برادرانِ اسلام! پچھلے خطبے میں کلمہ طیبہ کے متعلق میں نے آپ سے کچھ کہا تھا۔ آج پھر اسی کلمہ کی کچھ اور تشریح میں آپ کے سامنے بیان کروں گا۔ اس لیے کہ یہ کلمہ ہی اسلام کی بنیاد ہے، اسی کے ذریعے سے آدمی اسلام میں داخل ہوتا ہے، اور کوئی شخص حقیقت میں مسلمان بن نہیں سکتا جب تک کہ وہ اس کلمہ کو پوری طرح سمجھ نہ لے، اور اپنی زندگی کو اس کے مطابق نہ بنالے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابِ مجید میں اس کلمہ کی تعریف اس طرح فرمائی ہے:
اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا كَلِمَۃً طَيِّبَۃً كَشَجَرَۃٍ طَيِّبَۃٍ اَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُہَا فِي السَّمَاۗءِo لاتُؤْتِيْٓ اُكُلَہَا كُلَّ حِيْنٍؚبِـاِذْنِ رَبِّہَا۰ۭ وَيَضْرِبُ اللہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ يَتَذَكَّرُوْنَo وَمَثَلُ كَلِمَۃٍ خَبِيْثَۃٍ كَشَجَرَۃٍ خَبِيْثَۃِۨ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَہَا مِنْ قَرَارٍ o يُثَبِّتُ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَۃِ۰ۚ وَيُضِلُّ اللہُ الظّٰلِــمِيْنَ۰ۣۙ وَيَفْعَلُ اللہُ مَا يَشَاۗءُ o (ابراہیم14:24-27)
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمہ ٔ طیبہ کو کس چیز سے مثال دی ہے؟ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کا درخت، جس کی جڑ زمین میں گہری جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں، ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے اپنے پھل دے رہا ہے۔ یہ مثالیں اللہ اس لیے دیتا ہے کہ لوگ ان سے سبق لیں۔ اورکلمۂ خبیثہ کی مثال ایک بد ذات درخت کی سی ہے جو زمین کی سطح سے اکھاڑ پھینکا جاتا ہے، اس کے لیے کوئی استحکام نہیں ہے۔ ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قولِ ثابت کی بنیاد پر دنیا اورآخرت، دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے اور ظالموں کو اللہ بھٹکا دیتا ہے۔ اللہ کو اختیار ہے، جو چاہے کرے۔
یعنی کلمۂ طیبہ کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی اچھی ذات کا درخت ہو جس کی جڑیں زمین میں خوب جمی ہوئی اور جس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہوئی ہوں او ر جو ہر وقت اپنے پروردگار کے حکم سے پھل پر پھل لائے چلا جاتا ہو_____ اس کے برعکس کلمۂ خبیثہ یعنی برا اعتقاد اور جھوٹا قول ایسا ہے جیسے ایک بد ذات خودرَو پودا کہ وہ بس زمین کے اوپر ہی اوپر ہوتا ہے، اور ایک اشارے میں جڑ چھوڑ دیتا ہے، کیوں کہ اس کی جڑ گہری جمی ہوئی نہیں ہوتی۔
