Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

باب اوّل: ہمارے نظامِ تعلیم کا بنیادی نقص
باب دوم: مسلمانوں کے لیے جدید تعلیمی پالیسی اور لائحۂ عمل
باب سوم: خطبہ تقسیم اَسناد
باب چہارم: نیا نظامِ تعلیم
باب پنجم : رودادِ مجلسِ تعلیمی
باب ششم: اسلامی نظامِ تعلیم اور پاکستان میں اس کے نفاذ کی عملی تدابیر
باب ہفتم: ایک اسلامی یونی ورسٹی کا نقشہ
باب ہشتم: اسلامی نظام تعلیم
باب نہم: عالمِ اسلام کی تعمیر میں مسلمان طلبہ کا کردار

تعلیمات

1935ءمیں یہ سوال بڑے زور شور سے اٹھایا گیا کہ آخر مسلمانوں کی قومی درس گاہوں سے ملاحدہ اور الحاد ودہریت کے مبلغین کیوں اس کثرت سے پیدا ہو رہے ہیں۔ علی گڑھ یونی ورسٹی کے بارے میں خصوصیت کے ساتھ شکایت تھی کہ اس سے فارغ اتحصیل 90 فی صد طلبہ الحادود ہر یت میں مبتلا ہیں۔ جب یہ چرچا عام ہونے لگا اور ملک بھر میں اس کے خلاف مضامین لکھے جانے لگے تو علی گڑھ یونی ورسٹی کی طرف سے اس شکایت کا جائزہ لینے اور اصلاح حال کی تدبیر پرغوروخوض کرنے کی غرض سے ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے کافی بحث وتمحیص اور غور وخوض کے بعد یہ رائے قائم کی کہ اسی نصاب تعلیم میں دینیات کے عنصر کو پہلے کی نسبت کچھ زیادہ کر دینے سے طلبا کے اندر بڑھتے ہوئے الحادود ہریت کے سیلاب کے آگے بند باندھا جاسکتا ہے۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ نے اگست 1939ءکے ترجمان القرآن میں اصلاح حال کی اس تدبیر کاتفصیلی جائزہ لے کر اس وقت کے مروجہ نظام تعلیم کے اصلی اور بنیادی نقص کی نشان دہی کی اور اس نقص کو دور کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ آج برسہا برس گزرنے کے باوجود یہ سارے مسائل جوں کے توں ہمارے سامنے منھ پھاڑے کھڑے ہیں، یہ کتاب برسوں گزرنے کے بعد بھی آج کی تصنیف لگتی ہے۔ اس کتاب میں شامل تمام حقائق اور مسئلوں کے جو حل بتائے ہیں ، وہ آج بھی قابل عمل ہے۔ بس ایک فرق یہ ہے کہ اس وقت اس الحاد کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹی بنی تھی لیکن آج مملکت خداداد پاکستان کے حکمرانوں کو الحاد کا نہ یہ طوفان نظر آتا ہے اور نہ وہ اسے حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں، ہاں اگر آج بھی کوئی اس بند کو روکنا چاہتا ہے تو یہ کتاب یقینا اس کے لیے ایک اہم دستاویز ثابت ہوگی۔

باب چہارم: نیا نظامِ تعلیم

(یہ خطبہ ۵ ۔جنوری ۱۹۴۱ء کو دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنؤ کی انجمنِ اتحادِ طلبہ کے سامنے پڑھا گیا)
