Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
دیباچہ طبع اوّل
دیباچہ طبع ہشتم
باب اوّل
مسلمان ہونے کے لیے علم کی ضرورت
مسلم اورکافر کا اصلی فرق
سوچنے کی باتیں
کلمۂ طیبہ کے معنی
کلمۂ طیّبہ اور کلمۂ خبیثہ
کلمۂ طیبہ پر ایمان لانے کا مقصد
باب دوم
مسلمان کسے کہتے ہیں؟
ایمان کی کسوٹی
اسلام کا اصلی معیار
خدا کی اطاعت کس لیے؟
دین اور شریعت
باب سوم
عبادت
نماز
نماز میں آپ کیا پڑھتے ہیں؟
نماز باجماعت
نمازیں بے اثر کیوں ہو گئیں؟
باب چہارم
ہر امت پر روزہ فرض کیا گیا
روزے کا اصل مقصد
باب پنجم
زکوٰۃ
زکوٰۃ کی حقیقت
اجتماعی زندگی میں زکوٰۃ کا مقام
انفاق فی سبیل اللہ کے احکام
زکوٰۃ کے خاص احکام
باب ششم
حج کا پس منظر
حج کی تاریخ
حج کے فائدے
حج کا عالمگیر اجتماع
باب ہفتم
جہاد
جہاد کی اہمیت
ضمیمہ ۱ ۱۔اَلْخُطْبَۃُ الْاُوْلٰی
۲۔اَلْخُطْبَۃُ الثَّانِیَۃُ
ضمیمہ ۲ (بسلسلہ حاشیہ صفحہ نمبر ۲۰۷)

خطبات

اسلام کو دل نشیں، مدلل اور جا مع انداز میں پیش کرنے کا جو ملکہ اور خداداد صلاحیت سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کو حاصل ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ آپ کی تصانیف و تالیفات کی ایک ایک سطر جیسی یقین آفریں اور ایمان افزا ہے، اس کا ہر پڑھالکھا شخص معترف و مدّاح ہے ۔ کتنے ہی بگڑے ہوئے افراد، جوان، بچے، مرد وعورت ان تحریروں سے متاثر ہو کر اپنے سینوں کو نورِ ایمان سے منور کر چکے ہیں۔ ان کتابوں کی بدولت تشکیک کے مارے ہوئے لاتعداد اشخاص ایمان و یقین کی بدولت سے مالا مال ہوئے ہیں اور کتنے ہی دہریت و الحاد کے علم بردار اسلام کے نقیب بنے ہیں۔ یوں تو اس ذہنی اور عملی انقلاب لانے میں مولانا محترم کی جملہ تصانیف ہی کو پیش کیا جا سکتا ہے لیکن ان میں سر فہرست یہ کتاب خطبات ہے۔ یہ کتاب دراصل مولانا کے ان خطبات کا مجموعہ ہے جو آپ نے دیہات کے عام لوگوں کے سامنے جمعے کے اجتماعات میں دیے۔ ان خطبات میں آپ نے اسلام کے بنیادی ارکان کو دل میں اُتر جانے والے دلائل کے ساتھ آسان انداز میں پیش کیا ہے اور کمال یہ ہے کہ اس کتاب کو عام وخاص،کم علم واعلیٰ تعلیم یافتہ،ہر ایک یکساں ذوق وشوق سے پڑھتا ہے اور اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے بنیادی ارکان کو سمجھنے کے لیے ہماری زبان ہی میں نہیں بلکہ دنیا کی دوسری بلند پایہ زبانوں میں بھی اس کتاب کی نظیر نہیں ملتی۔ علم و حقانیت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جو ان صفحات میں بند کردیا گیا ہے۔

عبادت

برادرانِ اسلام!پچھلے خطبے میں، میں نے آپ کو دین اور شریعت کا مطلب سمجھایا تھا۔ آج میں آپ کے سامنے ایک اور لفظ کی تشریح کروں گا جسے مسلمان عام طور پر بولتے ہیں، مگر بہت کم آدمی اس کا صحیح مطلب جانتے ہیں۔ یہ ’’عبادت‘‘ کا لفظ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب پاک میں بیان فرمایا ہے کہ:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ o (الذاریات 51:56)
