(جو انھوںنے فرد جرم زیر مارشل لا ضابطہ نمبر۸ بشمول دفعہ نمبر۱۵۳/الف کے جواب میں فوجی عدالت میں دیا )
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۲۷اور ۲۸مارچ کی درمیانی شب کو میرے مکان پر اچانک چھاپہ مارا گیا اور نہ صرف مجھے گرفتار کیا گیا بلکہ پولیس نے میرے مکان کی اور جماعت اسلامی کے مرکزی دفتر کی پوری تلاشی لینے کے بعد میرے ذاتی حسابات اور جماعت کے حسابات کے تمام رجسٹروں پراور میرے اور جماعت کے دوسرے کاغذات پر قبضہ کرلیا۔ نیز جماعت کے خزانے کی پوری رقم بھی اپنی تحویل میں لے لی ۔ بعد میں مجھے معلوم ہواکہ شہر لاہور میں جماعت اسلامی کے بارہ ذمہ دار کارکنوں کو بھی اس رات گرفتار کیا گیا۔ اس کے بعد ایک مہینہ چھ دن تک جماعت کے حسابات اور دوسرے ریکارڈ کو خوب اچھی طرح خورد بین لگا لگا کر دیکھا گیا اور مجھ پر اور جماعت کے دوسرے بہت سے کارکنوں پر قلعہ لاہور میں لمبا چوڑا interrogationہوتا رہا جس کے سوالات کااندازصاف بتا رہاتھاکہ تحقیقات اس بات کی کی جارہی ہیں کہ جماعت کے فنڈز کہاں سے فراہم ہوتے ہیں اور بیرونی حکومتوں سے تو جماعت اسلامی کاتعلق نہیں ہے؟ یہ سب کچھ ہوجانے کے بعد اب اس معززعدالت کے سامنے دو مقدمے میرے خلاف پیش کیے گئے ہیں۔ جن میں سے ایک ’’قادیانی مسئلہ ‘‘ کی اشاعت کے متعلق اور دوسرا میرے ان بیانات کے متعلق ہے جو آخر فروری اور ۷ مارچ ۱۹۵۳ء کے درمیان میں نے پریس کو دئیے۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ دراصل مقصد تو مجھ پر اور جماعت اسلامی پر کچھ دوسرے ہی سنگین الزامات لگاناتھا مگر جب کہیں سے کوئی چیز ایسی ہاتھ نہ آئی جس پر گرفت کی جاسکتی تو اب مجبوراً یہ دو مقدمے بنا کرپیش کیے جارہے ہیں، ورنہ ظاہر ہے اگر میرے گناہ وہی دو تھے جو اب پیش کیے جارہے ہیں تو ان میں سے کسی کے لیے بھی جماعت کے حسابات اور دوسرے ریکارڈ اور جماعت کے خزانے پر قبضہ کرنے کی حاجت نہیں تھی۔
اب تک جن الزامات پر میرا مقدمہ اس معزز عدالت کے سامنے پیش کیا گیا ہے ان کے بارے میں قانونی بحثوں کو وکلا پر چھوڑتے ہوئے میں صرف اصل واقعات بلا کم و کاست عدالت کے سامنے پیش کرتاہوں ۔ مجھے اپنے اس بیان کو مرتب کرتے وقت یہ سہولت حاصل نہیں ہے کہ اپنے دفتر کے ریکارڈ سے فائدہ اٹھاسکوں ، اس لیے میں محض اپنی یاد کی بنا پر تاریخوں کے حوالے دوں گا ان میں تھوڑی بہت غلطی کا امکان ہے تاہم واقعات جو میں بیان کررہاہوں وہ اپنی جگہ پر بالکل صحیح ہیں۔
۱۔ جماعت اسلامی پاکستان کی ایک منظم جماعت ہے۔ جس کا دستور تحریری شکل میں شائع شدہ موجود ہے اور اس دستور کی دفعہ ۱۰ میں قطعی طور پر جماعت کی یہ پالیسی لکھی ہوئی ہے کہ وہ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کبھی کوئی ایسا طریقہ اختیار نہیں کرے گی جو فساد فی الارض کا موجب ہو۔ اس لیے یہ جماعت خود اپنے دستور کی رو سے پر امن ذرائع کی پابند ہے اور غیر آئینی ذرائع یا بدامنی پھیلانے والے ذرائع اختیار نہیں کرسکتی ۔
۲۔ جماعت اسلامی نے ابتدا سے جب کہ وہ اگست ۱۹۴۱ء میں قائم ہوئی تھی ، آج تک اپنے سامنے ایک ہی نصب العین رکھاہے جس کے لیے وہ قیام پاکستان سے پہلے بھی جدوجہد کرتی رہی ہے اور آج تک کیے جارہی ہے۔ وہ یہ ہے کہ زندگی کے پورے نظام کو اس کے اخلاقی، معاشرتی ، معاشی اور سیاسی پہلوئوں سمیت اسلام کے اصولوں پر قائم کیاجائے۔ اس نصب العین کے لیے اپنی جدوجہد میں آج تک جماعت اسلامی نے کبھی کوئی غیر آئینی اور فساد انگیز طریق کار اختیار نہیں کیاہے۔