حضرات! خوش قسمتی سے آج مجھے اس جگہ اپنے خیالات کے اظہار کا موقع مل رہا ہے جہاں موجودہ دور میں سب سے پہلے اسلامی نظامِ تعلیم کی اصلاح کا خیال پیدا ہوا اور سب سے پہلا قدم اس کی طرف اُٹھایا گیا۔ اسی وجہ سے مَیں نے اس موقع کے لیے تعلیمی اصلاح ہی کے سوال کو اپنا موضوعِ بحث منتخب کر لیا ہے۔ میرے اس انتخاب میں ایک بڑا محرک یہ بھی ہے کہ اس وقت ہماری دینی درس گاہوں میں عموماً اصلاح کے مسئلے پر گفتگو چھڑی ہوئی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ضرورت کا احساس تو پیدا ہو گیا ہے مگر جس انداز سے یہ ساری گفتگو ہو رہی ہے، اس سے صاف عیاں ہے کہ اصلاح کی خواہش کرنے والے کے ذہن میں مسئلہ کی نوعیت کا کوئی واضح تصوّر نہیں ہے۔ لوگ اس گمان میں ہیں کہ پرانی تعلیم میں خرابی صرف اتنی ہے کہ نصاب بہت پرانا ہو گیا ہے اور اس میں بعض علوم کا عنصر بعض علوم سے کم یا زیادہ ہے اور جدید زمانہ کے بعض ضروری علوم اس میں شامل نہیں ہیں۔ اس لیے اصلاح کی ساری بحث صرف اس حد تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے کہ کچھ کتابوں کو نصاب سے خارج کرکے دوسری کتابوں کو داخل کر دیا جائے ،عناصر تعلیمی کے تناسب میں ترمیم کرکے بعض اجزا گھٹائے اور بعض بڑھائے جائیں اور قدیم علوم کے ساتھ تاریخ، جغرافیہ، معاشیات اور سیاسیات وغیرہ علوم کی کچھ کتابیں طلبہ کو پڑھائی جائیں۔ ایسی ہی کچھ جزوی ترمیمات، طرزِ تعلیم اورانتظامِ مدارس میں بھی تجویز کی جاتی ہیں اور بہت زیادہ ’’روشن خیالی‘‘ پر جو لوگ اتر آتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ صاحب ہر مولوی کو میٹرک تک انگریزی پڑھا کر نکالو تاکہ کم از کم پڑھنے اور لکھنے کے قابل تو ہو جائے۔ لیکن یہ جدّت جو آج دکھائی جا رہی ہے، یہ اب بہت پرانی ہو چکی ہے۔ اس کی عمر اتنی ہی ہے جتنی آپ کے دارالعلوم ندوۃ العلما کی عمر ہے۔ اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اگر کچھ ہو سکتا ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ پہلے سے کچھ زیادہ کام یاب قسم کے مولوی پیدا ہو جائیں، جو کچھ جرمنی اور امریکا کی باتیں بھی کرنے لگیں۔ اس ذرا سی اصلاح کا نتیجہ یہ کبھی نہیں نکل سکتا کہ دنیا کی امامت وقیادت کی باگیں علمائے اسلام کے ہاتھ میں آ جائیں، اور وہ دُنیا جو آج آگ کی طرف چلانے والے ائمہ (leaders) کے پیچھے چل رہی ہے۔ جنت کی طرف بلانے والے ائمہ کی راہ بری قبول کرنے پر مجبور ہو جائے۔ یہ نتیجہ اگر حاصل کرنا مقصود ہو تو آپ کو مکمل انقلابی اصلاحات کے لیے تیار ہونا پڑے گا اور اس سارے نظامِ تعلیم کو ادھیڑ کر از سر نو ایک دوسرا ہی نظامِ تعلیم بنانا ہو گا۔ اس صحبت میں اس نئے نظامِ تعلیم کا نقشہ آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔
علم اور امامت کارشتہ
سب سے پہلے یہ امر غور طلب ہے کہ اس دنیا میں امامت و قیادت (leadership) کا مدار آخر ہے کس چیز پر؟ کیا چیز ہے جس کی بِنا پر کبھی مصر امام بنتا ہے اوردنیا اس کے پیچھے چلتی ہے، کبھی بابل امام بنتا ہے اور دنیا اس کی پیروی کرتی ہے، کبھی یونان امام بنتا ہے اور دنیا اس کا اتباع کرتی ہے، کبھی اسلام قبول کرنے والی اقوام امام بنتی ہیں اور دنیا ان کے نقشِ قدم پر ہو لیتی ہے اور کبھی یورپ امام بنتا ہے اور دنیا اس کی متبع بن جاتی ہے؟ پھر وہ کیا چیز ہے جس کی وجہ سے امامت آج ایک کو ملتی ہے، کل اس سے چھن کر دوسرے کی طرف چلی جاتی ہے اور پرسوں اس سے بھی سلب ہو کر تیسرے کی طرف منتقل ہو جاتی ہے؟ کیا یہ محض ایک بے ضابطہ اتفاقی امر ہے یا اس کا کوئی ضابطہ اور اصل مقرر بھی ہے؟ اس مسئلہ پر جتنا زیادہ غور کیا جائے اس کا جواب یہی ملتا ہے کہ ہاں اس کا ضابطہ ہے اور وہ ضابطہ یہ ہے کہ امامت کا دامن ہمیشہ علم سے وابستہ رہے گا۔ انسان کو بحیثیت ایک نوع کے زمین کی خلافت ملی ہی علم کی وجہ سے ہے۔ اسے سمع، بصر اور فواد تین چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو دوسری مخلوقات ارضی کو یا تو نہیں دی گئیں یا اس کی بہ نسبت کم تر دی گئی ہیں، اس لیے وہ اس بات کا اہل ہوا کہ دوسری مخلوقات پر خداوند عالم کا خلیفہ بنایا جائے۔ اب خود اس نوع میں سے طبقہ یا گروہ علم کی صفت میں دوسرے طبقوں اور گروہوں سے آگے بڑھ جائے گا وہ اسی طرح ان سب کا امام بنے گا جس طرح انسان من حیث النوع دوسری انواعِ ارضی پر اسی چیز کی وجہ سے خلیفہ بننے کا اہل ہوا ہے۔
تقسیمِ امامت کا ضابطہ
اس جواب سے خود بخود دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ علم سے مراد کیا ہے؟ اور اس میں آگے بڑھنے اور پیچھے رہ جانے کا مفہوم کیا ہے؟ اس مسئلہ کا حل سمع، بصر اور فواد ہی کے الفاظ میں پوشیدہ ہے۔ کلامِ الٰہی میں تینوں لفظ مجرد سننے، دیکھنے اور سوچنے کے معنی میں استعمال نہیں ہوئے ہیں بلکہ سمع سے مراد دوسروں کی فراہم کردہ معلومات حاصل کرنا ہے۔ بصر سے مراد خود مشاہدہ کرکے واقفیّت بہم پہنچانا ہے اور فواد سے مراد ان دونوں ذرائع سے حاصل کی ہوئی معلومات کو مرتب کرکے نتائج اخذ کرنا ہے۔ یہی تین چیزیں مل کر وہ علم بنتا ہے جس کی قابلیّت انسان کو دی گئی ہے۔ برسبیل اطلاق اگر دیکھا جائے تو تمام انسان ان تینوں قوتوں سے کام لے رہے ہیں اور اسی وجہ سے مخلوقات ارضی پر خلیفانہ تسلّط ہر انسان کو حاصل ہے، ذرا زیادہ تفصیل کے ساتھ دیکھیے گا تو معلوم ہو گا کہ جو انسان انفرادی طور پر ان تینوں قوتوں سے کام لے رہے ہیں، وہ پست اور مغلوب رہتے ہیں، انھیں تابع اور مطیع بن کر رہنا پڑتا ہے، ان کا کام پیچھے چلنا ہوتا ہے، بخلاف اس کے جو ان تینوں سے زیادہ کام لیتے ہیں وہ برتر وغالب ہوتے ہیں، متبوع اور مطاع بنتے ہیں، راہ نمائی اور پیشوائی انھی کے حصے میں آتی ہے مگر امامت ملنے اور چھننے کا ضابطہ معلوم کرنے کے لیے آپ کو اس سے بھی زیادہ تفصیلی نگاہ ڈالنا ہو گی۔ اس تفصیلی نگاہ میں آپ کو یہ حقیقت نظر آئے گی کہ ایک گروہ انسانوں کا امامِ وقت بنتا ہے جب وہ ایک طرف ان معلومات کا زیادہ سے زیادہ حصہ جمع کرتا ہے جو ماضی اور حال کے انسانوں سے حاصل ہو سکتی ہیں۔ دوسری طرف خود اپنے مشاہدے سے مزید معلومات فراہم کرنے میں لگا رہتا ہے۔ تیسری طرف ان دونوں قسم کی معلومات کو مرتب کرکے ان سے نتائج اخذ کرتا ہے اور پھر ان نتائج سے کام لیتا ہے۔ پہلے کی جو چیزیں غلط… کم از کم اس کے اخذ کردہ نتائج کے لحاظ سے غلط ثابت ہوتی ہیں ان کی اصلاح کرتا ہے۔ پہلے کی جن چیزوں کا نقص کم از کم اس کے فہم کے لحاظ سے… اس پر کھلتا ہے، ان کی تکمیل کرتا ہے اور جو نئی چیزیں علم میں آتی ہیں ان سے اپنی حد وسع تک زیادہ سے زیادہ کام لینے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ صفات جب تک اس گروہ میں تمام دوسرے انسانی گروہوں سے زیادہ رہتی ہیں، وہی پوری نوع کا امام ہوتا ہے اور جو ان صفات کے اعتبار سے کم تر ہوتے ہیں ان کے لیے اللّٰہ کی ان مٹ تقدیر یہ ہے کہ وہ اس کی اطاعت بھی کریں اور اتباع بھی، اگر قسمت کی یاوری نے اطاعت سے بچا بھی لیا تو ان کے لیے اتباع سے تو کوئی مفر نہیں ہوتا، خواہ جان بوجھ کر بالارادہ کریں، خواہ بے جانے بوجھے اضطرارًا کریں۔ اس دور ِعروج کے بعد جب اس گروہ کے زوال کا وقت آتا ہے تو وہ تھک کر اور اپنے کیے ہوئے کام کو کافی سمجھ کر مشاہدے سے مزید معلومات حاصل کرنے اور فواد سے مزید اخذِ نتائج کی کوشش چھوڑ دیتا ہے اور اس کا تمام سرمایہ علمی صرف سمع سے حاصل شدہ معلومات تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔ اب اس کے لیے علم کے معنی صرف جاننے کے ہو جاتے ہیں کہ پہلے جو معلومات حاصل کی گئی تھیں اور جو نتائج اخذ کیے گئے تھے وہ کیا تھے۔ اب وہ غلط فہمی میں پڑ جاتا ہے کہ جو علم پہلے حاصل کیا جا چکا ہے وہ کافی ہے۔ اس میں کسی اضافہ کی گنجائش نہیں۔ پہلے جو نتائج اخذ کیے جا چکے ہیں وہ صحیح ہیں۔ ان میں کسی اصلاح وترقی کا موقع نہیں۔ پہلے جتنی تعمیر ہو چکی ہے وہ مکمل ہے۔ نہ اس میں ترمیم کی جا سکتی ہے اور نہ اس سے آگے مزید تعمیر ہی ممکن ہے۔ اس مرحلہ پر پہنچ کر یہ گروہ خود امامت سے ہٹ جاتا ہے اور نہ ہٹنا چاہے تو زبردستی ہٹا دیا جاتا ہے۔ پھر جو دوسرا گروہ مزید اکتسابِ علم، مزید اخذِ نتائج اور مزید تعمیرِ حیات کا عزم لے کر آگے بڑھتا ہے، امامت وقیادت اس کا حصہ ہوتی ہے اور وہ صاحب جو پہلے امام تھے اب مقتدی بنتے ہیں جو پہلے مطاع ومتبوع تھے اب مطیع وتابع بنتے ہیں جو پہلے جیتے جاگتے علم کے مالک اور استاد بنے ہوئے تھے اب عجائب خانۂ آثارِ قدیمہ میں بھیج دیے جاتے ہیں تاکہ بیٹھے علومِ اوائل کی تشریح کرتے رہیں۔
موجودہ اسلامی نظامِ تعلیم کا بنیادی نقص
اس مختصر بیان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امامت خواہ وہ آگ کی طرف لے جانے والی ہو یا جنت کی طرف، بہرحال اس گروہ کا حصہ ہے جو سمع وبصر وفواد کو تمام انسانی گروہوں سے بڑھ کر استعمال کرے۔ یہ انسان کے حق میں اللّٰہ کا بنایا ہوا اٹل ضابطہ ہے اور اس میں کوئی رو رعایت نہیں ہے۔ کوئی گروہ خدا شناس ہو یا ناخدا شناس، بہرحال وہ یہ شرط پوری کرے گا تو دنیا کا امام بن جائے گا اور نہ کرے گا تو مقتدی ہی نہیں بلکہ اکثر حالات میں مطیع بھی بننے سے نہ بچ سکے گا۔