یہ ایسی بے نظیر مثال ہے کہ اگر تم اس پر غور کرو تو تمھیں اس سے بڑا سبق ملے گا۔ دیکھو! تمھارے سامنے دونوں قسم کے درختوں کی مثالیں موجود ہیں۔ ایک تو یہ آم کا درخت ہے، کتنا گہرا جما ہوا ہے، کتنی بلندی تک اٹھا ہوا ہے، کتنی اس کی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں، کتنے اچھے پھل اس میں لگتے ہیں، یہ بات اسے کیوں حاصل ہوئی؟ اس لیے کہ اس کی گٹھلی زوردار تھی، اس کو درخت بننے کا حق حاصل تھا، اور وہ حق اتنا سچا تھا کہ جب اس نے اپنے حق کا دعویٰ کیا تو زمین نے، پانی نے، ہوا نے، دن کی گرمی اور رات کی ٹھنڈک نے، غرض ہر چیز نے اس کے حق کو تسلیم کیا اور اس نے جس سے جو کچھ مانگا ہر ایک نے اس کو دیا۔ اس طرح وہ اپنے حق کے زور سے اتنا بڑا درخت بن گیا اور اپنے میٹھے پھل دے کر اس نے ثابت بھی کر دیا کہ حقیقت میں وہ اسی قابل تھا کہ ایسا درخت بنے اور زمین وآسمان کی ساری قوتوں نے مل کر اگر اس کا ساتھ دیا تو کچھ بے جا نہیں کیا، بلکہ ان کو ایسا کرنا ہی چاہیے تھا، اس لیے کہ درختوں کو غذا دینے اور بڑھانے اورپکانے کی جو طاقت زمین اور پانی اور ہوا اور دوسری چیزوں کے پاس ہے وہ اسی کام کے لیے تو ہے کہ اچھی ذات والے درختوں کے کام آئے۔
اس کے مقابلے میں یہ جھاڑ جھنکار اور خود رَو پودے ہیں۔ ان کی بساط ہی کیا ہے؟ ذرا سی جڑ، کہ ایک بچہ اکھاڑ لے۔ نرم اور بودے اتنے کہ ہوا کے ایک جھونکے سے مرجھا جائیں۔ ہاتھ لگائو توکانٹے سے تمھاری خبر لیں۔ چکھو تو منہ کا مزہ خراب کر دیں۔ روزخدا جانے کتنے پیدا ہوتے ہیں اور کتنے اکھاڑے جاتے ہیں۔ ان کا یہ حال کیوں ہے؟ اس لیے کہ ان کے پاس حق کا وہ زور نہیں جو آم کے پاس ہے۔ جب اعلیٰ ذات کے درخت نہیں ہوتے تو زمین بے کار پڑے پڑے اکتا جاتی ہے اور ان پودوں کواپنے اندر جگہ دے دیتی ہے۔ کچھ مدد پانی کر دیتا ہے۔ کچھ ہوا اپنے پاس سے سامان دے دیتی ہے، مگر زمین وآسمان کی کوئی چیز بھی ایسے پودوں کا حق ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ اس لیے نہ زمین اپنے اندر ان کی جڑیں پھیلنے دیتی ہے، نہ پانی ان کو دل کھول کر غذا دیتا ہے اور نہ ہوا کھلے دل سے ان کو پروان چڑھاتی ہے۔ پھر جب اتنی سی بساط پر یہ خبیث پودے بدمزہ، خاردار اور زہریلے بن کر اٹھتے ہیں تو واقع میں ثابت ہو جاتا ہے کہ زمین وآسمان کی طاقتیں ایسے پودے اگانے کے لیے نہیں تھیں۔ ان کو اتنی زندگی بھی ملی تو بہت ملی۔
ان دونوں مثالوں کو سامنے رکھو اور پھر کلمۂ طیّب اورکلمۂ خبیث کے فرق پر غور کرو۔
1-کلمۂ طیّب کیا ہے؟