۳۔ قیام پاکستان کے بعد جماعت اسلامی نے جس مقصد پر اپنی کوششوں کو مرکوز کیا ہے، وہ یہ ہے کہ اس نئی ریاست کا دستور اسلامی اصولوں پر بنوایا جائے۔
۴۔ اپنی کوشش کے سلسلے میں جماعت اسلامی نے مئی ۱۹۵۲ء کے آغاز میں مجلس دستور ساز پاکستان کے سامنے ملک کا دستور جلدی سے جاری کرنے اور اسلامی اصولوں پر بنانے کے لیے ایک آٹھ نکاتی مطالبہ پیش کیااور اس کے لیے پورے ملک میں آئینی جدوجہد کاآغاز کردیا لیکن اس ماہ مئی کے آخرمیں جماعت احرار نے جس کو مسلم لیگ نے پنجاب اور بہاول پور کے انتخابات میں اپنا حامی اور مدد گار بنا کر از سر نو ملک کی پبلک لائف میں داخل ہونے کا موقع دے دیاتھا، قادیانی مسئلہ چھیڑ دیا۔
۵۔جماعت اسلامی کو اور خصوصاً ذاتی حیثیت سے مجھ کو قادیانی مسئلہ کی تاریخ کا پورا علم تھا۔ ہم یہ جانتے تھے کہ پچاس برس سے اس مسئلہ نے خصوصیت کے ساتھ پنجاب اور بہاولپور کے علاقوں میں مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان نہ صرف مذہبی حیثیت سے بلکہ معاشرتی اور معاشی حیثیت سے بھی اتنی تلخیاں پیدا کردی ہیں کہ اگر اس مسئلہ کو اس وقت چھیڑ دیا گیا اور احرار جیسے آتش بیان مقررین نے اس پر مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کردیاگیاتو دوسرے تمام ملکی مسائل حتیٰ کہ دستور اسلامی کے مسئلے تک سے مسلمانوں کی توجہ ہٹ جائے گی ،اس لیے جولائی ۱۹۵۲ء کے آغاز میں مَیں نے جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کا اجلاس لاہور میں بلایا اور مجلس شوریٰ نے اس معاملہ کے تمام پہلوئوں پر غور کرنے کے بعد ایک ریزولیوشن کی شکل میں ملک کے عوام سے یہ اپیل کی کہ وہ اس وقت اس مسئلہ کو ملتوی کرکے اپنی پوری توجہ اسلامی دستور بنوانے پر مرکوز کردیں اور یہ کہ جب اسلامی دستور بنے گا تو قادیانی مسئلہ آپ سے آپ حل ہوجائے گا۔
۶۔ لیکن اس وقت تک قادیانی مسئلہ پر عوام کا اشتعال اس حد تک بڑھ چکاتھا کہ جماعت اسلامی کی اس اپیل کا کوئی اثر نہ ہوسکا اور جولائی ۱۹۵۲ء کے تیسرے ہفتہ میں ملتان فائرنگ تک نوبت پہنچ گئی ۔
۷۔ اس حد تک حالات بگڑ جانے کے بعد میں نے اگست کے پہلے ہفتہ میں جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کے ان ارکان کو جو لاہور میں موجود تھے، جمع کیا اور پوری صورت حال کا جائزہ لے کر یہ رائے قائم کی کہ اگر قادیانی مسئلہ پر پنجاب اور بہاولپور کے مسلمانوں کے اشتعال کو آئینی جدوجہد کی طرف نہ موڑا گیا تو نہ صرف یہ کہ اسلامی دستور کے مسئلہ کو نقصان پہنچے گا بلکہ ملک کے اندر سخت بدامنی رونما ہوجائے گی۔ اس لیے ہم نے باہمی مشورے کے بعد قادیانی مسئلے کے متعلق مسلمانوں کی جدوجہد کو آئینی جدوجہد کی طرف موڑنے کا فیصلہ کیا اس موقع پر میں نے جو بیان دیا وہ اخبارتسنیم میں دیکھا جاسکتاہے۔ اس سے عدالت کو خود معلوم ہوجائے گا کہ یہ فیصلہ ہم نے کس بنا پر کیاتھا ۔
۸۔ اس سے میری اور میر ے رفقا کی غرض یہ تھی کہ قادیانی مسئلہ کو دستور کے مسئلہ کا ایک جزو بنا کر مسلمانوں کو یہ سمجھایا جائے کہ اگر ان نکات کے مطابق اسلامی دستور بنے تو قادیانی مسئلہ آپ سے آپ حل ہوجائے گا۔ اس لیے اس مسئلہ پر الگ کسی ایجی ٹیشن کی حاجت نہیں ہے اور وہ آئینی جدوجہد جو ہم دستور کے لیے کررہے ہیں ہمارے تمام مقاصد کے لیے کافی ہے ۔ چنانچہ ہمیں اپنی اس تدبیر میں پوری طرح کامیابی ہوئی اور اگست سے لے کر دسمبر ۱۹۵۲ء تک ملک کے مسلمان اس جدوجہد میں پوری طرح منہمک ہوگئے جو آئینی اور پُرامن طریقے پر دستور اسلامی کے لیے جاری تھی ۔ اس دوران اس قادیانی مسئلہ پر کوئی فساد انگیز ایجی ٹیشن ملک میں نہ ہوسکا۔