آپ کو جس چیز نے امامت کے منصب سے ہٹایا اور ناخدا شناس اہل مغرب کو اس پر لا بٹھایا، وہ دراصل یہی ضابطہ ہے۔ آپ کے ہاں مدت ہائے دراز سے علم کی جو حالت تھی اس میں بصر و فواد دونوں معطل تھے اور سمع کا کام بھی صرف پہلے کی حاصل شدہ معلومات فراہم کرنے تک محدود تھا۔ بخلاف اس کے… ناخدا شناس یورپ علم کے میدان میں آگے بڑھا اور اس نے سمع سے بھی آپ سے بڑھ کر کام لیا اور بصر و فواد کا کام پچھلی ڈھائی تین صدیوں میں تمام تر اسی نے انجام دیا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہی ہونا تھا اور یہی ہوا کہ وہ امام بن گیا اور آپ مقتدی بن کر رہ گئے۔ آپ کی دینی تعلیم کے تمام مراکز ابھی تک اپنی اس غلطی پر اڑے ہوئے ہیں جس نے آپ کو اس درجہ پر پہنچایاہے۔ ان کے ہاں علم محض علومِ اوائل کے پڑھانے تک محدود ہے۔ ندوہ اور ازہر نے اصلاح کی طرف قدم بڑھایا مگر اس کا ماحصل صرف اس قدر ہے کہ سمع کا دائرہ حال کی معلومات تک بڑھا دیا جائے۔ بصر اور فواد پھر بھی معطل ہی رہے۔ اس علم کا فائدہ زیادہ سے زیادہ اگر کچھ ہو سکتا ہے تو وہ یہی ہے کہ آپ گھٹیا قسم کے نہ سہی بڑھیا قسم کے مقتدی بن جائیں۔ امامت بہرحال آپ کو نہیں مل سکتی۔ اس وقت تک جتنی اصلاحی تجویزیں میری نظر سے گزری ہیں وہ سب کی سب بہتر مقتدی بنانے والی ہیں۔ امام بنانے والی کوئی تجویز ابھی تک نہیں سوچی گئی۔ حالانکہ دنیا کی واحد خدا شناس جماعت ہونے کی وجہ سے آپ پر جو فرض عائد ہوتا ہے آپ اسے انجام نہیں دے سکتے، جب تک آپ ناخدا شناس لوگوں سے دنیا کی امامت کا منصب چھین کر خود اس پر قبضہ نہ کریں اور اس کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں ہے کہ آپ مجرد سماعی علم پر قناعت کا خیال چھوڑ دیں اور بصر وفواد سے نہ صرف کام لیں بلکہ اس میں دنیا کے تمام گروہوں پر فوقیت لے جائیں۔
کس قسم کی اصلاح درکار ہے؟
یہ جو میں نے عرض کیا ہے کہ دنیا کی واحد خداشناس جماعت ہونے کی حیثیت سے آپ پر جو فرض عائد ہوتا ہے اسے آپ انجام نہیں دے سکتے،جب تک یہ کام نہ کریں۔ یہ دراصل میری اس تمام بحث کا مرکزی نقطہ ہے اس لیے میں اس کی مزید تشریح کروں گا۔ اگر محض ایک انسانی گروہ ہونے کی حیثیت سے مطلقاً امام بننے کا سوال ہو تب تو آپ کو کسی اصلاح، تعلیم یا تجدیدِ نظامِ تعلیمی کی ضرورت نہیں۔ سیدھا راستہ کھلا ہوا ہے کہ علی گڑھ یونی ورسٹی یا مصر وایران وترکی کی سرکاری یونی ورسٹیوں کے طرزِ تعلیم کے میدان میں پیش قدمی فرمائیے اور اسی قسم کی امامت کے لیے امیدوار بن جائیے جیسی اس وقت یورپ اور امریکا کو حاصل ہے اورجس کے لیے اب جاپان مسابقت کر رہا ہے۔ مگر خدا شناس گروہ ہونے کی حیثیت سے آپ کی یہ پوزیشن نہیں ہے۔ آپ کی یہ پوزیشن ہرگز نہیں ہے کہ آپ محض اپنے لیے امامت چاہتے ہوں، خواہ وہ امامت داعیہ الی النار ہو یا داعیہ الی الجنۃ۔ یورپ سے آپ کا جھگڑا اس بات پر نہیں ہے کہ دنیا کا امام نہ رہے۔ اس کی جگہ آپ امام ہو جائیں۔ بلکہ اس سے آپ کا جھگڑا اصول اور مقصد کا جھگڑا ہے وہ ناخدا شناسی بلکہ خدا سے بغاوت اور طغیان کی بِنا پر دنیا کی امامت کر رہا ہے اور آگ کی طرف ساری دنیا کو لے جا رہا ہے۔ بخلاف اس کے آپ خدا شناس گروہِ انسانی ہیں۔ خدا کی اطاعت پر آپ کے مسلک کی بنیاد ہے۔ آپ کے ایمان کی رو سے آپ پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ نہ صرف خود آگ کے راستہ سے بچ کر جنت کے راستہ پر جائیں بلکہ دنیا کو بھی اسی راستہ پر چلائیں اور یہ فرض آپ اس وقت تک انجام نہیں دے سکتے ہیں۔ جب تک کہ آپ اس سے امامت چھین کر خود امام نہ بنیں۔ یہاں سوال نسلی یا جغرافیائی نہیں خالص اصولی ہے۔ ناخدا شناسی کی امامت اگر ترک یا ایرانی یا مصری یا ہندوستانی کی ہو تو وہ بھی اسی طرح مٹا دینے کے قابل ہے جس طرح فرنگی یا جاپانی کی۔ اورخدا شناسی کی بنیاد پر جو امامت ہو وہی مطلوب ہے خواہ اس کے علم بردار ہندی ہوں یا فرنگی ہوں یا کوئی اور۔
ناخدا شناس امامت کے نتائج
کسی امامت کے داعی الجنۃ یا داعی الی النار ہونے کا مدار اس کے خدا شناس یا نا خداشناس ہونے پر ہے ۔ جب کوئی ایسا گروہ جو خدا شناس نہ ہو اپنے عملِ اجتہاد کی بدولت دنیا کا امام بن جاتا ہے تو وہ تمام سمعی وبصری معلومات کو اس نقطۂ نظر سے جمع کرتا ہے ا ور اسی نقطۂ نظر کے مطابق انھیں مرتّب کرتا ہے کہ کائنات کا کوئی خدا نہیں ہے، انسان محض ایک غیر مسئول (irresponsible) ہستی ہے۔ دنیا کی جو چیزیں اس کے لیے مسخر ہیں وہ سب اس کی مِلک ہیں۔ جن سے کام لینے کا مقصد اور طریقہ متعین کرنے میں وہ خود مختار محض ہے اور اس کی تمام سعی وجہد کا منتہائے مقصود اس کے سوا کچھ نہیں کہ اپنی خواہشاتِ نفس کی خدمت کرے۔ معلومات کی اس اساس پر مرتب ہونے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حکمتِ نظری اور حکمتِ عملی دونوں کی نشوونما خدا پرستی کی بالکل مخالف سمت میں ہوتا ہے۔ یہی حکمت تمام دنیا کے قلوب واذہان پر چھا جاتی ہے۔ اسی سے خالص مادہ پرستانہ اخلاقیات پیدا ہوتے ہیں، اسی پر انسان اور انسان کے درمیان تعلق کے تمام ضابطے بنتے ہیں۔ اسی کے مطابق انسان اپنی حاصل شدہ قوتوں کا مصرف متعین کرتا ہے اور فی الجملہ ساری انسانی زندگی کا بہائو اسی راستہ کی طرف چل پڑتا ہے جس کی آخری منزلوں پر پہنچ کر اس دنیا ہی سے عذابِ جہنم کی ابتدا ہو جاتی ہے جیسا کہ آج آپ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ نا خداشناس حکمت جب تک دنیا کے افکار، اخلاق، تمدن ہر چیز پر چھائی رہتی ہے، خدا شناسی کے نقطۂ نظر اور اس اخلاق وتمدن کے لیے جو اس نقطۂ نظر پرمبنی ہو، زمین وآسمان کے درمیان کوئی جگہ نہیں رہتی، لوگوں کے سوچنے کا انداز اس کے خلاف ہوتا ہے۔ طبائع کی افتاد اور مزاجوں کی پسند اس کے خلاف ہوتی ہے۔ انسانی معلومات کی بگڑی ہوئی ترتیب اس کے خلاف شہادت دیتی ہے۔ اخلاق کے سارے اصول اور قدر وقیمت کے سارے معیار اس سے منحرف ہو جاتے ہیں، زندگی کے تمام ضابطے اور انسانی سعی وعمل کے سارے ہنگامے اسے اپنے درمیان جگہ دینے سے انکار کر دیتے ہیں اور اس صورتِ حال میں صرف یہی نہیں ہوتا کہ خدا پرستی کے مسلک کی ہر چیز دنیا میں نامقبول اورنامعقول ہو کر رہ جاتی ہے، بلکہ خود وہ لوگ جو اس مسلک کی پیروی کا دعوٰی کرتے ہیں فی الواقع اس کی پیروی نہیں کر سکتے۔ زندگی کے دریا کا بہائو زبردستی کھینچ کر انھیں اپنے راستے پر لے جاتا ہے اور اس کے خلاف زیادہ سے زیادہ کش مکش وہ بس اتنی ہی کر سکتے ہیں کہ سر کے بل بہنے کی بجائے احتجاجاً پائوں کے بَل بہیں۔
