تمہید:
گذشتہ ماہ جنوری میں پاکستان کے ۳۳ سربرآوردہ علما نے تازہ دستوری سفارشات پر غور و خوض کرکے جو اصلاحات اور جوابی تجاویز مرتب کی ہیں، ان میں سے ایک اہم تجویز یہ بھی ہے کہ ان تمام لوگوں کو جو مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو اپنا مذہبی پیشوا مانتے ہیں۔ ایک جداگانہ اقلیت قرار دیا جائے اور ان کے لیے پنجاب سے مرکزی اسمبلی میں ایک نشست مخصوص کردی جائے۔ جہاں تک علمائ کی دوسری تجاویز کا تعلق ہے ۔ ان کی معقولیت تو اتنی واضح ہے کہ علمائ کے مخالفین کو بھی ان پر کچھ کہنے کی ہمت نہ ہوسکی اور اگر انھوں نے کچھ کہا بھی تو وہ جگر سوختہ کے دھوئیں سے زیادہ نہ تھا جس کا ملک کے پڑھے لکھے اور ذی فہم لوگوں کی نگاہ میں کوئی وزن نہیں ہوسکتا لیکن اس خاص تجویز کے بارے میں ہم محسوس کرتے ہیں کہ قادیانی مسئلے کا بہترین حل ہونے کے باوجود تعلیم یافتہ لوگوں کی ایک تعداد ابھی تک اس کی صحت ومعقولیت کی قائل نہیں ہوسکی ہے اور پنجاب و بہاولپور کے ماسوا دوسرے علاقوں ،خصوصاً بنگال میں ابھی عوام الناس بھی پوری طرح اس کا وزن محسوس نہیں کررہے ہیں۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ان صفحات میں بھی پوری وضاحت کے ساتھ وہ دلائل بیان کردیں جن کی بنا پر علمائ نے بالاتفاق یہ تجویز پیش کی ہے۔