کلمہ طیّب کیا ہے، ایک سچی بات ہے۔ ایسی سچی بات کہ دنیا میں اس سے زیادہ سچی بات کوئی ہو نہیں سکتی۔ سارے جہان کا خدا ایک اللہ ہے۔ اس چیز پرزمین اور آسمان کی ہر چیز گواہی دے رہی ہے۔ یہ انسان، یہ جانور، یہ درخت، یہ پتھر، یہ ریت کے ذرّے، یہ بہتی ہوئی نہر، یہ چمکتا ہوا سورج، یہ ساری چیزیں جو ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں، ان میں سے کون سی چیز ہے جس کو اللہ کے سوا کسی اور نے پیدا کیا ہو؟ جو اللہ کے سوا کسی اور کی مہربانی سے زندہ اور قائم رہ سکے؟ جس کو اللہ کے سوا کوئی اور فنا کر سکتا ہو؟ پس جب یہ سارا جہان اللہ کا پیدا کیا ہوا ہے اور اللہ ہی کی عنایت سے قائم ہے اور اللہ ہی اس کا مالک اور حاکم ہے، تو جس وقت تم کہو گے کہ:’’اس جہان میں اس ایک اللہ کے سوا کسی اور کی خدائی نہیں ہے‘‘ تو زمین وآسمان کی ایک ایک چیز پکارے گی کہ تو نے بالکل سچی بات کہی۔ ہم سب تیرے اس قول کی صداقت پر گواہ ہیں۔ جب تم اس کے آگے سر جھکائو گے تو کائنات کی ہر چیز تمھارے ساتھ جھک جائے گی، کیوں کہ یہ ساری چیزیں بھی اسی کی عبادت گزار ہیں۔ جب تم اس کے فرمان کی پیروی کرو گے تو زمین وآسمان کی ہر چیز تمھارا ساتھ دے گی، کیوں کہ یہ سب بھی تو اسی خدا کے فرماں بردار ہیں۔ جب تم اس کی راہ میں چلو گے تو تم اکیلے نہ ہو گے، بلکہ کائنات کا بے شمار لشکر تمھارے ساتھ چلے گا کیوں کہ آسمان کے سورج سے لے کرزمین کے ایک حقیر ذرّے تک ہر چیز ہرآن اسی کی راہ میں تو چل رہی ہے۔ جب تم اس پر بھروسا کرو گے توکسی چھوٹی طاقت پر بھروسا نہ کرو گے، بلکہ اس عظیم الشان طاقت پر بھروسا کرو گے جو زمین اور آسمان کے سارے خزانوں کی مالک ہے۔ غرض اس حقیقت پر جب تم نظر رکھو گے تو تم کو معلوم ہو گا کہ کلمہ طیبہ پر ایمان لا کر جو انسان اپنی زندگی کو اسی کے مطابق بنا لے گا، زمین اور آسمان کی ساری طاقتیں اس کا ساتھ دیں گی۔ دنیا سے لے کر آخرت تک وہ پھلتا اورپھولتا ہی چلا جائے گا، اور کبھی ایک لمحے کے لیے بھی ناکامی ونامرادی اس کے پاس نہ آئے گی۔ یہی چیز اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے کہ یہ کلمہ ایسا درخت ہے جس کی جڑیں زمین میں جمی ہوئی ہیں اور شاخیں آسمان پر پھیلی ہوئی ہیں، اور ہر وقت یہ خدا کے حکم سے پھل لاتا رہتا ہے۔
2-کلمۂ خبیث کیا ہے؟
اس کے مقابلے میں کلمۂ خبیث کو دیکھو۔ کلمۂ خبیث کیا چیز ہے؟ یہ کہ اس جہان کا کوئی خدا نہیں، یا یہ کہ ایک اللہ کے سوا کسی اور کی خدائی بھی ہے۔
غور کرو! اس سے بڑھ کر جھوٹی اور بے اصل بات اور کیا ہو سکتی ہے؟ زمین اور آسمان کی کون سی چیز اس پر گواہی دیتی ہے؟ دہریہ کہتا ہے کہ خدا نہیں ہے۔ زمین اور آسمان کی ہر چیز کہتی ہے تو جھوٹا ہے۔ ہم کو اورتجھ کو خدا ہی نے پیدا کیا ہے اور اسی خدا نے تجھ کو وہ زبان دی ہے جس سے تو یہ جھوٹ بک رہا ہے۔ مشرک کہتا ہے کہ خدائی میں دوسرے بھی اللہ کے شریک ہیں۔ دوسرے بھی رازق ہیں۔ دوسرے بھی مالک ہیں۔ دوسرے بھی قسمتیں بناتے اور بگاڑتے ہیں۔ دوسرے بھی فائدہ اور نقصان پہنچانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ دوسرے بھی دعائیں سننے والے ہیں۔ دوسرے بھی مرادیں پوری کرنے والے ہیں۔ دوسرے بھی ڈرنے کے لائق ہیں۔ دوسرے بھی بھروسا کرنے کے قابل ہیں۔ اس خدائی میں دوسروں کا حکم بھی چلتا ہے، اور خدا کے سوا دوسروں کا فرمان اور قانون بھی پَیروی کے لائق ہے۔
