Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
دیباچہ طبع اوّل
دیباچہ طبع ہشتم
باب اوّل
مسلمان ہونے کے لیے علم کی ضرورت
مسلم اورکافر کا اصلی فرق
سوچنے کی باتیں
کلمۂ طیبہ کے معنی
کلمۂ طیّبہ اور کلمۂ خبیثہ
کلمۂ طیبہ پر ایمان لانے کا مقصد
باب دوم
مسلمان کسے کہتے ہیں؟
ایمان کی کسوٹی
اسلام کا اصلی معیار
خدا کی اطاعت کس لیے؟
دین اور شریعت
باب سوم
عبادت
نماز
نماز میں آپ کیا پڑھتے ہیں؟
نماز باجماعت
نمازیں بے اثر کیوں ہو گئیں؟
باب چہارم
ہر امت پر روزہ فرض کیا گیا
روزے کا اصل مقصد
باب پنجم
زکوٰۃ
زکوٰۃ کی حقیقت
اجتماعی زندگی میں زکوٰۃ کا مقام
انفاق فی سبیل اللہ کے احکام
زکوٰۃ کے خاص احکام
باب ششم
حج کا پس منظر
حج کی تاریخ
حج کے فائدے
حج کا عالمگیر اجتماع
باب ہفتم
جہاد
جہاد کی اہمیت
ضمیمہ ۱ ۱۔اَلْخُطْبَۃُ الْاُوْلٰی
۲۔اَلْخُطْبَۃُ الثَّانِیَۃُ
ضمیمہ ۲ (بسلسلہ حاشیہ صفحہ نمبر ۲۰۷)

خطبات

اسلام کو دل نشیں، مدلل اور جا مع انداز میں پیش کرنے کا جو ملکہ اور خداداد صلاحیت سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کو حاصل ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ آپ کی تصانیف و تالیفات کی ایک ایک سطر جیسی یقین آفریں اور ایمان افزا ہے، اس کا ہر پڑھالکھا شخص معترف و مدّاح ہے ۔ کتنے ہی بگڑے ہوئے افراد، جوان، بچے، مرد وعورت ان تحریروں سے متاثر ہو کر اپنے سینوں کو نورِ ایمان سے منور کر چکے ہیں۔ ان کتابوں کی بدولت تشکیک کے مارے ہوئے لاتعداد اشخاص ایمان و یقین کی بدولت سے مالا مال ہوئے ہیں اور کتنے ہی دہریت و الحاد کے علم بردار اسلام کے نقیب بنے ہیں۔ یوں تو اس ذہنی اور عملی انقلاب لانے میں مولانا محترم کی جملہ تصانیف ہی کو پیش کیا جا سکتا ہے لیکن ان میں سر فہرست یہ کتاب خطبات ہے۔ یہ کتاب دراصل مولانا کے ان خطبات کا مجموعہ ہے جو آپ نے دیہات کے عام لوگوں کے سامنے جمعے کے اجتماعات میں دیے۔ ان خطبات میں آپ نے اسلام کے بنیادی ارکان کو دل میں اُتر جانے والے دلائل کے ساتھ آسان انداز میں پیش کیا ہے اور کمال یہ ہے کہ اس کتاب کو عام وخاص،کم علم واعلیٰ تعلیم یافتہ،ہر ایک یکساں ذوق وشوق سے پڑھتا ہے اور اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے بنیادی ارکان کو سمجھنے کے لیے ہماری زبان ہی میں نہیں بلکہ دنیا کی دوسری بلند پایہ زبانوں میں بھی اس کتاب کی نظیر نہیں ملتی۔ علم و حقانیت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جو ان صفحات میں بند کردیا گیا ہے۔

سوچنے کی باتیں

*قرآن کے ساتھ ہمارا سلوک
