وہ صرف یہی نہیں کہتے کہ مسلمانوں سے ان کااختلاف محض مرزا صاحب کی نبوت کے معاملے میں ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا خدا ، ہمارا اسلام ، ہمارا قرآن ،ہماری نماز ، ہمارا روزہ ، غرض ہماری ہر چیز مسلمانوں سے الگ ہے۔ ۲۱/ اگست ۱۹۱۷ء کے الفضل میں خلیفہ صاحب کی ایک تقریر ’’طلبا کو نصائح ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی تھی جس میں انھوںنے اپنی جماعت کے طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے یہ بتایا تھاکہ احمدیوں اور غیر احمدیوں کے درمیان کیااختلاف ہے۔ اس میں وہ فرماتے ہیں :
’’ورنہ حضرت مسیح موعود نے تو فرمایا ہے کہ ان کا (یعنی مسلمانوں کا ) اسلام اور ہے اور ہمارا اور، ان کا خدا اور ہے اور ہمارا اور ،ہمارا حج اور ہے ان کا حج اور ، اسی طرح ان سے ہربات میں اختلاف ہے۔ ‘‘
۳۰ جولائی ۱۹۳۱ء کے الفضل میں خلیفہ صاحب کی ایک اور تقریر شائع ہوئی ہے جس میں وہ اس بحث کا ذکر کرتے ہیں جو مرزاغلام احمد صاحب کی زندگی میں اس مسئلے پر چھڑ گئی تھی کہ احمدیوں کو اپنا ایک مستقل مدرسہ دینیات قائم کرنا چاہیے یا نہیں۔ اس وقت ایک گروہ کی رائے یہ تھی کہ نہیں کرنا چاہیے اور ان کی دلیل یہ تھی کہ ’’ہم میں اور دوسرے مسلمانوںمیں چند مسائل کا اختلاف ہے ،ان مسائل کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حل کردیا ہے اور ان کے دلائل بتادئیے ہیں ، باقی باتیں دوسرے مدرسوں سے سیکھی جاسکتی ہیں۔ ‘‘ دوسرا گروہ اس کے برعکس رائے رکھتاتھا۔ اس دوران میں مرزا غلام احمد صاحب آگئے اور انھوںنے یہ ماجرا سن کر اپنا فیصلہ دیا۔ اس فیصلے کو خلیفہ صاحب ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں:
’’یہ غلط ہے کہ دوسرے لوگوں سے ہمارا اختلاف صرف وفات مسیح یا اور چند مسائل میں ہے۔ آپ نے فرمایااللہ تعالیٰ کی ذات ، رسول کریمﷺ، قرآن ، نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ غرض آپ نے تفصیل سے بتایا کہ ایک ایک چیز میں ان سے ہمیں اختلاف ہے۔ ‘‘