اس عظیم احتجاج اور مطالبہ رہائی پر اب سرکاری حلقوں کی طرف سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ آخر کوئی بات تو تھی جو ملٹری کورٹ نے مودودی صاحب کو اتنی سخت سزا دی ۔ اس بات میںاس وقت تو کوئی وزن ہوسکتاتھا جب یا تو مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ پر کسی سول عدالت میں مقدمہ چلایا گیا ہوتا یا فوجی عدالت کے فیصلہ کے خلاف ملک کی عدالت عالیہ میں اپیل کرنے کا حق باقی رہنے دیا جاتا۔ قانون میں اپیل کی گنجائش اسی تصور کے تحت ہی تو رکھی جاتی ہے کہ ایک عدالت کا فیصلہ غلط بھی ہوسکتاہے اور یہ کسی عدالت سے مجرم قرار دئیے جانے کے باوجود بھی ایک شخص بے گناہ ہوسکتاہے ، مگر بحالت موجودہ اس استدلال کی روشنی میں تو گویا ایک عدالت کے فیصلہ کے خلاف دوسری عدالت میں اپیل کرسکنے کی گنجائش ہی بے معنی ہے کیونکہ ہر عدالتی فیصلہ کے بارے میں یہ کہاجاسکتاہے کہ آخر کوئی بات تو ہوگی جو عدالت نے مجرم کو سزا دی ۔
ساتھ ہی یہ بات بھی لوگوں کے کان میں پھونکی جارہی ہے کہ باقاعدہ عدالتی کارروائی کے نتیجہ میں سزا یافتہ شخص کو بے گناہ سمجھنا اور اس کے لیے احتجاج کرنا کیا معنی رکھتاہے؟ لیکن ہم جواباً یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ پبلک میں ملک کی عام عدالتوں کے سزا یافتہ افراد میں سے کسی ایک کی بھی سزا کے خلاف آج تک ایسا احتجاج ہواہے؟ یہی نہیں بلکہ قادیانی تحریک کے پورے عرصہ میں کسی ایک شخص کی سزا یابی پر بھی ایسی ہل چل مچی ہے ؟ آخر کوئی وجہ تو ہے کہ عوام اس ’’باقاعدہ کارروائی ‘‘ پر مطمئن نہیں اور پبلک کو مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی بے گناہی پر یقین بھی ہے اور اصرار بھی ۔
تاہم اگر حکومت کی نیک نیتی کالوگوں کو یقین ہی دلانامقصودہے تواس کابہترین ثبوت اس طرح دیاجاسکتا تھا کہ ان افراد کوچھوڑکرجن پرکسی نہ کسی قسم کے متعین الزامات عائدکرکے مقدمات چلائے گئے ،جماعت اسلامی کے بقیہ نظر بندوں کو،جن پرآج تک کوئی جرم ثابت نہیں کیاگیا، فی الفوررہاکردیاجاتا۔ نیزدفترجماعت کاریکارڈ، رجسٹر، کاغذات اوربیت المال کاروپیہ سیدھی طرح واپس کردیاجاتا۔لیکن ان میں سے کوئی کام بھی نہیں ہوا،اس لیے اگر حکومت کے خلاف عوام میں یہ رائے پائی جائے کہ یہ سب سیاسی اختلافات کاانتقام لیاجارہاہے تواس بدگمانی کے پیداکرنے کی ذمہ داری خودکارپر دازان حکومت ہی پرعائدہوتی ہے ۔