۹۔ اس کے ساتھ ہی میں نے یہ محسوس کیا کہ حکومت پاکستان اور کانسی ٹیوٹ اسمبلی کے ارکان قادیانی مسئلہ کی اہمیت اور نزاکت سے بالکل ناواقف ہیں اور وہ اس کو محض ایک دینیاتی جھگڑا (theological controversy) اور فرقہ وارانہ نزاع (sectarian dispute) سمجھ رہے ہیں اور اس پر یا تو اسے حقارت سے نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا دفعہ ۱۴۴وغیرہ لگا کر طاقت سے دبا دینا چاہتے ہیں۔ اس لیے میں نے جولائی ۱۹۵۲ء سے مسلسل ایسے مضمون لکھنے شروع کیے جن میں حکام پاکستان اور ارکان دستور ساز اسمبلی کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ اس مسئلہ کی تاریخ کیاہے اور اس کے معاشرتی اور معاشی پہلو کیا ہیں اور یہ کہ اس مسئلہ کو سمجھ کر ٹھیک طریقے سے حل کردینا کتنا ضروری ہے۔اس کے لیے میں نے رسالہ ترجمان القرآن جون/ جولائی ۱۹۵۲ء کے مشترکہ نمبر میں ایک مفصل مضمون لکھا۔ اگست کے آغاز میں روزنامہ تسنیم میں ایک مفصل بیان دیا۔ پھر دستور ساز اسمبلی کی توجہ کے لیے ایک مضمون اگست ۱۹۵۲ء کے ترجمان القرآن میں لکھا جس میں دوسرے دستوری مسائل کے ساتھ قادیانی مسئلہ کو صحیح طور پر حل کرنے کی صورت مختصر دلائل کے ساتھ پیش کی ، لیکن افسوس ہے کہ میری ان ساری کوششوں کے باوجود اس مسئلہ کو حل کرنے کی طرف کوئی توجہ نہ کی گئی اور دسمبر ۱۹۵۲ء میں جو بی ۔ پی ۔ سی رپورٹ شائع ہوئی اس میں قادیانی مسئلہ کو بالکل نظر انداز کردیا گیا۔
۱۰۔ اس غلطی کی وجہ سے پنجاب اور بہاولپور کے عوام میں جن قادیانی مسئلہ کی پیدا کردہ معاشرتی پیچیدگیوں سے سب سے زیادہ سابقہ پیش آرہاتھا ، پھر ایک بے چینی پیدا ہوگئی۔ اور ان لوگوں کو جو اس مسئلہ پر ایجی ٹیشن برپا کرناچاہتے تھے، از سر نو اپنا کام کرنے کا موقع مل گیا۔
۱۱۔ جنوری ۱۹۵۳ء کے دوسرے ہفتہ میں کراچی میں پاکستان کے ۳۳ سربرآوردہ علمائ کی ایک کانفرنس بی ۔ پی ۔ سی رپورٹ پر غور کرنے کے لیے منعقد ہوئی جس کے اجلاس ۱۰ سے ۱۹/جنوری تک مسلسل ہوتے رہے ۔ علما کی اس کانفرنس میں مَیں بھی شریک تھا۔ کانفرنس میں بی۔ پی۔ سی رپورٹ کی تجاویز پر اپنی ترمیمات اور اصلاحات تفصیل کے ساتھ مرتب کی گئیں جن میں ایک تجویز قادیانی مسئلہ کو حل کرنے کے لیے بھی شامل کی گئی تھی اور مجلس دستور ساز پاکستان کو مختصر طور پر یہ بھی بتایا گیاتھا کہ اس مسئلہ کی نزاکت کس نوعیت کی ہے اور اس کو آئینی طریقے پر حل کرنا کتنا ضروری ہے۔
۱۲۔ اس زمانے میں احرار اور جمعیت علما پاکستان کی دعوت پر کراچی میں ایک کنونشن منعقد ہوا جس کے اجلاس ۱۵/اور ۱۷/جنوری ۱۹۵۳ء کو ہوئے۔ دوسرے علما کے ساتھ میں بھی کنونشن میں شریک ہوا۔ کنونشن کے پہلے اجلاس میں ایک سبجیکٹس کمیٹی بنائی گئی جس کا ایک رکن میں بھی تھا۔ ۱۶/جنوری ۱۹۵۳ء کی رات کو اس سبجیکٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا اور میں نے کافی بحث کے بعد کمیٹی سے یہ بات تسلیم کرائی کہ علمائ کی کانفرنس نے جب قادیانی مسئلہ کے حل کو بھی بی۔ پی۔ سی رپورٹ کی اصلاح کے متعلق اپنی تجاویز میں شامل کرلیا ہے تو اس مسئلہ پر کسی الگ جدوجہد کی ضرورت نہیں ہے بلکہ علمائ کی ان تجاویز ہی کو آئینی جدوجہد کے ذریعے سے تسلیم کرانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن جب ۱۷/جنوری کو کنونشن کا اجلاس منعقد ہوا تو سبجیکٹس کمیٹی کی طے کردہ تجویز کو نا منظور کردیا گیا اور کنونشن کے ارکان کی اکثریت نے یہ پاس کردیا کہ قادیانی مسئلے پر الگ ہی جدوجہد کی جائے۔ اس کے بعد میں نے دوسری تجویز پیش کی کہ اس مسئلہ کے لیے جوجدوجہد بھی کی جائے ایک مرکزی مجلس عمل کی قیادت میں ہونی چاہیے اور کسی دوسرے شخص یا گروہ کو اس کے متعلق کوئی پروگرام بنانے یا نافذ کرنے کا حق نہ ہونا چاہیے۔ میری اس تجویز کو کنونشن میں منظور کرلیا گیا اور ایک مرکزی مجلس عمل بنادی گئی جس کا ایک رکن میں بھی تھا۔
۱۳۔اس مرکزی مجلس عمل کا کوئی اجلاس جب سے وہ بنائی گئی ۲۶جنوری تک نہیں ہوا۔ ۲۳فروری کو جو وفد وزیراعظم پاکستان سے ملا اور جس نے قادیانیوں کے متعلق چند مطالبات ان کے سامنے پیش کیے اور ان کو ان مطالبات کے تسلیم کرنے کے لیے ایک مہینے کی مہلت دیتے ہوئے ڈائریکٹ ایکشن کانوٹس دیا وہ ایک غیر مجاز (un-authorised) وفد تھا جسے نہ کنونشن نے بنایا تھا اور نہ مرکزی مجلس عمل نے، اور نہ اس کو ایسا کوئی نوٹس دینے کا کسی نے مجاز کیاتھا۔ میں نے اس بے ضابطہ کارروائی پر سخت اعتراض کیا اور۱۳فروری کو پنجاب کی کونسل آف ایکشن کا جو اجلاس لاہور میں منعقد ہوا ، اس میں میری طرف سے ملک نصراللہ خان صاحب عزیز نے جا کر تحریری صورت میں اس امر پر احتجاج کیا کہ ڈائریکٹ ایکشن کے سلسلے میں جو پروگرام بنایا اور نافذ کیاجارہاہے وہ بالکل خلافِ ضابطہ ہے نیز انھوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ مرکزی مجلس عمل کا اجلاس فوراً منعقد کیا جائے جس میں اس مسئلہ پر غور کیا جائے۔ چنانچہ مرکزی مجلس عمل کا اجلاس منعقد کرنے کے لیے ۱۷/فروری کی تاریخ مقرر کی گئی ۔
۱۴۔۱۷/فروری کے اجلاس کی شرکت کے لیے میں نے ملک نصراللہ خان صاحب عزیز اور میاں طفیل محمد صاحب سیکرٹری جماعت اسلامی کو اپنی طرف سے مقرر کیااور اپنے تمام اعتراضات جو اس وقت تک کی کارروائی پر مجھے تھے، تحریری شکل میں ان کے ذریعے سے بھیجے لیکن اس میٹنگ میں جا کر ان دونوں حضرات کو معلوم ہواکہ یہ مرکزی مجلس عمل کا اجلاس نہیں ہے تاہم میرے اعتراضات کو ان دونوں حضرات نے احرار اور جمعیت علما پاکستان کے ان لیڈروں تک پہنچادیا جو اس وقت ڈائریکٹ ایکشن کی تیاریاں کررہے تھے نیز ان کو مطلع کردیا کہ جب تک مرکزی مجلس عمل طے نہ کرے، آپ کوئی ڈائریکٹ ایکشن کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔
۱۵۔۱۸/۱۹/ فروری کے تسنیم میں میرے ایما پر جماعت اسلامی کے سیکرٹری میاں طفیل محمد نے یہ اعلان شائع کیا کہ ڈائریکٹ ایکشن کے لیے پنجاب کونسل آف ایکشن کی طرف سے جن حلف ناموں پر لوگوں سے دستخط کرائے جا رہے ہیں، جماعت اسلامی کے ارکان ان پر دستخط نہ کریںاور یہ کہ کسی پروگرام کو اس وقت تک تسلیم نہ کیا جائے جب تک کہ وہ مرکزی مجلس عمل کی طرف سے نہ ہو۔
۱۶۔۲۲ / فروری کو مجھے مرکزی مجلس عمل کے اجلاس کے لیے جو ۲۶/فروری کو کراچی میں منعقد ہو رہاتھا، دعوت نامہ وصول ہوا۔ میں نے اس اجلاس میں شرکت کے لیے سلطان احمد صاحب امیرجماعت اسلامی حلقہ سندھ و کراچی کو مقرر کیااور تحریری شکل میں ان کو ہدایات بھیجیں کہ وہ ان تمام بے ضابطہ کارروائیوں پر اعتراض کریں جو ڈائریکٹ ایکشن کے سلسلہ میں کی گئی تھیں اور قطعی طور پر مطالبہ کریں کہ اس پورے پروگرام کو منسوخ کیا جائے جو ڈائریکٹ ایکشن کے سلسلے میں بالکل خلافِ ضابطہ بنایا گیاہے نیز اس تحریرمیں میں نے ان کو یہ ہدایات بھی کی تھیں کہ اگر مرکزی مجلس عمل کے ارکان اس بات کو نہ مانیں تو وہ اس مجلس سے جماعت اسلامی کی لا تعلقی کا اعلان کردیں ۔ میری اس ہدایت کے مطابق سلطان احمد صاحب اس اجلاس میں شریک ہوئے لیکن جو لوگ ڈائریکٹ ایکشن پر تلے ہوئے تھے انھوںنے مرکزی مجلس عمل کو توڑ کر ایک ڈائریکٹ ایکشن کمیٹی بنالی جس کا نہ میں رکن تھا اورنہ جماعت اسلامی کا کوئی دوسرا آدمی ۔ اور اس کمیٹی نے ۲۷فروری کو ڈائریکٹ ایکشن شروع کرنے کا اعلان کیا۔
۱۷۔ اس دوران میں مَیں نے یہ دیکھ کر کہ ایک طرف کچھ لوگ قادیانی مسئلہ کو حل کرانے کے لیے حکومت پر ڈائریکٹ ایکشن کے ذریعے دبائو ڈالنے پر تلے ہوئے ہیں اور انھوںنے عوام کو شدت کے ساتھ مشتعل کردیا ہے اور دوسری طرف حکومت نہ پبلک کے مطالبہ کو منظور کرتی ہے اور نہ ہی اس کو رد کرنے کی وجہ بتاتی ہے اور نہ پبلک کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی کوشش کرتی ہے۔ یہ محسوس کیا کہ اس صورت حال میں سخت ناگوار واقعات پیش آجانے کا ہر وقت امکان ہے اور میرا یہ فرض ہے کہ ملک کے معاملات کو چلانے کی ذمہ داری جن لوگوں پر ہے ان کو خصوصیت کے ساتھ اور ملک کے تمام سوچنے سمجھنے والے لوگوں کو بالعموم قادیانی مسئلہ کی اہمیت اور نزاکت اور اس کے حل کرنے کی ضرورت سمجھانے کے لیے ایک آخری کوشش کروں ۔ چنانچہ اسی غرض کے لیے میں نے ۲۰ فروری کو وہ مضمون لکھنا شروع کیا جو بعد میں ’’قادیانی مسئلہ ‘‘ کے نام سے پمفلٹ کی شکل میں شائع ہوا۔ میری یہ کوشش ان کوششوں کے سلسلے کی ایک کڑی تھی جن کا میں نے اوپر نمبر۹ میں ذکر کیاہے ۔ اس کے لکھنے سے میرا مقصد جو کچھ تھا وہ میں نے اُردو اور انگریزی ایڈیشنوں کے دیباچوں میں واضح طور پر بیان کردیا ہے ، اور معزز عدالت خود اس پمفلٹ کو پڑھ کرد یکھ سکتی ہے کہ اس کے الفاظ ، مضامین ، دلائل اور عام لہجے سے آیا مختلف فرقوں کے درمیان نفرت اور عداوت پھیلانے کی نیت ظاہر ہوتی ہے یا مسئلہ کو دلائل اور حقائق سے سمجھانے اور سلجھانے کی نیت ۔ میں یہ بات بھی واضح کردینا چاہتاہوں کہ اس پمفلٹ کی تصنیف اس وقت شروع کی گئی تھی جب طوفان برپا نہیں ہواتھا ۔ بلکہ طوفان اٹھنے کے آثار نظر آ رہے تھے اور اس کو میں نے ختم کرکے اشاعت کے لیے سید نقی علی صاحب ملزم نمبر۴ کے حوالے اس وقت کیا جب کہ ڈائریکٹ ایکشن کے سلسلے میں مظاہرے تو شروع ہوگئے تھے مگر کسی قسم کی بدامنی رونما نہیں ہوئی تھی ۔ استغاثہ کے گواہ محمد صدیق کاتب کی بھی یہ شہادت موجود ہے کہ ان کو فروری کے آخری ہفتے میں یہ پمفلٹ کتابت کے لیے ملاہے۔ اس کے ساتھ میں یہ بات بھی معزز عدالت کے نوٹس میں لانا چاہتاہوں کہ اس کا پہلا ایڈیشن ۵مارچ کو پریس سے نکلا اور جلدی سے جلدی اس کی کاپیاں پنجاب کے وزرا، پنجاب کے گورنر مسٹر چند ریگر ، وزیراعظم پاکستان خواجہ ناظم الدین صاحب کو پہنچانے کی کوشش کی گئی ۔ اس کے بعد اس وقت سے لے کر ۲۳مارچ تک یہ پمفلٹ ۳۷ہزا ر لاہور میں اور بیس ہزار کراچی سے شائع ہوا۔اور ۲۶مارچ تک لاہور کے بازاروں میں علی الاعلان فروخت ہوتا رہا، جس کا مارشل لا کے حکام کو پورا علم تھا۔ اس دوران میں مارشل لا اتھارٹی کی طرف سے اس پمفلٹ کی اشاعت پر کسی قسم کا اعتراض نہ ہونے سے میں یہ سمجھاکہ مارشل لا اتھارٹیز بھی میری اس کوشش کو جو میں نے سنجیدگی کے ساتھ اس مسئلہ کو سمجھانے کے لیے کی ہے ، پسند کرتے ہیں ۔ پھر جب ۲۵مارچ کی رات کو میں نے ریڈیو پر چیف ایڈمنسٹریٹرمارشل لا کا آرڈر نمبر۴۸زیر ریگولیشن نمبر۸سنا ، جس میں خاص طور پر اس پمفلٹ کاکوئی ذکر نھیں تھا ، اس کے دوسرے ہی روز میں نے سید نقی علی صاحب ملزم نمبر ۴ کو اپنے حلقے کے سیکٹر کمانڈر کے پاس بھیجا کہ آیا اس پمفلٹ پر آرڈر نمبر۴۸ مذکورہ بالا کا اطلاق ہوتاہے یا نہیں۔ چنانچہ وہ ان کے پاس گئے اور وہاں ایک ذمہ دار افسر سے کہاکہ اگر اس پمفلٹ پر اس آرڈر کا اطلاق ہوتاہے تو اسی وقت ہم سارا اسٹاک لا کر آپ کے حوالے کردیتے ہیں ۔ افسر موصوف نے سیکٹر کمانڈر صاحب سے اس کے متعلق دریافت کرنے کے بعد یہ جواب دیا کہ وہ ان کو پڑھ کر کل یعنی ۲۸ مارچ کو ان کے متعلق اپنا فیصلہ دیں گے۔ لیکن قبل اس کے کہ ان کا فیصلہ ہمیں معلوم ہوتا ،۲۷اور ۲۸/مارچ کی درمیانی شب کو مجھے اور میرے دوسرے ساتھیوں کو مارشل لا کے احکام کے تحت گرفتار کرلیا گیا۔ تاہم جہاں تک مجھے معلوم ہے اس وقت تک بھی اس پمفلٹ کو ممنوع قرار نہیں دیا گیا جس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ اس چارج شیٹ کے مرتب ہونے تک یہ بات صاف نہیں ہوسکی تھی کہ یہ پمفلٹ آرڈر نمبر۴۸کے تحت آتاہے یا نہیں۔ حالانکہ اس دوران میں بعض دوسری چیزوں کو نام لے کر ممنوع قرار دیا گیاہے۔
۱۸۔۲۷/فروری کو جب کراچی میں ڈائریکٹ ایکشن شروع کرنے والوں کو گرفتار کیاگیا اور اس پر گورنمنٹ کی طرف سے ایک کمیونکے شائع کیا گیا تو اس بارے میں میری پوزیشن یہ تھی کہ مرکزی وزارت نے اس مسئلہ کو تدبر کے ساتھ حل کرنے کی بجائے جو طریق کار اختیار کیاہے وہ کئی وجوہ سے غلط ہے۔ میں اپنے نقطۂ نظر کی توضیح میں وہ وجوہ پیش کرتاہوں جن کی بناپر میں مرکزی وزارت کے اس فیصلے کو غلط سمجھتاہوں ،اور جن کی بنا پر میں ان کو غلط کہنے اور ان کی اصلاح کی کوشش کرنے کو اپنا حق اور فرض سمجھتاہوں۔
الف۔ میں اس ملک میں ایک نکتہ خیال رکھنے والی جماعت کا لیڈر ہوں اور مجھے پورا حق پہنچتاہے کہ میں برسراقتدار پارٹی کی پالیسیوں پر تنقید کروں حتیٰ کہ میں اس کی غلطیاں واضح کرکے پبلک سے یہ اپیل کرنے کا حق بھی رکھتاہوں کہ اس پارٹی کو اقتدار کے منصب سے ہٹادیا جائے ۔ مسلح بغاوت کے سوا ، میں برسراقتدار پارٹی کو اقتدار کی جگہ سے ہٹانے کی ہر کوشش کرنے کامجاز ہوں ۔ ایک پارٹی گورنمنٹ کو (sedition)کا وہ مفہوم لینے کا کوئی حق نہیں ہے جو ایک بادشاہی حکومت میں لیا جاتاہے۔
ب۔ قادیانی مسئلہ ۱۹۵۳ء سے مسلسل ملک میں بے چینی پیدا کیے ہوئے تھا ۔اس وقت سے لے کر ۲۷ فروری تک ، ۹ مہینوں کے دوران میں دلائل کے ساتھ بھی حکومت کو یہ بتایا جا چکاتھاکہ قادیانیوں کے بارے میں مسلمانوں کے مطالبات معقول ہیں۔ جلسوں اور رائے عام کا اظہار کرنے کے دوسرے تمام طریقوں سے بھی یہ ثابت ہوچکاتھاکہ قوم کی رائے عام ان مطالبات کی پشت پر ہے ، لیکن حکومت کی طرف سے کبھی یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ ان مطالبات کو تسلیم نہ کرنے کے لیے کیا وجوہ اور دلائل رکھتی ہے۔
ج۔ ایک جمہوری نظام میں سرکاری ملازموں کی بجائے پبلک لیڈروں کو وزارت بنانے کی دعوت اس لیے دی جاتی ہے کہ پبلک لیڈر عوام سے اور عوام ان سے براہ راست واقف ہوتے ہیں۔ ان کے لیے یہ ممکن ہوتاہے کہ وہ حکومت کی تجاویز اور اس کے کاموں میں پبلک کی رضا مندی کو شامل کرکے حکومت اور پبلک کے درمیان بدگمانی، مخالفت اور تصادم پیدا ہونے کے امکانات رونمانہ ہونے دیں ۔ لیکن اس مسئلہ میں ان پبلک لیڈروں نے جو مرکزی وزارت کے ارکان تھے، اپنے رویہ کے متعلق پبلک کو مطمئن کرنے کی قطعاً کوئی کوشش نہیں کی جس کی وجہ سے معاملات اس حد تک بگڑ گئے کہ کچھ لوگ پبلک کو ڈائریکٹ ایکشن جیسے غیر آئینی طریقے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