یعنی میں نے جنّ اور انسان کو اس کے سوا اور کسی غرض کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ آپ کی پیدائش اور آپ کی زندگی کا مقصد اللہ کی عبادت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ عبادت کامطلب جاننا آپ کے لیے کس قدر ضروری ہے۔ اگر آپ اس کے صحیح معنی سے ناواقف ہوں گے، تو گویا اس مقصد ہی کو پورا نہ کر سکیں گے جس کے لیے آپ کو پیدا کیا گیا ہے، اور جو چیز اپنے مقصد کو پورا نہیں کرتی وہ ناکام ہوتی ہے۔ ڈاکٹر اگر مریض کواچھا نہ کر سکے تو کہتے ہیں کہ وہ علاج میں ناکام ہوا۔ کسان اگر فصل پیدا نہ کر سکے تو کہتے ہیں کہ وہ زراعت میں ناکام ہوا۔ اسی طرح اگر آپ اپنی زندگی کے اصل مقصد، یعنی ’’عبادت‘‘ کو پورا نہ کر سکے تو کہنا چاہیے کہ آپ کی ساری زندگی ہی ناکامیاب ہو گئی۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ آپ لوگ پورے غور کے ساتھ عبادت کا مطلب سنیں اور سمجھیں اور اسے اپنے دل میں جگہ دیں، کیوں کہ اسی پر آپ کی زندگی کے کامیاب یا ناکام ہونے کا انحصار ہے۔

عبادت کا مطلب
عبادت کا لفظ’’ عبد‘‘ سے نکلا ہے۔ عبد کے معنی، بندے اور غلام کے ہیں۔ اس لیے عبادت کے معنی، بندگی اور غلامی کے ہوئے۔ جو شخص کسی کا بندہ ہو، اگر وہ اس کی خدمت میں بندہ بن کر رہے اور اس کے ساتھ اس طرح پیش آئے جس طرح آقا کے ساتھ پیش آنا چاہیے تو یہ بندگی اور عبادت ہے۔ اس کے برعکس جو شخص کسی کا بندہ ہو، اور آقا سے تنخواہ بھی پوری پوری وصول کرتا ہو، مگر آقا کے حضور میں بندوں کا سا کام نہ کرے تو اسے نافرمانی اور سرکشی کہا جاتا ہے، بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں اسے نمک حرامی کہتے ہیں۔
اب غور کیجیے کہ آقا کے مقابلے میں بندوں کا سا طریقہ اختیار کرنے کی صورت کیا ہے؟
٭ بندے کا پہلا کام یہ ہے کہ آقا ہی کو آقا سمجھے اور یہ خیال کرے کہ جو میرا مالک ہے، جو مجھے رزق دیتا ہے، جو میری حفاظت اور نگہبانی کرتا ہے، اسی کی وفاداری مجھ پر فرض ہے، اس کے سوا اور کوئی اس کا مستحق نہیں کہ میں اس کی وفاداری کروں۔
٭ بندے کا دوسرا کام یہ ہے کہ ہر وقت آقا کی اطاعت کرے، اس کے حکم کو بجا لائے، کبھی اُس کی خدمت سے منہ نہ موڑے، اور آقا کی مرضی کے خلاف نہ خود اپنے دل سے کوئی بات کرے، نہ کسی دوسرے شخص کی بات مانے۔ غلام ہر وقت ہر حال میں غلام ہے۔ اسے یہ کہنے کا حق ہی نہیں کہ آقا کی فلاں بات مانوں گا اور فلاں بات نہ مانوں گا، یا اتنی دیر کے لیے میں آقا کا غلام ہوں اور باقی وقت میں اس کی غلامی سے آزاد ہوں۔
٭ بندے کا تیسرا کام یہ ہے کہ آقا کا ادب اور اس کی تعظیم کرے۔ جو طریقہ ادب اور تعظیم کرنے کا آقا نے مقرر کیا ہو، اس کی پیروی کرے۔ جو وقت سلامی کے لیے حاضر ہونے کا آقا نے مقرر کیا ہو، اس وقت ضرور حاضر ہو، اور اس بات کا ثبوت دے کہ میں اس کی وفاداری اور اطاعت میں ثابت قدم ہوں۔
بس یہی تین چیزیں ہیں جن سے مل کر عبادت بنتی ہے:
٭ ایک آقا کی وفاداری،
٭ دوسرے آقا کی اطاعت،
٭ تیسرے اس کا ادب اور اس کی تعظیم۔
اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ o (الذاریات51:56) تو اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنّ اور انس کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف اللہ کے وفادار ہوں، اس کے خلاف کسی اور کے وفادار نہ ہوں۔ صرف اللہ کے احکام کی اطاعت کریں۔ اس کے خلاف کسی اور کا حکم نہ مانیں، اور صرف اس کے آگے ادب اور تعظیم سے سر جھکائیں، کسی دوسرے کے آگے سر نہ جھکائیں۔ انھی تین چیزوں کو اللہ نے عبادت کے جامع لفظ میں بیان کیا ہے۔ یہی مطلب ان تمام آیتوں کا ہے جن میں اللہ نے اپنی عبادت کا حکم دیا ہے۔ ہمارے نبی کریمؐ اور آپؐ سے پہلے جتنے نبی خدا کی طرف سے آئے ہیں ان سب کی تعلیم کا سارا لُبِّ لباب یہی ہے کہ :
اَ لَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاہُ۝۰ۭ (یوسف 12:40)
اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔
یعنی صرف ایک بادشاہ ہے جس کا تمھیں وفادار ہونا چاہیے، اور وہ بادشاہ اللہ ہے۔ صرف ایک قانون ہے جس کی تمھیں پیروی کرنی چاہیے، اور وہ قانون اللہ کا قانون ہے۔ اور صرف ایک ہی ہستی ایسی ہے جس کی تمھیں پوجا اور پرستش کرنی چاہیے، اور وہ ہستی اللہ کی ہے۔
عبادت کے غلط مفہوم کے نتائج
عبادت کا یہ مطلب اپنے ذہن میں رکھیے، اور پھر ذرا میرے سوالات کا جواب دیتے جائیے۔
o آپ اس نوکر کے متعلق کیا کہیں گے جو آقا کی مقرر کی ہوئی ڈیوٹی پر جانے کے بجائے ہر وقت بس اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا رہے اور لاکھوں مرتبہ اس کا نام جپتا چلا جائے؟ آقا اس سے کہتا ہے کہ جا کر فلاں فلاں آدمیوں کے حق ادا کر، مگر یہ جاتا نہیں بلکہ وہیں کھڑے کھڑے آقا کو جھک جھک کر دس سلام کرتا ہے اور پھر ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ آقا اُسے حکم دیتا ہے کہ جا اور فلاں فلاں خرابیوں کو مٹا دے، مگر یہ ایک انچ وہاں سے نہیں ہٹتا اور سجدے پر سجدے کیے چلا جاتا ہے۔ آقا حکم دیتا ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹ دے۔ یہ حکم سن کر بس وہیں کھڑے کھڑے نہایت خوش الحانی کے ساتھ ’’چور کا ہاتھ کاٹ دے، چور کا ہاتھ کاٹ دے‘‘ بیسیوں مرتبہ پڑھتا رہتا ہے، مگر ایک دفعہ بھی اس نظامِ حکومت کے قیام کی کوشش نہیں کرتا جس میں چور کا ہاتھ کاٹا جا سکے۔ کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ شخص حقیقت میں آقا کی بندگی کر رہا ہے؟ اگر آپ کا کوئی ملازم یہ رویہ اختیار کرے تو میں نہیں جانتا ہوں کہ آپ اسے کیا کہیں گے، مگر حیرت ہے آپ پر کہ خدا کا جو نوکر ایسا کرتا ہے آپ اسے بڑا عبادت گزار کہتے ہیں! یہ ظالم صبح سے شام تک خدا جانے کتنی مرتبہ قرآن شریف میں خدا کے احکام پڑھتا ہے، مگر ان احکام کو بجا لانے کے لیے اپنی جگہ سے جنبش تک نہیں کرتا، بلکہ نفل پر نفل پڑھے جاتا ہے، ہزار دانہ تسبیح پر خدا کا نام جپتا ہے اور خوش الحانی کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرتا رہتا ہے۔ آپ اس کی یہ حرکتیں دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیسا زاہد ، عابد بندہ ہے! یہ غلط فہمی صرف اس وجہ سے ہے کہ آپ عبادت کا صحیح مطلب نہیں جانتے۔