برادرانِ اسلام! دنیا میں اس وقت مسلمان ہی وہ خوش قسمت لوگ ہیں جن کے پاس اللہ کا کلام بالکل محفوظ، تمام تحریفات سے پاک، ٹھیک ٹھیک انھی الفاظ میں موجود ہے جن الفاظ میں وہ اللہ کے رسولِ برحق پراترا تھا، اور دنیا میں اس وقت مسلمان ہی وہ بدقسمت لوگ ہیں جو اپنے پاس اللہ کا کلام رکھتے ہیں اور پھر بھی اس کی برکتوں اور بے حد وحساب نعمتوں سے محروم ہیں۔ قرآن ان کے پاس اس لیے بھیجا گیا تھا کہ اس کو پڑھیں، سمجھیں، اس کے مطابق عمل کریں، اور اس کو لے کر خدا کی زمین پر خدا کے قانون کی حکومت قائم کر دیں۔ وہ ان کو عزت اورطاقت بخشنے آیا تھا۔ وہ انھیں زمین پر خدا کا اصلی خلیفہ بنانے آیا تھا، اور تاریخ گواہ ہے کہ جب انھوں نے اس کی ہدایت کے مطابق عمل کیا تو اس نے ان کو دنیا کا امام اور پیشوا بنا کر بھی دکھا دیا، مگر اب ان کے ہاں اس کا مصرف اس کے سوا کچھ نہیں رہا کہ گھر میں اس کو رکھ کر جن بھوت بھگائیں، اس کی آیتوں کو لکھ کر گلے میں باندھیں اور گھول کر پئیں اور محض ثواب کے لیے بے سمجھے بوجھے پڑھ لیا کریں۔
اب یہ اس سے اپنی زندگی کے معاملات میں ہدایت نہیں مانگتے۔ اس سے نہیں پوچھتے کہ ہمارے عقائد کیا ہونے چاہییں؟ہمارے اعمال کیا ہونے چاہییں؟ ہمارے اخلاق کیسے ہونے چاہییں؟ہم لین دین کس طرح کریں؟ دوستی اور دشمنی میں کس قانون کی پابندی کریں؟ خدا کے بندوں کے اور خود اپنے نفس کے حقوق ہم پر کیا ہیں اور انھیں ہم کس طرح ادا کریں؟ ہمارے لیے حق کیا ہے اورباطل کیا؟ اطاعت ہمیں کس کی کرنی چاہیے اور نافرمانی کس کی؟ تعلق کس سے رکھنا چاہیے اور کس سے نہ رکھنا چاہیے؟ ہمارا دوست کون ہے اور دشمن کون؟ ہمارے لیے عزت اور فلاح اور نفع کس چیز میں ہے اور ذلت اور نامرادی اور نقصان کس چیز میں؟یہ ساری باتیں اب مسلمانوں نے قرآن سے پوچھنی چھوڑ دی ہیں۔ اب یہ کافروں اور مشرکوں سے، گمراہ اور خود غرض لوگوں سے، اور خود اپنے نفس کے شیطان سے ان باتوں کو پوچھتے ہیں اور انھی کے کہے پر چلتے ہیں۔ اس لیے خدا کو چھوڑ کر دوسروں کے حکم پر چلنے کا جو انجام ہونا چاہیے وہی ان کا ہوا اور اسی کو یہ آج ہندستان میں، چین اور جاوا میں، فلسطین اور شام میں، الجزائر اور مراکش میں، ہر جگہ بری طرح بھگت رہے ہیں۔ قرآن تو خیر کا سرچشمہ ہے۔ جتنی اور جیسی خیر تم اس سے مانگو گے یہ تمھیں دے گا۔ تم اس سے محض جن بھوت بھگانا اور کھانسی بخار کا علاج اور مقدمے کی کامیابی اور نوکری کا حصول اور ایسی ہی چھوٹی، ذلیل وبے حقیقت چیزیں مانگتے ہو تو یہی تمھیں ملیں گی۔ اگر دنیا کی بادشاہی اور رُوئے زمین کی حکومت مانگو گے تو وہ بھی ملے گی اور اگر عرشِ الٰہی کے قریب پہنچنا چاہو گے تو یہ تمھیں وہاں بھی پہنچا دے گا۔ یہ تمھارے اپنے ظرف کی بات ہے کہ سمندر سے پانی کی دو بوندیں مانگتے ہو، ورنہ سمندر تو دریا بخشنے کے لیے بھی تیار ہے۔
حضرات! جو ستم ظریفیاں ہمارے بھائی مسلمان اللہ کی اس کتابِ پاک کے ساتھ کرتے ہیں وہ اس قدرمضحکہ انگیز ہیں کہ اگر یہ خود کسی دوسرے معاملے میں کسی شخص کو ایسی حرکتیں کرتے دیکھیں تو اس کی ہنسی اڑائیں، بلکہ اس کو پاگل قرار دیں۔ بتائیے! اگر کوئی شخص حکیم سے نسخہ لکھوا کر لائے اور اسے کپڑے میں لپیٹ کر گلے میں باندھ لے، یا اسے پانی میں گھول کر پی جائے تو اسے آپ کیا کہیں گے؟ کیا آپ کو اس پر ہنسی نہ آئے گی؟ اور آپ اسے بے وقوف نہ سمجھیں گے؟ مگر سب سے بڑے حکیم نے آپ کے امراض کے لیے شفا اور رحمت کا جو بے نظیر نسخہ لکھ کر دیا ہے اس کے ساتھ آپ کی آنکھوں کے سامنے رات دن یہی سلوک ہو رہا ہے اور کسی کو اس پرہنسی نہیں آتی۔ کوئی نہیں سوچتا کہ نسخہ گلے میں لٹکانے اور گھول کر پینے کی چیز نہیں، بلکہ اس لیے ہوتا ہے کہ اس کی ہدایت کے مطابق دوا استعمال کی جائے۔
* فہمِ قرآن اور عمل بالقرآن لازم ہے
بتائیے! اگر کوئی شخص بیمار ہو اور علمِ طب کی کوئی کتاب لے کرپڑھنے بیٹھ جائے اور یہ خیال کرے کہ محض اس کتاب کو پڑھ لینے سے بیماری دور ہو جائے گی تو آپ اسے کیا کہیں گے؟
کیا آپ نہ کہیں گے کہ بھیجو اسے پاگل خانے میں، اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے؟ مگر شافیِ مطلق نے جو کتاب آپ کے امراض کا علاج کرنے کے لیے بھیجی ہے اس کے ساتھ آپ کا یہی برتائو ہے۔ آپ اس کو پڑھتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ بس اس کے پڑھ لینے ہی سے تمام امراض دور ہو جائیں گے۔ اس کی ہدایات پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں، نہ ان چیزوں سے پرہیز کی ضرورت ہے جن کو یہ مُضر بتا رہی ہے۔ پھر آپ خود اپنے اوپر بھی وہی حکم کیوں نہیں لگاتے جو اس شخص پر لگاتے ہیں جو بیماری دُور کرنے کے لیے صرف علمِ طب کی کتاب پڑھ لینے کو کافی سمجھتا ہے؟
آپ کے پاس اگر کوئی خط کسی ایسی زبان میں آتا ہے جسے آپ نہ جانتے ہوں تو آپ دوڑے ہوئے جاتے ہیں کہ اس زبان کے جاننے والے سے اس کا مطلب پوچھیں۔ جب تک آپ اس کا مطلب نہیں جان لیتے آپ کو چین نہیں آتا۔ یہ معمولی کاروبار کے خطوط کے ساتھ آپ کا برتائو ہے جن میں زیادہ سے زیادہ چار پیسوں کا فائدہ ہو جاتا ہے، مگر خداوندِ عالم کا جو خط آپ کے پاس آیا ہوا ہے اور جس میں آپ کے لیے دین ودنیا کے تمام فائدے ہیں، اسے آپ اپنے پاس یونہی رکھ چھوڑتے ہیں، اس کا مطلب سمجھنے کے لیے کوئی بے چینی آپ میں پیدا نہیں ہوتی۔ کیا یہ حیرت اور تعجب کا مقام نہیں؟
* اللہ کی کتاب پر ظلم کا نتیجہ
یہ باتیں میں ہنسی دل لگی کے لیے نہیں کر رہا ہوں۔ آپ ان باتوں پر غور کریں گے تو آپ کا دل گواہی دے گا کہ دنیا میں سب سے بڑھ کر ظلم اللہ کی اس کتابِ پاک کے ساتھ ہو رہا ہے، اور یہ ظلم کرنے والے وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور اس پر جان قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ بے شک وہ ایمان رکھتے ہیں اور اسے جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں، مگر افسوس یہ ہے کہ وہی اس پر سب سے زیادہ ظلم کرتے ہیں، اور اللہ کی کتاب پر ظلم کرنے کا جو انجام ہے وہ ظاہر ہے۔ خوب سمجھ لیجیے! اللہ کا کلام انسان کے پاس اس لیے نہیں آتا کہ وہ بدبختی اور نکبت{ FR 1589 } ومصیبت میں مبتلا ہو:
طٰہٰ o مَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓی o لا (طٰہٰ 20:1-2)
