تالیف قلب کے معنی ہیں: دل موہنا۔ اس حکم سے مقصود یہ ہے کہ جولوگ اسلام کی مخالفت میں سرگرم ہوں اور مال دے کر ان کے جوشِ عداوت کو ٹھنڈا کیا جاسکتا ہو، یا جو لوگ کفّار کے کیمپ میں ایسے ہوں کہ اگر مال سے انھیں توڑا جائے تو ٹوٹ کر مسلمانوں کے مددگار بن سکتے ہوں، یا جو لوگ نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہوں اور ان کی سابقہ عداوت یا ان کی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے اندیشہ ہو کہ اگر مال سے اُن کی استمالت] دلجوئی[ نہ کی گئی تو پھر کفر کی طرف پلٹ جائیں گے۔ ایسے لوگوں کو مستقل وظائف یا وقتی عطیے دے کر اسلام کا حامی و مددگار، یا مطیع و فرماں بردار، یا کم از کم بے ضرر دشمن بنا لیا جائے۔ اس مد پر غنائم اور دوسرے ذرائع آمدنی سے بھی مال خرچ کیا جاسکتا ہے، اور اگر ضرورت ہو تو زکوٰۃ کی مد سے بھی۔ اور ایسے لوگوں کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ فقیر و مسکین یا مسافر ہوں، تب ہی ان کی مدد زکوٰۃ سے کی جاسکتی ہے، بلکہ وہ مال دار اور رئیس ہونے پر بھی زکوٰۃ دیے جانے کے مستحق ہیں۔
یہ امر تو متفق علیہ ہے کہ نبی a کے زمانے میں بہت سے لوگوں کو تالیفِ قلب کے لیے وظیفے اور عطیے دیے جاتے تھے، لیکن اس امر میں اختلاف ہوگیا ہے کہ آیا آپؐ کے بعد بھی یہ مد باقی رہی یا نہیں۔ امام ابوحنیفہؒ اور ان کے اصحاب کی رائے یہ ہے کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے زمانے سے یہ مد ساقط ہوگئی ہے اور اب مؤلفۃ القلوب کو کچھ دینا جائز نہیں ہے۔ امام شافعی ؒ کی رائے یہ ہے کہ فاسق مسلمانوں کو تالیفِ قلب کے لیے زکوٰۃ کی مد سے دیا جاسکتا ہے مگر کفارکو نہیں۔ اور بعض دوسرے فقہا کے نزدیک مؤلفۃ القلوب کا حصہ اب بھی باقی ہے، اگر اس کی ضرورت ہو۔
حنفیہ کا استدلال اس واقعے سے ہے کہ نبی a کی رحلت کے بعد عُیَیْنَہ بن حِصْن اور اَقرَع بن حابِس حضرت ابوبکرؓ کے پاس آئے اور انھوںنے ایک زمین آپؓ سے طلب کی۔ آپؓ نے ان کو عطیے کا فرمان لکھ دیا۔ انھوں نے چاہا کہ مزید پختگی کے لیے دوسرے اعیانِ صحابہ بھی اس فرمان پر گواہیاں ثبت کر دیں۔ چنانچہ گواہیاں بھی ہوگئیں، مگر جب یہ لوگ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے پاس گواہی لینے گئے تو انھوں نے فرمان کو پڑھ کر اُسے اُن کی آنکھوں کے سامنے چاک کر دیا اور ان سے کہا کہ بے شک نبی aتم لوگوں کی تالیف ِ قلب کے لیے تمھیں دیا کرتے تھے، مگر وہ اسلام کی کمزوری کا زمانہ تھا۔ اب اللہ نے اسلام کو تم جیسے لوگوں سے بے نیاز کر دیا ہے۔ اس پر وہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس شکایت لے کر آئے اور آپ کو طعنہ بھی دیا کہ خلیفہ آپ ہیں یا عمرؓ؟ لیکن نہ تو حضرت ابوبکرؓ ہی نے اس پر کوئی نوٹس لیا اور نہ دوسرے صحابہ میں سے ہی کسی نے حضرت عمرؓ کی اس رائے سے اختلاف کیا۔ اس سے حنفیہ یہ دلیل لاتے ہیں کہ جب مسلمان کثیر التعداد ہوگئے اور ان کو یہ طاقت حاصل ہوگئی کہ اپنے بل بوتے پر کھڑے ہوسکیں تو وہ سبب باقی نہیں رہا جس کی وجہ سے ابتداء ً مؤلفۃ القلوب کا حصہ رکھا گیا تھا۔ اس لیے بہ اجماعِ صحابہ یہ حصہ ہمیشہ کے لیے ساقط ہوگیا۔