o ایک اورنوکر ہے جو رات دن ڈیوٹی تو غیروں کی انجام دیتا ہے، احکام غیروں کے سنتا اور مانتا ہے، قانون پر غیروں کے عمل کرتا ہے اور اپنے اصلی آقا کے فرمان کی ہر وقت خلاف ورزی کیا کرتا ہے، مگر سلامی کے وقت آقا کے سامنے حاضر ہو جاتا ہے اور زبان سے آقا ہی کا نام جپتا رہتا ہے۔ اگر آپ میں سے کسی شخص کا نوکر یہ طریقہ اختیار کرے تو آپ کیا کریں گے؟ کیا آپ اس کی سلامی کو اس کے منہ پر نہ مار دیں گے؟ جب وہ زبان سے آپ کو آقا اور مالک کہے گا تو کیا آپ فوراً یہ جواب نہ دیں گے کہ تو پرلے درجے کا جھوٹا اور بے ایمان ہے، تنخواہ مجھ سے لیتا ہے اورنوکری دوسروں کی کرتا ہے، زبان سے مجھے آقا کہتا ہے اور حقیقت میں میرے سوا ہر ایک کی خدمت کرتا پھرتا ہے؟ یہ تو ایک معمولی عقل کی بات ہے کہ جسے آپ میں سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے، مگر کیسی حیرت کی بات ہے کہ جو لوگ رات دن خدا کے قانون کو توڑتے ہیں، کفار ومشرکین کے احکام پر عمل کرتے ہیں اور اپنی زندگی کے معاملات میں خدا کے احکام کی کوئی پروا نہیں کرتے، ان کی نماز اور روزے اور تسبیح اور تلاوتِ قرآن اور حج وزکوٰۃ کو آپ خدا کی عبادت سمجھتے ہیں۔ یہ غلط فہمی بھی اسی وجہ سے ہے کہ آپ عبادت کے اصل مطلب سے ناواقف ہیں۔
o ایک اور نوکر کی مثال لیجیے۔ آقا نے اپنے نوکروں کے لیے جو وردی مقرر کی ہے، یہ ٹھیک ناپ تول کے ساتھ اس وردی کو پہنتا ہے، بڑے ادب اور تعظیم کے ساتھ آقا کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے، ہر حکم کو سن کر اس طرح جھک کر ’’بسر وچشم‘‘ کہتا ہے کہ گویا اس سے بڑھ کر اطاعت گزار خادم کوئی نہیں۔ سلامی کے وقت سب سے آگے جا کر کھڑا ہوتا ہے اور آقا کا نام جپنے میں تمام نوکروں سے بازی لے جاتا ہے، مگر دوسری طرف یہی شخص آقا کے دشمنوں اور باغیوں کی خدمت بجا لاتا ہے، آقا کے خلاف ان کی سازشوں میں حصہ لیتا ہے اور آقا کے نام کو دنیا سے مٹانے میں جو کوشش بھی وہ کرتے ہیں اس میں یہ کم بخت ان کا ساتھ دیتا ہے۔ رات کے اندھیرے میں تو آقا کے گھر میں نقب لگاتا ہے اور صبح بڑے وفادار ملازموں کی طرح ہاتھ باندھ کر آقا کی خدمت میں حاضر ہو جاتا ہے۔ ایسے نوکر کے متعلق آپ کیا کہیں گے؟ یہی نا کہ وہ منافق ہے، باغی ہے، نمک حرام ہے، مگر خدا کے جو نوکر ایسے ہیں ان کو آپ کیا کہا کرتے ہیں؟ کسی کو پیر صاحب اور کسی کو حضرت مولانا اور کسی کو دین دار، متقی اور عبادت گزار۔ یہ صرف اس لیے کہ آپ ان کے منہ پر پورے ناپ کی داڑھیاں دیکھ کر، ان کے ٹخنوں سے دو دو انچ اونچے پاجامے دیکھ کر، ان کی پیشانیوں پرنماز کے گٹّے دیکھ کر اور ان کی لمبی لمبی نمازیں اور موٹی موٹی تسبیحیں دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ بڑے دین دار اور عبادت گزار ہیں۔ یہ غلط فہمی بھی اسی وجہ سے ہے کہ آپ نے عبادت اور دین داری کا مطلب ہی غلط سمجھا ہے۔