طٰہٰ۔ ہم نے یہ قرآن تم پر اس لیے نازل نہیں کیا ہے کہ تم مصیبت میں پڑ جائو۔
یہ سعادت اور نیک بختی کا سرچشمہ ہے، شقاوت اور بدبختی کا ذریعہ نہیں ہے۔ یہ قطعی ناممکن ہے کہ کوئی قوم خدا کے کلام کی حامل ہو، اور پھر دنیا میں ذلیل وخوار ہو، دوسروں کی محکوم ہو، پائوں میں روندی اور جوتیوں سے ٹھکرائی جائے۔ اس کے گلے میں غلامی کا پھندا ہو، اور غیروں کے ہاتھ میں اس کی باگیں ہوں اور وہ اس کو اس طرح ہانکیں جیسے جانور ہانکے جاتے ہیں۔ یہ انجام اس کا صرف اسی وقت ہوتا ہے جب وہ اللہ کے کلام پر ظلم کرتی ہے۔ بنی اسرائیل کا انجام آپ کے سامنے ہے۔ ان کے پاس توراۃ اور انجیل بھیجی گئی تھیں اور کہا گیا تھا:
وَ لَوْ اَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِھِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِمْ ط (المائدہ 5:66)
اگر وہ توراۃ اور انجیل اور ان کتابوں کی پیروی پر قائم رہتے جو ان کے(رب کی طرف سے ان کے) پاس بھیجی گئی تھیں تو ان پر آسمان سے رزق برستا اور زمین سے رزق ابلتا۔
مگر انھوں نے اللہ کی ان کتابوں پر ظلم کیا اور اس کا نتیجہ یہ دیکھا کہ:
وَضُرِبَتْ عَلَيْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْكَنَۃُ۝۰ۤ وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ۝۰ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللہِ وَيَقْتُلُوْنَ النَّـبِيّٖنَ بِغَيْرِ الْحَقِّ۝۰ۭ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَo
(البقرہ 2:61)
اُن پر ذلت اور محتاجی مسلط کر دی گئی اور وہ خدا کے غضب میں گھِر گئے۔ یہ اس لیے کہ وہ اللہ کی آیات سے کفر کرنے لگے تھے، اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے تھے اور اس لیے کہ وہ اللہ کے نافرمان ہو گئے تھے اور حد سے گزر گئے تھے۔
پس جو قوم خدا کی کتاب رکھتی ہو، اور پھر بھی ذلیل وخوار، اور محکوم ومغلوب ہو تو سمجھ لیجیے کہ وہ ضرور کتابِ الٰہی پر ظلم کر رہی ہے اور اس پر یہ سارا وبال اسی ظلم کا ہے۔ خدا کے اس غضب سے نجات پانے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ اس کی کتاب کے ساتھ ظلم کرنا چھوڑ دیا جائے، اور اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر آپ اس گناہِ عظیم سے باز نہ آئیں گے تو آپ کی حالت ہرگز نہ بدلے گی، خواہ آپ گائوں گائوں کالج کھول دیں اور آپ کا بچہ بچہ گریجوایٹ ہو جائے اور آپ یہودیوں کی طرح سود خواری کرکے کروڑ پتی ہی کیوں نہ بن جائیں۔
1-مسلمان کسے کہتے ہیں؟
