پاکستان کے سربرآور دہ علما نے دستوری سفارشات میں جو ترمیمات پیش کی ہیں ،ان میں سے ایک ترمیم یہ بھی ہے کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک اقلیت قرار دے کر پنجاب سے مرکزی اسمبلی میں ان کے لیے ایک نشست مخصوص کردی جائے اور دوسرے علاقوں کے قادیانیوں کو بھی اس نشست کے لیے کھڑے ہونے اور ووٹ کا حق دے دیا جائے۔ اس ترمیم کو علمائ نے ان الفاظ کے ساتھ پیش کیاہے۔
’’یہ ایک نہایت ضروری ترمیم ہے جسے ہم پورے اصرار کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ملک کے دستور سازوں کے لیے یہ بات کسی طرح موزوں نہیں ہے کہ وہ اپنے ملک کے حالات اور خصوصاً اجتماعی مسائل سے بے پرواہ ہو کر محض اپنے ذاتی نظریات کی بنا پر دستور بنانے لگیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ملک کے جن علاقوں میں قادیانیوں کی بڑی تعداد مسلمانوں کے ساتھ ملی جلی ہے وہاں اس قادیانی مسئلے نے کس قدر نازک صورت حال پیداکردی ہے۔ ان کو پچھلے دور کے حکمرانوں کی طرح نہیں ہونا چاہیے جنھوں نے ہندو مسلم مسئلہ کی نزاکت کو اس وقت محسوس ہونے ہی نہ دیا جب تک متحدہ ہندوستان کا گوشہ گوشہ دونوں قوموں کے فسادات سے خون آلود نہ ہوگیا۔ جو دستور ساز حضرات خود اس ملک کے رہنے والے ہیں، ان کی یہ غلطی بڑی افسوس ناک ہوگی کہ وہ جب تک پاکستان میں قادیانی مسلم تصادم کو آگ کی طرح بھڑکتے ہوئے نہ دیکھ لیں …اس وقت تک انہیں اس بات کا یقین نہ آئے کہ یہاں ایک قادیانی مسلم مسئلہ موجود ہے جسے حل کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ اس مسئلہ کو جس چیز نے نزاکت کی آخری حد تک پہنچادیا ہے وہ یہ ہے کہ قادیانی ایک طرف مسلمان بن کر مسلمانوں میں گھستے بھی ہیں اور دوسری طرف عقائد ، عبادات اور اجتماعی شیرازہ بندی میں مسلمانوں سے نہ صرف …الگ ہیں بلکہ ان کے خلاف صف آرا بھی ہیں اور مذہبی طور پر تمام مسلمانوں کو اعلانیہ کافر قرار دیتے ہیں۔ اس خرابی کاعلاج آج بھی یہی ہے اور پہلے بھی یہی تھا (جیساکہ علامہ اقبال مرحوم نے اب سے بیس برس پہلے فرمایاتھا ) کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک اقلیت قرار دے دیا جائے ۔