آپ سمجھتے ہیں کہ ہاتھ باندھ کر قبلہ رُو کھڑے ہونا، گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کرجھکنا، زمین پر ہاتھ ٹیک کر سجدہ کرنا اور چند مقررالفاظ زبان سے ادا کرنا، بس یہی چند افعال اور حرکات بجائے خود عبادت ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ رمضان کی پہلی تاریخ سے شوال کا چاند نکلنے تک روزانہ صبح سے شام تک بھوکے پیاسے رہنے کا نام عبادت ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ قرآن کے چند رکوع زبان سے پڑھ دینے کا نام عبادت ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ مکہ معظمہ جا کرکعبے کے گرد طواف کرنے کا نام عبادت ہے۔ غرض آپ نے چند افعال کی ظاہری شکلوں کا نام عبادت رکھ چھوڑا ہے، اور جب کوئی شخص ان شکلوں کے ساتھ ان افعال کو ادا کر دیتا ہے تو آپ خیال کرتے ہیں کہ اس نے خدا کی عبادت کر دی اور وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات51:56) کا مقصد پورا ہو گیا۔ اب وہ اپنی زندگی میں آزاد ہے کہ جو چاہے کرے۔
عبادت ___ پوری زندگی میں بندگی
لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جس عبادت کے لیے آپ کو پیدا کیا ہے اور جس کا آپ کو حکم دیا ہے وہ کچھ اور ہی چیز ہے۔ وہ عبادت یہ ہے کہ آپ اپنی زندگی میں ہر وقت ہر حال میں خدا کے قانون کی اطاعت کریں اور ہر اس قانون کی پابندی سے آزاد ہو جائیں جو قانونِ الٰہی کے خلاف ہو۔ آپ کی ہر جنبش اس حد کے اندر ہو جو خدا نے آپ کے لیے مقرر کی ہے۔ آپ کا ہر فعل اس طریقے کے مطابق ہو جو خدا نے بتا دیا ہے۔ اس طرز پر جو زندگی آپ بسر کریں گے وہ پوری کی پوری عبادت ہو گی۔ ایسی زندگی میں آپ کا سونا بھی عبادت ہے اورجاگنا بھی، کھانا بھی عبادت ہے اور پینا بھی، چلنا پھرنا بھی عبادت ہے اوربات کرنا بھی۔ حتی کہ اپنی بیوی کے پاس جانا اور اپنے بچے کو پیار کرنا بھی عبادت ہے۔ جن کاموں کو آپ بالکل دنیا داری کہتے ہیں، وہ سب دین داری اور عبادت ہیں۔ اگر آپ ان کو انجام دینے میں خدا کی مقرر کی ہوئی حدوں کا لحاظ کریں، اور زندگی میں ہر ہر قدم پر یہ دیکھ کر چلیں کہ خدا کے نزدیک جائز کیا ہے اور ناجائز کیا؟ حلال کیا ہے اور حرام کیا؟ فرض کیا چیز کی گئی ہے اور منع کس چیز سے کیا گیا ہے؟ کس چیز سے خدا خوش ہوتا ہے اور کس سے ناراض ہوتا ہے؟ مثلاً آپ روزی کمانے کے لیے نکلتے ہیں۔ اس کام میں بہت سے مواقع ایسے بھی آتے ہیں جن میں حرام کا مال کافی آسانی کے ساتھ آپ کو مل سکتا ہے۔ اگر آپ نے خدا سے ڈر کر وہ مال نہ لیا اور صرف حلال کی روٹی کما کر لائے تو یہ جتنا وقت آپ نے روٹی کمانے پر صَرف کیا یہ سب عبادت تھا، اور یہ روٹی گھر لا کر جو آپ نے خود کھائی اور اپنی بیوی بچوں اور خدا کے مقرر کیے ہوئے دوسرے حق داروں کو کھلائی، اس سب پر آپ اجر وثواب کے مستحق ہو گئے۔ آپ نے اگر راستہ چلنے میں کوئی پتھر یا کانٹا ہٹا دیا، اس خیال سے کہ خدا کے بندوں کو تکلیف نہ ہو، تو یہ بھی عبادت ہے۔ آپ نے اگر کسی بیمار کی خدمت کی، یا کسی اندھے کو راستہ چلایا، یا کسی مصیبت زدہ کی مدد کی، تو یہ بھی عبادت ہے۔ آپ نے اگر بات چیت کرنے میں جھوٹ سے، غیبت سے، بدگوئی اور دل آزاری سے پرہیز کیا، اور خدا سے ڈر کر صرف حق بات کی، تو جتنا وقت آپ نے بات چیت میں صَرف کیا وہ سب عبادت میں صَرف ہوا۔