حضرات! ہر مسلمان کو سب سے پہلے جو چیز جاننی چاہیے وہ یہ ہے کہ ’’مسلمان‘‘ کہتے کس کو ہیں اور ’’مسلم‘‘ کے معنی کیا ہیں؟ اگر انسان یہ نہ جانتا ہو کہ ’’انسانیت‘‘ کیا چیز ہے اور انسان وحیوان میں فرق کیا ہے تو وہ حیوانوں کی سی حرکات کرے گا اور اپنے آدمی ہونے کی قدر نہ کرسکے گا۔ اسی طرح اگر کسی شخص کو یہ نہ معلوم ہو کہ مسلمان ہونے کے معنی کیا ہیں اور مسلم اور غیر مسلم میں امتیاز کس طرح ہوتا ہے تو وہ غیر مسلموں کی سی حرکات کرے گا اور اپنے مسلمان ہونے کی قدر نہ کر سکے گا۔ لہٰذا مسلمان کو اور مسلمان کے ہر بچے کو اس بات سے واقف ہونا چاہیے کہ وہ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے تو اس کے معنی کیا ہیں، مسلمان ہونے کے ساتھ ہی آدمی کی حیثیت میں کیا فرق واقع ہوجاتا ہے، اس پرکیا ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے، اور اسلام کے حدود کیا ہیں جن کے اندر رہنے سے آدمی مسلمان رہتا ہے اور جن کے باہر قدم رکھتے ہی وہ مسلمانیت سے خارج ہو جاتا ہے، چاہے وہ زبان سے اپنے آپ کو مسلمان ہی کہتا جائے؟
* اسلام کے معنی
’’اسلام‘‘ کے معنی ہیں خدا کی اطاعت اور فرماں برداری کے۔ اپنے آپ کو خدا کے سپرد کر دینا ’’اسلام‘‘ ہے۔ خدا کے مقابلے میں اپنی آزادی وخودمختاری سے دست بردار ہو جانا ’’اسلام‘‘ ہے۔ خدا کی بادشاہی وفرماں روائی کے آگے سرتسلیم خم کر دینا ’’اسلام‘‘ ہے۔ جو شخص اپنے سارے معاملات کو خدا کے حوالے کر دے وہ مسلمان ہے، اور جو اپنے معاملات کو اپنے ہاتھ میں رکھے یا خدا کے سوا کسی اور کے سپرد کر دے وہ مسلمان نہیں ہے۔ خدا کے حوالے کرنے یا خدا کے سپرد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے اپنی کتاب اور اپنے رسولa کے ذریعے سے جو ہدایت بھیجی ہے اس کو قبول کیا جائے، اس میں چون وچرا نہ کی جائے، اور زندگی میں جو معاملہ بھی پیش آئے اس میں صرف قرآن اور سنتِ رسول ؐکی پیروی کی جائے۔جو شخص اپنی عقل اور دنیا کے دستور اور خدا کے سوا ہر ایک کی بات کو پیچھے رکھتا ہے، اور ہر معاملے میں خدا کی کتاب اور اس کے رسول a سے پوچھتا ہے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے اورکیا نہ کرنا چاہیے، اور جو ہدایت وہاں سے ملے اس کو بے چون وچرا مان لیتا ہے اور اس کے خلاف ہر چیز کو ردکر دیتا ہے، وہ اور صرف وہی ’’مسلمان‘‘ ہے۔ اس لیے کہ اس نے اپنے آپ کو بالکل خدا کے سپرد کر دیا، اور اپنے آپ کو خدا کے سپرد کرنا ہی ’’مسلمان‘‘ ہونا ہے۔
اس کے برخلاف جو شخص قرآن اور سنتِ رسولؐ پر انحصار نہیں کرتا، بلکہ اپنے دل کا کہا کرتا ہے، یا باپ دادا سے جو کچھ ہوتا چلا آتا ہو، اس کی پَیروی کرتا ہے، یا دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہو اس کے مطابق چلتا ہے، اور اپنے معاملات میں قرآن اور سنت سے یہ دریافت کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتا کہ اسے کیا کرنا چاہیے، یا اگر اسے معلوم ہوجائے کہ قرآن وسنت کی ہدایت یہ ہے اور پھر وہ اس کے جواب میں کہتا ہے کہ میری عقل اسے قبول نہیں کرتی اس لیے میں اس بات کو نہیں مانتا، یا باپ دادا سے تو اس کے خلاف عمل ہو رہا ہے، لہٰذا میں اس کی پَیروی نہ کروں گا، یا دنیا کا طریقہ اس کے خلاف ہے، لہٰذا میں اُسی پرچلوں گا، تو ایسا شخص ہرگز مسلمان نہیں ہے۔ وہ جھوٹ کہتا ہے اگر اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے۔
