۵ مئی ۱۹۵۳ء کو گورنر جنرل پاکستان واپس کراچی تشریف لے آئے اور ۹ مئی کو ان کی طرف سے ایک آرڈی ننس جاری ہوا جس کی رو سے فوجی عدالتوں کو اس بات کا قانونی طور پر مجاز قرار دیا گیاتھا کہ وہ مارشل لا کے نفاذ سے قبل سرزد ہونے والے جرائم کی بھی سماعت کرسکتی ہیں اور یہ کہ ایسی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف ملک کی کسی عدالت میں اپیل نہیں ہوسکتی سوائے اس کے کہ مرکزی حکومت ہی ان پر نظرثانی کرے ۔ ۹ مئی کو مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے مقدمہ کی کارروائی ختم ہوگئی …اور ۱۱ مئی ۱۹۵۳ء کی رات کو مولانا ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ کو سزائے موت کا حکم سنادیا گیا جسے بعد میں چودہ سال قید بامشقت میں تبدیل کردیا گیا۔
اس سزاپر پبلک کسی طرح مطمئن نہیں ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ نہ ’’قادیانی مسئلہ ‘‘ پر قلم اٹھانا کوئی جرم تھا اور نہ پارٹی حکومت پر تنقید کرنا۔ ان کا خیال ہے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کو حقیقت میں اسلامی نظام کے مطالبہ کی ہی سزا مل رہی ہے ۔ اس لیے مسلمان اس کو صریح ظلم قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف مختلف طریقوں سے اپنے رنج و اضطراب اور ناراضگی کا اظہار کررہے ہیں اور پاکستان اور عالم اسلام سے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی فوری رہائی کے لیے برابر مطالبہ ہو رہاہے۔