پس خدا کی اصلی عبادت یہ ہے کہ ہوش سنبھالنے کے بعد سے مرتے دم تک آپ خدا کے قانون پر چلیں اور اس کے احکام کے مطابق زندگی بسر کریں۔ اس عبادت کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ہے، یہ عبادت ہر وقت ہونی چاہیے۔ اس عبادت کی کوئی ایک شکل نہیں ہے، ہر کام اور ہر شکل میں اسی کی عبادت ہونی چاہیے۔ جب آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں فلاں وقت خدا کا بندہ ہوں اور فلاں وقت اس کا بندہ نہیں ہوں، تو آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ فلاں وقت خدا کی بندگی وعبادت کے لیے ہے اورفلاں وقت اس کی بندگی وعبادت کے لیے نہیں ہے۔
بھائیو! آپ کو عبادت کا مطلب معلوم ہو گیا اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ زندگی میں ہر وقت ہر حال میں خدا کی بندگی واطاعت کرنے کا نام ہی عبادت ہے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ یہ نماز، روزہ اور حج وغیرہ کیا چیزیں ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دراصل یہ عبادتیں جو اللہ نے آپ پر فرض کی ہیں، ان کا مقصد آپ کو اس بڑی عبادت کے لیے تیار کرنا ہے جو آپ کو زندگی میں ہر وقت ہر حال میں ادا کرنی چاہیے۔ نماز آپ کو دن میں پانچ وقت یاد دلاتی ہے کہ تم اللہ کے بندے ہو، اسی کی بندگی تمھیں کرنی چاہیے۔ روزہ سال میں ایک مرتبہ پورے ایک مہینے تک آپ کو اسی بندگی کے لیے تیار کرتا ہے۔ زکوٰۃ آپ کو بار بار توجہ دلاتی ہے کہ یہ مال جو تم نے کمایا ہے یہ خدا کا عطیہ ہے، اس کو صرف اپنے نفس کی خواہشات پر صَرف نہ کر دو، بلکہ اپنے مالک کا حق ادا کرو۔ حج دل پر خدا کی محبت اور بزرگی کا ایسا نقش بٹھاتا ہے کہ ایک مرتبہ اگر وہ بیٹھ جائے تو تمام عمر اس کا اثر دل سے دور نہیں ہو سکتا۔ ان سب عبادتوں کو ادا کرنے کے بعد اگر آپ اس قابل ہو گئے کہ آپ کی ساری زندگی خدا کی عبادت بن جائے تو بلاشبہ آپ کی نماز نماز ہے اور روزہ روزہ ہے، زکوٰۃ زکوٰۃ ہے اور حج حج ہے۔ لیکن اگر یہ مقصد پورا نہ ہوا تو محض رکوع اور سجدہ کرنے اور بھوک پیاس کے ساتھ دن گزارنے اور حج کی رسمیں ادا کر دینے اور زکوٰۃ کی رقم نکال دینے سے کچھ حاصل نہیں۔ ان ظاہری طریقوں کی مثال تو ایسی ہے جیسے ایک جسم، کہ اگر اس میں جان ہے اور وہ چلتا پھرتا اور کام کرتا ہے تو بلاشبہ ایک زندہ انسان ہے۔ لیکن اگر اس میں جان ہی نہیں تو وہ ایک مردہ لاش ہے۔ مردے کے ہاتھ پائوں، آنکھ ناک سب ہی کچھ ہوتے ہیں، مگر اس میں بس جان نہیں ہوتی، اس لیے تم اسے مٹی میں دبا دیتے ہو۔ اسی طرح اگر نمازکے ارکان پورے ادا ہوں، یا روزے کی شرطیں پوری ادا کر دی جائیں، مگر خدا کا خوف، اس کی محبت اور اس کی وفاداری واطاعت نہ ہو جس کے لیے نماز اور روزہ فرض کیا گیا ہے تو وہ بھی ایک بے جان چیز ہو گی۔
آئندہ خطبات میں مَیں آپ کو تفصیل کے ساتھ بتائوں گا کہ جو عبادتیں فرض کی گئی ہیں، ان میں سے ہر ایک کس طرح اس بڑی عبادت کے لیے انسان کو تیار کرتی ہے، اور اگر ان عبادتوں کو آپ سمجھ کر ادا کریں، اور ان کا اصل مقصد پورا کرنے کی کوشش کریں، تو اس سے آپ کی زندگی پرکیا اثر پڑ سکتا ہے۔

٭…٭…٭

شیئر کریں