اس غلط طریق کارکی آخروقت تک مزاحمت کرتارہاہوں،یہاںتک کہ میری مزاحمت سے ہی آخرڈائریکٹ ایکشن کے حامیوںنے ۲۶فروری کومرکزی مجلس عمل توڑکراس کی جگہ ایک نئی ڈائریکٹ ایکشن کمیٹی بنائی اورڈائریکٹ ایکشن شروع کیا۔
۲۔میں نے ڈائریکٹ ایکشن میںنہ خودحصہ لیا،نہ اپنی جماعت کے کسی رکن کواس میںحصہ لینے کی اجازت دی، نہ عام لوگوںکواس میںشریک ہونے کامشورہ دیابلکہ میںنے اورمیر ی جماعت نے علی الاعلان اس طریق کارکوغلط ٹھہرایااورجماعت کے جن لوگوںنے جماعتی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرکے اس تحریک میںحصہ لیاانہیںمیںنے فوراًجماعت سے خارج کردیا۔
۳۔میںنے جولائی ۱۹۵۲ء سے اس تحریک کارخ پرامن آئینی جدوجہدکی طرف موڑنے کی مسلسل کوشش کی اورکم ازکم دسمبر۱۹۵۲ء تک میری ہی کوششوںسے یہ تحریک غیرآئینی طریقوںکی طرف جانے سے رکی رہی۔پھرمیںنے جنوری ۱۹۵۳ء میںبھی اسے ڈائریکٹ ایکشن کے راستے پرجانے سے روکا‘مگربی۔ پی۔ سی رپورٹ میں قادیانی مسئلہ کوقطعی نظراندازکرنے کی جوغلطی کی گئی تھی اس نے میرے ہاتھ کمزورکردئیے ۔کیونکہ اس کی وجہ سے مسلمان اس خاص معاملے میںآئینی طریق کارسے مایوس ہوگئے تھے اوران لوگوںپراعتمادکرنے لگے تھے جواس کوحل کرانے کے لیے غیرآئینی طریقوںکامشورہ دے رہے تھے۔میرے نزدیک جوبدامنی آخرکارمارچ ۱۹۵۳ء میںرونماہوئی اس کی ذمہ داری تنہاڈائریکٹ ایکشن کی تحریک کے رہنمائوںہی پرنہیںہے‘بلکہ اس میںمرکزی وزارت کی بے تدبیری اورغلط پالیسی بھی برابرکی شریک ہے۔اس پالیسی کی غلطیوں کومیںاس وقت سے محسوس کررہاہوںجب سے یہ مسئلہ ملک میںچھڑاتھااورمجھے یقین تھاکہ یہ پالیسی اگرقائم رہی توبدترین نتائج پیداکرکے رہے گی۔اس لیے میرافرض تھاکہ حکومت کوبھی اس کی غلط روش سے مطلع کردوںاوراسے تدبیرکے ساتھ معاملے کوسمجھنے اورحل کرنے پرآمادہ کروں۔اس فرض کے لیے میںجولائی ۱۹۵۲ ء سے مسلسل اورپے در پے مضامین لکھ لکھ کرحکومت کومسئلہ کی صحیح نوعیت سمجھانے کی کوشش کی اوراسے حل کرنے کے لیے تعمیری تجاویزپیش کیں۔پھرڈائریکٹ ایکشن کی تحریک کوطاقت سے کچل دینے کافیصلہ کیاگیاتومیںنے یکم مارچ ۱۹۵۳ء کے بیان میںحکومت کوآگاہ کیاکہ عوام کے مطالبات کوبلاوجہ ردکردینے اوردلیل کے بجائے طاقت سے ان کامقابلہ کرنے کی پالیسی تباہ کن ہے۔اس کے بعد۵/ مارچ کوگورنرپنجاب کی کانفرنس میںآخری مرتبہ یہ کوشش کی کہ حکومت طاقت کے بجائے عوام کوراضی اورمطمئن کرکے امن قائم کرے۔یہ تمام باتیںظاہرکرتی ہیںکہ میری نیت اس آگ کوبھڑکانے اوراس پرتیل چھڑکنے کی نہ تھی۔بلکہ میںاسے بجھانے کے درپے تھااوراس غرض کے لیے ایک طرف حکومت کوسمجھانے اوردوسری طرف ڈائریکٹ ایکشن کے حامیوں کو روکنے کی کوشش کررہاتھا۔ اس مجموعی پس منظر میں رکھ کر اگر میرے بیانات کو دیکھا جائے تو وہ اصلاح حال کی کوشش کے طویل سلسلہ کی ایک کڑی نظر آئیں گے۔ حکومت نے ان کو اگر بغاوت سمجھاہے تو میں نہیں کہہ سکتاکہ یہ میری بد قسمتی ہے یا اس ملک کی۔
(ابوالاعلیٰ مودودی)
٭…٭…٭…٭…٭