اس کے جواب میں زمین وآسمان کی ہر چیز کہتی ہے کہ تو بالکل جھوٹا ہے۔ ہر ہر بات جو تو کہہ رہا ہے یہ حقیقت کے خلاف ہے۔ اب غور کرو کہ یہ کلمہ جو شخص اختیار کرے گا اور اس کے مطابق جو شخص زندگی بسر کرے گا، دنیا اور آخرت میں وہ کیوں کر پھل پھول سکتا ہے؟ اللہ نے اپنی مہربانی سے ایسے لوگوں کو مہلت دے رکھی ہے اور رزق کا وعدہ ان سے کیا ہے، اس لیے زمین اور آسمان کی طاقتیں کسی نہ کسی طرح اس کو بھی پرورش کریں گی جس طرح وہ جھاڑجھنکار اور خود رَو پودوں کو بھی آخر پرورش کرتی ہی ہیں۔ لیکن کائنات کی کوئی چیز بھی اس کا حق سمجھ کر اس کا ساتھ نہ دے گی اور نہ پوری طاقت کے ساتھ اس کی مدد ہی کر ے گی۔ وہ انھی خود رَو درختوں کی طرح ہو گا جن کی مثال ابھی آپ کے سامنے بیان ہوئی ہے۔
* نتائج کا فرق
یہی فرق دونوں کے پھلوں میں ہے۔ کلمۂ طیب جب کبھی پھلے گا اس سے میٹھے اور مفید پھل ہی پیدا ہوں گے۔ دنیا میں اس سے امن قائم ہو گا۔ نیکی اور سچائی اور انصاف کا بول بالا ہو گا اور خلقِ خدا اُس سے فائدہ ہی اٹھائے گی، مگر کلمۂ خبیث کی جتنی پرورش ہو گی اس سے خاردار شاخیں ہی نکلیں گی۔ اس میں کڑوے کسیلے ہی پھل آئیں گے۔ اس کی رگ رگ میں زہر ہی بھرا ہو گا۔ دنیا میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لو، جہاں کفر اور شرک اور دہریّت کا زور ہے وہاں کیا ہو رہا ہے؟ آدمی کو آدمی پھاڑ کھانے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ آبادیوں کی آبادیاں تباہ کرنے کے سامان ہو رہے ہیں۔ زہریلی گیسیں بن رہی ہیں۔ ایک قوم دوسری قوم کو برباد کر دینے پر تلی ہوئی ہے۔ جو طاقت ور ہے وہ کمزوروں کو غلام بناتا ہے، صرف اس لیے کہ اس کے حصے کی روٹی خود چھین کر کھا جائے، اور جو کمزور ہے وہ فوج اور پولیس اور جیل اور پھانسی کے زور سے دب کر رہنے اور طاقت ورکا ظلم سہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ پھر ان قوموں کی اندرونی حالت کیا ہے؟ اخلاق بد سے بدتر ہیں جن پر شیطان بھی شرمائے۔ انسان وہ کام کر رہا ہے جو جانور بھی نہیں کرتے۔ مائیں اپنے بچوں کو اپنے ہاتھ سے ہلاک کرتی ہیں کہ کہیں یہ بچے ان کے عیش میں خلل نہ ڈال دیں۔ شوہر اپنی بیویوں کو خود غیروں کی بغل میں دیتے ہیں، تاکہ ان کی بیویاں ان کی بغل میں آئیں۔ ننگوں کے کلب بنائے جاتے ہیں جن میں مرد اور عورت جانوروں کی طرح برہنہ ایک دوسرے کے سامنے پھرتے ہیں۔ امیر سود کے ذریعے سے غریبوں کا خون چُوسے لیتے ہیں، اور مال دار ناداروں سے اس طرح خدمت لیتے ہیں کہ گویا وہ ان کے غلام ہیں اور صرف ان کی خدمت ہی کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ غرض اس کلمۂ خبیث سے جو پودا بھی جہاں پیدا ہوا ہے کانٹوں سے بھرا ہوا ہے اور جو پھل بھی اس میں لگتا ہے کڑوا اور زہریلا ہی ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ان دونوں مثالوں کو بیان فرمانے کے بعد آخر میں فرماتا ہے کہ:
يُثَبِّتُ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَۃِ۰ۚ وَيُضِلُّ اللہُ الظّٰلِــمِيْنَ۰ۣۙ ( ابراھیم14:27)
یعنی کلمۂ طیب پرجو لوگ ایمان لائیں گے اللہ ان کو ایک مضبوط قول کے ساتھ دنیا اور آخرت دونوں میں ثبات اور جمائو بخشے گا۔ اور ان کے مقابلے میں وہ ظالم لوگ جو کلمۂ خبیث کو مانیں گے اللہ ان کی ساری کوششوں کو بھٹکا دے گا، وہ کبھی کوئی سیدھا کام نہ کریں گے جس سے دنیا یا آخرت میں کوئی اچھا پھل پیدا ہو۔
3-کلمہ گو خوار کیوں؟
بھائیو! کلمۂ طیّبہ اور کلمۂ خبیثہ کا فرق اور دونوں کے نتیجے تم نے سن لیے۔اب تم یہ سوال ضرور کرو گے کہ ہم تو کلمۂ طیّبہ کے ماننے والے ہیں، پھر کیا بات ہے کہ ہم نہ پھلتے ہیں نہ پھولتے ہیں، اورکفار جو کلمۂ خبیثہ کے ماننے والے ہیں یہ کیوں پھل پھول رہے ہیں؟
اس کا جواب میرے ذمے ہے اور میں جواب دوں گا بشرطیکہ آپ میں سے کوئی میرے جواب پر برا نہ مانے، بلکہ اپنے دل سے پوچھے کہ میرا جواب واقعی صحیح ہے یا نہیں۔
اوّل تو آپ کا یہی کہنا غلط ہے کہ آپ کلمۂ طیّبہ کومانتے ہیں اورپھر بھی نہ پھلتے ہیں نہ پھولتے ہیں۔ کلمۂ طیبہ کوماننے کے معنی زبان سے کلمہ پڑھنے کے نہیں ہیں۔ اس کے معنی دل سے ماننے کے ہیں اور اس طرح ماننے کے ہیں کہ اس کے خلاف کوئی عقیدہ آپ کے دل میں نہ رہے اور اس کے خلاف کوئی کام آپ سے ہو نہ سکے۔
میرے بھائیو! خدارا مجھے بتائو! کیا تمھارا حقیقت میں یہی حال ہے؟ کیا سیکڑوں ایسے مشرکانہ اور کافرانہ خیالات تم میں نہیں پھیلے ہوئے ہیں جو کلمہ طیبہ کے بالکل خلاف ہیں؟ کیا مسلمان کا سر خدا کے سوا دوسروں کے آگے نہیں جھک رہا ہے؟ کیا مسلمان دوسروں سے خوف نہیں کرتا؟ کیا وہ دوسروں کی مدد پر بھروسا نہیں کرتا؟ کیا وہ دوسروں کو رازق نہیں سمجھتا؟ کیا وہ خدا کے قانون کو چھوڑ کر دوسروں کے قانون کی خوشی خوشی پیَروی نہیں کرتا؟ کیا اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والے عدالتوں میں جا کر یہ صاف نہیں کہتے کہ ہم شرع کو نہیں مانتے بلکہ رسم ورواج کو مانتے ہیں؟ کیا تم میں ایسے لوگ موجود نہیں ہیں جن کو دنیوی فائدوں کے لیے خدا کے قانون کی کسی دفعہ کو توڑنے میں ذرا تامّل نہیں ہوتا؟ کیا تم میں وہ لوگ موجود نہیں ہیں جن کو کفار کے غضب کا ڈر ہے، مگر خدا کے غضب کا ڈر نہیں؟ جو کفار کی نظر عنایت حاصل کرنے کے لیے سب کچھ کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں مگر خدا کی نظر عنایت حاصل کرنے کے لیے کچھ نہیں کر سکتے؟ جو کفار کی حکومت کو حکومت سمجھتے ہیں اور خدا کی حکومت کے متعلق انھیں کبھی یاد بھی نہیں آتا کہ وہ بھی کہیں موجود ہے؟ خدارا سچ بتائو کیا یہ واقعہ نہیں ہے؟ اگر یہ واقعہ ہے تو پھر کس منہ سے تم کہتے ہو کہ ہم کلمہ طیّبہ کو ماننے والے ہیں اور اس کے باوجود ہم نہ پھولتے ہیں نہ پھلتے ہیں۔ پہلے سچے دل سے ایمان تو لائو اورکلمۂ طیّبہ کے مطابق زندگی اختیار تو کرو۔ پھراگر وہ درخت نہ پیدا ہو جو زمین میں گہری جڑوں کے ساتھ جمنے والا اور آسمان تک چھا جانے والا ہے تومعاذ اللہ، معاذ اللہ، اپنے خدا کو جھوٹا سمجھ لینا کہ اس نے تمھیں غلط بات کا اطمینان دلایا۔
4-کیا کلمۂ خبیث کو ماننے والے پھل پھول رہے ہیں؟
پھر آپ کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ جو کلمۂ خبیثہ کو مانتے ہیں وہ واقعی دنیا میں پھل پھول رہے ہیں۔ کلمۂ خبیثہ کو ماننے والے نہ کبھی پھولے پھلے ہیں نہ آج پھول پھل رہے ہیں۔ تم دولت کی کثرت، عیش وعشرت کے اسباب اور ظاہری شان وشوکت کو دیکھ کر سمجھتے ہو کہ وہ پھل پھول رہے ہیں، مگر ان کے دلوں سے پوچھو کہ کتنے ہیں جن کو اطمینانِ قلب میسر ہے؟ ان کے اوپر عیش کے سامان لدے ہوئے ہیں، مگر ان کے دلوں میں آگ کی بھٹیاں سلگ رہی ہیں جو ان کو کسی وقت چین نہیں لینے دیتیں۔ خدا کے قانون کی خلاف ورزی نے ان کے گھروں کو دوزخ بنا رکھا ہے۔ اخباروں میں دیکھو کہ یورپ اور امریکہ میں خود کشی کا کتنا زور ہے۔ طلاق کی کیسی کثرت ہے۔ نسلیں کس طرح گھٹ رہی ہیں اور گھٹائی جا رہی ہیں۔ امراضِ خبیثہ نے کس طرح لاکھوں انسانوں کی زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔ مختلف طبقوں کے درمیان روٹی کے لیے کیسی سخت کش مکش برپا ہے۔ حسد اور بغض اور دشمنی نے کس طرح ایک ہی جنس کے آدمیوں کو آپس میں لڑا رکھا ہے۔ عیش پسندی نے لوگوں کے لیے زندگی کو کس قدر تلخ بنا دیا ہے، اور یہ بڑے بڑے عظیم الشان شہر جن کو دُور سے دیکھ کر آدمی رشکِ جنت سمجھتا ہے، ان کے اندر لاکھوں انسان کس مصیبت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کیا اسی کو پھلنا اورپھولنا کہتے ہیں؟ کیا یہی وہ جنت ہے جس پر تم رشک کی نگاہیں ڈالتے ہو؟
میرے بھائیو! یاد رکھو کہ خدا کا قول کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ حقیقت میں کلمۂ طیبہ کے سوا اور کوئی کلمہ نہیں جس کی پیروی کرکے انسان کو دنیا میں راحت اور آخرت میں سرخ رُوئی حاصل ہو سکے۔ تم جس طرف چاہو نظر دوڑا کر دیکھ لو، اس کے خلاف تم کو کہیں کوئی چیز نہ مل سکے گی۔
٭…٭…٭