د۔ میرے نزدیک مرکزی وزرا کے لیے صحیح طریقہ کار یہ تھاکہ یا تو وہ ان مطالبات کو جو دلائل اور رائے عام کی تائید کے ساتھ پیش کیے جارہے تھے تسلیم کرلیتے یا اگر ان کے نزدیک یہ مطالبات غلط تھے تو وہ پبلک پلیٹ فارم پر آتے اور اپنی قوم کے عوام کو یہ بتاتے کہ ان کے مطالبات میں کیاغلطی ہے ، ان کی قوم بہرحال اتنی سرپھری نہ تھی کہ اگر اس کو مدلل طریقے سے ان مطالبات کی غلطی سمجھائی جاتی تووہ پھر ان مطالبات پر اڑ جاتی اور خواہ مخواہ اپنی حکومت سے لڑ جاتی ہے۔
و۔ ایک قومی حکومت میں جو جمہوری حکومت ہونے کی بھی مدعی ہو ، پبلک کے پیش کیے ہوئے مطالبات کو بغیر کوئی وجہ بتائے رد کردینا قدرتی طور پر عام ناراضی پیدا کرنے کا موجب ہوتاہے اور پھر جب عوام یہ سنتے ہیںکہ ان کے مطالبات کو صرف رد کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا جارہا ہے بلکہ ان کو یہ بھی دھمکی دی جارہی ہے کہ اگر تم اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے کوئی ایجی ٹیشن کرو گے تو تمہارے ایجی ٹیشن کو سختی کے ساتھ دبا دیا جائے گا تو یہ چیز عوام میں قدرتی طور پر ایک غصہ پیدا کرتی ہے ۔ کیونکہ عوام اپنی قومی حکومت میں اپنے ہی منتخب کیے ہوئے نمائندوں سے اس قسم کے رویے کی ہرگز توقع نہیں رکھتے۔
یہ وجوہ تھے کہ جن کی بنا پر میرے نزدیک ۲۷فروری کو مرکزی وزارت نے کراچی میں ڈائریکٹ ایکشن کمیٹی کے ارکان کو گرفتارکرتے وقت جو کمیونکے شائع کیا وہ نہایت غیرمدبرانہ تھا۔ میرے نزدیک اگر ان لوگوں کو گرفتار کرنے کے ساتھ یہ اعلان کیا جاتاکہ حکومت جلدی سے جلدی ایک گول میز کانفرنس کرے گی جس میں اس مسئلہ سے تعلق رکھنے والے حلقوں کے ذمہ دارنمائندوں کو بلایا جائے گا اور گفت و شنید کے ذریعے اس کو حل کیا جائے گا، تو دائریکٹ ایکشن کی تحریک ملک میں ایک لمحے کے لیے بھی نہ چل سکتی اور وہ بدامنی ہرگز رونما نہ ہوتی جو بعد میں رونما ہوئی ۔
۱۹۔اس کے بعد جب پنجاب کے مختلف حصوں میں ڈائریکٹ ایکشن کا طوفان برپا ہوا اور اس سلسلے میں لاہور میں سخت بدامنی رونما ہونی شروع ہوئی تو میں نے وزیراعظم پاکستان کو ۴/مارچ کی رات کو اور ۵/مارچ کی صبح کو ، پے در پے دو تاردیے جن میں ان سے ملاقات اور گفتگو کی درخواست کی گئی تھی مگر مجھے ان کا جواب نہ دیاگیا۔ ۵ مارچ کو ۳ بجے گورنر پنجاب نے ایک کانفرنس کی جس میں مجھے بھی دعوت دی گئی ۔ میں نے اس کانفرنس میں یہ بات پیش کی کہ اتنی سخت بدامنی رونما ہونے کی اصل وجہ پبلک کے مطالبات کو بلا دلیل اور بلاوجہ رد کردیناہے ۔ اب حکومت کے سامنے دو راستے ہیں۔ ایک راستہ یہ ہے کہ پبلک کو مطمئن کرکے امن قائم کیاجائے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ آج ہی وزیراعظم پاکستان کی طرف سے اعلان کیا جائے کہ حکومت پبلک کے مطالبات پر گفت و شنید کرنے کے لیے تیار ہے۔ میں یقین دلاتاہوں کہ یہ اعلان اگر آج رات کو کیاجائے تو کل ہی امن قائم کیاجاسکے گا اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ پوری طاقت کے ساتھ پبلک کے ایجی ٹیشن کو کچل ڈالا جائے۔ اب اگر حکومت پہلی صورت کو پسند کرتی ہے تو اس صورت میں ،میں بھی ہر خدمت کے لیے حاضر ہوں اور دوسرے پبلک لیڈرز بھی اس سلسلے میں کوشش کرسکتے ہیں لیکن اگر دوسرا راستہ ہی پسند ہے تو پھر پبلک لیڈروں کو کسی کانفرنس میں بلانے کی حاجت نہیں۔ آپ کے پاس پولیس اور فوج کافی تعداد میں موجود ہے ۔ بلائیے اور اپنی قوم کو دبادیجیے ۔ میری اس بات سے گورنر پنجاب نے متاثر ہو کر اس طریقے کو پسند کیا کہ پبلک کو مطمئن کرکے امن قائم کیا جائے ۔ انھوںنے مجھ سے اس سلسلے میں یہ خواہش ظاہر کی کہ میں اس کے لیے ایک باقاعدہ تجویز مرتب کرکے پیش کروں ۔ میں نے ایک تجویز اسی وقت لکھ کر پیش کی جسے گورنر صاحب نے پسند فرمایا۔ پھر انھوںنے مجھ سے فرمائش کہ میں اس اعلان کا مسودہ تیار کروں جو وزیراعظم پاکستان کی طرف سے اس سلسلے میں شائع ہونا چاہیے۔ میں نے اس کا مسودہ تیار کیا ۔ خلیفہ شجاع الدین صاحب سپیکر پنجاب اسمبلی ، علامہ علائو الدین صدیقی صاحب ، گورنر مسٹر چندریگر نے میرے تیار کیے ہوئے مسودے پر غور کرکے اور اس میں ترمیم و اصلاح کرکے اس کو آخری صورت دی ۔ اس کاخلاصہ یہ تھاکہ ایک طرف پبلک سے یہ اپیل کی گئی تھی کہ وہ ڈائریکٹ ایکشن بند کردے اور بالکل پُرامن رویہ اختیار کرے اور دوسری طرف یہ وعدہ کیاگیاتھاکہ جلدی سے جلدی عوام کے معتمد علیہ نمائندے بلا کر ان سے اس مسئلہ پر گفتگو کی جائے گی اور اس گفتگو کا جو کچھ بھی نتیجہ ہوگا وہ حکومت اور عوام کے نمائندوں کے نقطۂ نظر کی وضاحت کے ساتھ شائع کیا جائے گا۔ میرے اور گورنر صاحب کے درمیان یہ بات طے ہوگئی تھی کہ اس رات کو (یعنی ۵اور ۶کی درمیانی شب کو ) یہ اعلان ریڈیو پر نشر کردیا جائے گا۔ لیکن گورنمنٹ ہائوس سے گھر پہنچ کر جب میں نے ریڈیو کھولا تو میں نے گورنر صاحب کی طرف سے ایک دوسرے ہی مضمون کااعلان سنا جس میں امن کی اپیل تو تھی لیکن پبلک مطالبات پر گفتگو کادروازہ کھولنے کے متعلق کوئی وعدہ نہ تھا۔
۲۰۔پنجاب اور خصوصاً لاہور کے حالات بگڑتے دیکھ کر میں نے جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کو بذریعہ تار لاہور طلب کیا اور ۴/۵ مارچ کو جماعت اسلامی کے مرکزی دفتر میں مجلس شوریٰ کے اجلاس ہوئے ۔ ان اجلاسوں میں پوری صورت حال کاجائزہ لے کر جو ریزولیوشن پاس کیا گیا وہ ۶ مارچ کی صبح کو اخبار تسنیم میں شائع ہوا۔ اس ریزولیوشن کے تین اجزا تھے ۔ اس کے پہلے جز میں ہم نے ان غلطیوں کووضاحت کے ساتھ بیان کیا جو قادیانی مسئلہ کے سلسلہ میں حکومت نے کی تھیں ۔ اس کے دوسرے جزمیں ہم نے ان غلطیوں کو بیان کیاجو اس سلسلے میں ڈائریکٹ ایکشن کی تحریک کے لیڈروں نے کی تھیں اور اس کے تیسرے حصے میں ہم نے یہ بتانے کے بعد کہ ڈائریکٹ ایکشن سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے، ہم نے یہ بات واضح کی تھی کہ قادیانیوں کے متعلق پبلک کے اصل مطالبہ کو ہم صحیح سمجھتے ہیں اور اس کو منوانے کے لیے ہم اپنے اصولوں کے مطابق مؤثر تدابیر اختیار کریں گے۔ ان ریزولیوشن میں ہم نے اپنے ’’اصولوں ‘‘ کی اس لیے کوئی تشریح نہیں کی کہ وہ ہمارے دستور کی ایک دفعہ میں درج ہیں جیساکہ میں اپنے بیان کے پیرا نمبر ۱ میں بیان کرچکاہوں۔
۲۱۔ میں اپنی صفائی میں چند اہم گواہوں کو طلب کرناچاہتاتھا جس میں گورنر جنرل پاکستان مسٹر غلام محمد صاحب اور سابقہ گورنر مسٹر چندریگر بھی شامل ہیں۔ لیکن چونکہ عدالت کامنشا اس مقدمہ کو جلدی سے جلدی ختم کرنے کا ہے، اس لیے میں مجبوراً ان کوترک کررہاہوں۔
ابوالاعلیٰ ۔۷مئی ۱۹۵۳ء