* مسلمان کے فرائض
آپ جس وقت کلمہ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھتے ہیں اور مسلمان ہونے کا اقرار کرتے ہیں، اسی وقت گویا آپ اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ آپ کے لیے قانون صرف خدا کا قانون ہے، آپ کا حاکم صرف خدا ہے، آپ کو اطاعت صرف خدا کی کرنی ہے، اور آپ کے نزدیک حق صرف وہ ہے جو خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کے ذریعے سے معلوم ہو۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ مسلمان ہوتے ہی خدا کے حق میں اپنی آزادی سے دست بردار ہو گئے۔ اب آپ کو یہ کہنے کا حق ہی نہ رہا کہ میری رائے یہ ہے، یا دنیا کا دستور یہ ہے، یا خاندان کا رواج یہ ہے، یا فلاں حضرت یا فلاں بزرگ یہ فرماتے ہیں۔ خدا کے کلام اور اس کے رسول a کی سنت کے مقابلے میں اب ان میں سے کوئی چیز بھی آپ نہیں کر سکتے۔ اب آپ کا کام یہ ہے کہ ہر چیز کو قرآن اور سنت کے سامنے پیش کریں، جو کچھ اس کے مطابق ہو، قبول کریں، اور جو اس کے خلاف ہو اسے اٹھا کر پھینک دیں خواہ وہ کسی کی بات اور کسی کا طریقہ ہو۔ اپنے آپ کو مسلمان بھی کہنا اور پھر قرآن وسنت کے مقابلے میں اپنے خیال یا دنیا کے دستور یا کسی انسان کے قول یا عمل کو ترجیح دینا، یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ جس طرح کوئی اندھا اپنے آپ کو آنکھوں والا نہیں کہہ سکتا، اور کوئی نکٹا اپنے آپ کو ناک والا نہیں کہہ سکتا۔ اسی طرح کوئی ایسا شخص اپنے آپ کو مسلمان بھی نہیں کہہ سکتا جو اپنی زندگی کے سارے معاملات کو قرآن اور سنت کا تابع بنانے سے انکار کرے، اور خدا اوررسولؐ کے مقابلے میں اپنی عقل یا دنیا کے دستور یا کسی انسان کے قول وعمل کو پیش کرے۔
جو شخص مسلمان نہ رہنا چاہتا ہو اُسے کوئی مسلمان رہنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ اسے اختیار ہے کہ جومذہب چاہے اختیار کرے اور اپنا جو نام چاہے رکھ لے، مگر جب وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے تو اس کو خوب سمجھ لینا چاہیے کہ وہ مسلمان اُسی وقت تک رہ سکتا ہے جب تک وہ اسلام کی سرحد میں رہے۔ خدا کے کلام اور اس کے رسول a کی سنت کو حق اور صداقت کا معیار تسلیم کرنا اور اس کے خلاف ہر چیز کو باطل سمجھنا اسلام کی سرحد ہے۔ اس سرحد میں جو شخص رہے وہی مسلمان ہے۔ اس سے باہر قدم رکھتے ہی آدمی اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، اور اس کے بعد وہ اگر اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہے اور مسلمان کہتا ہے تو خود وہ اپنے نفس کو بھی دھوکا دیتا ہے اور دنیا کو بھی:
وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَ نْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَo (المائدہ 5:44)
اور جو اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہی کافر ہیں۔
٭…٭…٭

شیئر کریں