جماعت اسلامی یا اس کے رہنما مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ سے اختلاف کرنے، ان پر اعتراضات کرنے ، حتیٰ کہ ان کی عملی مخالفت کرنے کا بھی ہر شخص کو پورا پورا حق حاصل ہے، لیکن شرافت ، جمہوریت اور مردانگی کاتقاضایہ ہے کہ بدترین مخالفت بھی کھل کر کی جائے، سچائی اور دیانت کے ساتھ کی جائے اور مقابلہ علی الاعلان میدان میں آکر کیا جائے، اس کے بجائے پس پردہ رہ کر جھوٹے اعتراضات پیش کرنا، بے بنیاد الزامات لگانا اور غیر شریفانہ پروپیگنڈا کرنا، قومی اخلاق و کردار کے لیے تو تباہ کن ہے ہی لیکن یہ مخالفین کے اپنے کردار کی پستی،اخلاق کی بے حیائی اور ان کے موقف کی کمزوری کو بھی خود ہی نمایاں کردیتاہے۔
کسی کو یہ بات پسند ہو یا ناپسند ، بہرحال یہ حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی اس ملک کی ایک نہایت منظم بااثر اور فعال جماعت ہے۔ پاکستان کی سیاست میں وہ بحیثیت حزب اختلاف کے، اپنا ایک خاص مقام اور درجہ رکھتی ہے اور ملک کی برسراقتدار پارٹی سے اصولی اختلاف رکھتے ہوئے اسے اس بات کا پورا حق حاصل ہے کہ وہ اس پارٹی کی حکومت کی پالیسیوں ، انتظامات اور تدابیر پر دلائل کے ساتھ تنقید کرکے اس کی کمزوریاں عوام کے سامنے لائے اور کھلے طور پر رائے عامہ کو ہموار کرکے ملکی عوام کی تائید و تعاون سے ملک کی حکمران پارٹی کو اس کے منصب سے آئینی طریقہ پر ہٹانے کی کوشش کرے۔