امام شافعی ؒ کا استدلال یہ ہے کہ تالیفِ قلب کے لیے کفار کو مال زکوٰۃ دینا نبیa کے فعل سے ثابت نہیں ہے۔ جتنے واقعات حدیث میں ہم کو ملتے ہیں ان سب سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضورؐ نے کفار کو تالیفِ قلب کے لیے جو کچھ دیا وہ مال غنیمت سے دیا نہ کہ مالِ زکوٰۃ سے۔
ہمارے نزدیک حق یہ ہے کہ مؤلفۃ القلوب کا حصہ قیامت تک کے لیے ساقط ہو جانے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ بلاشبہ حضرت عمرؓ نے جو کچھ کہا وہ بالکل صحیح تھا۔ اگر اسلامی حکومت تالیف قلب کے لیے مال صَرف کرنے کی ضرورت نہ سمجھتی ہو تو کسی نے اس پر فرض نہیں کیا ہے کہ ضرور ہی اس مد میں کچھ نہ کچھ صَرف کرے۔ لیکن اگر کسی وقت اس کی ضرورت محسوس ہو، تو اللہ نے اس کے لیے جو گنجائش رکھی ہے اسے باقی رہنا چاہیے۔ حضرت عمرؓ اور صحابہ کرامؓ کا اجماع جس امر پر ہوا تھا وہ صرف یہ تھا کہ ان کے زمانے میں جو حالات تھے ان میں تالیفِ قلب کے لیے کسی کو کچھ دینے کی وہ حضرات ضرورت محسوس نہ کرتے تھے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ صحابہؓ کے اجماع نے اس مد کو قیامت تک کے لیے ساقط کر دیا جو قرآن میں بعض اہم مصالحِ دینی کے لیے رکھی گئی تھی۔
رہی امام شافعی ؒ کی رائے تو وہ اس حد تک تو صحیح معلوم ہوتی ہے کہ جب حکومت کے پاس دوسری مدّات آمدنی سے کافی مال موجود ہو تو اسے تالیفِ قلب کی مد پر زکوٰۃ کا مال صَرف نہ کرنا چاہیے۔ لیکن جب زکوٰۃ کے مال سے اس کام میں مدد لینے کی ضرورت پیش آجائے تو پھر یہ تفریق کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ فاسقوں پر اسے صَرف کیا جائے اور کافروں پر نہ کیا جائے۔ اس لیے کہ قرآن میں مؤلفۃ القلوب کا جو حصہ رکھا گیا ہے وہ ان کے دعوائے ایمان کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ اس بنا پر ہے کہ اسلام کو اپنے مصالح کے لیے ان کی تالیفِ قلب مطلوب ہے اور وہ اس قسم کے لوگ ہیں کہ ان کی تالیف قلب صرف مال ہی کے ذریعے سے ہوسکتی ہے۔ یہ حاجت اور یہ صفت جہاں بھی متحقق ہو وہاں امامِ مسلمین بشرطِ ضرورت زکوٰۃ کا مال صَرف کرنے کا اَزرُوئے قرآن مجاز ہے۔ نبیa نے اگر اس مد سے کفار کو کچھ نہیں دیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپؐ کے پاس دوسری مدات کا مال موجود تھا، ورنہ اگر آپؐ کے نزدیک کفار پر اس مد کا مال صَرف کرنا جائز نہ ہوتا تو آپؐ اس کی تشریح فرماتے۔
(تفہیم القرآن، جلددوم محاشیہ نمبر ۶۴، ص ۲۰۶۔ ۲۰۷ )
***
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَo (الحجرات 15:49)
حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے، پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ وہی سچے لوگ ہیں۔