جو گروہ خیالات کے میدان میں امام بنتا ہے اور کائنات فطرت کی طاقتوں کو اپنے علم سے مسخر کرکے ان سے کام لیتا ہے۔ اس کی امامت صرف خیالات ہی کے عالم تک محدود نہیں رہتی بلکہ زندگی کے پورے دائرے پر چھا جاتی ہے۔ زمین پر اس کا تسلّط ہوتا ہے۔ رزق کی کنجیاں اس کے قبضہ میں ہوتی ہیں۔ حاکمانہ اختیارات اسے حاصل ہوتے ہیں۔ اس لیے انسانی حیاتِ اجتماعی کا سارا کاروبار اس ڈھنگ اور اس نقشے پر چلنے لگتا ہے جس پر وہ گروہ اپنی ذہنیت اور اپنے زاویۂ نظر کے مطابق اسے چلانا چاہتا ہے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ اگر وہ گروہ جسے یہ تسلّط دنیا اور اس کے معاملات پر حاصل ہے، خدا سے پھرا ہوا ہو تو اس حیطۂ اقتدار میں رہتے ہوئے کوئی ایسا گروہ پنپ نہیں سکتا جو خدا کی طرف پھرنا چاہتا ہو۔ جس گاڑی میں آپ بیٹھے ہوئے ہیں اگر اس کا ڈرائیور اسے کلکتے کی طرف لے جا رہا ہو تو آپ کراچی کی طرف جا ہی کب سکتے ہیں۔ چار وناچار آپ کو اُسی طرف جانا پڑے گا جدھر ڈرائیور جانا چاہتا ہے۔ آپ بہت بگڑیں گے تو اتنا کر لیں گے کہ اسی گاڑی میں بیٹھے ہوئے اپنا رخ کلکتے سے کراچی کی طرف پھیر لیں اور برضا و رغبت نہ سہی کشاں کشاں اس منزل پر جا پہنچیں جو آپ کی منزلِ مقصود کے عین مخالف سمت میں واقع ہے۔
موجودہ صورتِ حال
یہی صورتِ حال فی الواقع اس وقت درپیش ہے۔ آپ کے امامت سے ہٹنے کے بعد یورپ نے علم کے میدان میں پیش قدمی کی تو ناگزیر اسباب نے اس کی نگاہ کا زاویہ خدا سے بیزاری (theophobia) کی طرف پھیر دیا۔ اسی نقطہ نظر سے اس نے تمام سمعی معلومات کو جمع کیا، اسی نقطۂ نظر سے اس نے آثارِ کائنات کا مشاہدہ کیا۔ اسی نقطۂ نظر سے اس نے معلومات کو مرتّب کرکے نتائج اخذ کیے۔
اسی نقطہ نظر سے اس نے زندگی کے مقاصد، اخلاق کے اصول، تمدن کے ضوابط اور انفرادی واجتماعی برتائو کے ڈھنگ متعین کیے اور اسی نقطۂ نظر سے اس نے تمام قوتوں کے مصرف تجویز کیے جو اسے تحقیق واجتہاد کی بدولت حاصل ہوئی تھیں۔ پھر جب اس علم کے زور پر وہ اٹھا تو ایک طرف زمینیں کی زمینیں اور قومیں کی قومیں اس کے آگے مسخر ہوتی چلی گئیں اور دوسری طرف وہی علم، وہی ذہنیت، وہی مقاصد، وہی فکری ساخت، وہی اخلاقی روش، وہی تمدنی قواعد وضبواط، غرض وہی سب کچھ جو اس امامِ غالب کے پاس تھا تمام دنیا پر چھا گیا۔ اب حال یہ ہے کہ ایک بچہ جب سے ہوش سنبھالتا ہے اسی وقت سے اس کے ذہن اور اس کی زندگی کی تعمیر اس نقشہ پر ہونے لگتی ہے جو یورپ کی امامت نے بنایا ہے۔ سمعی معلومات اسی ترتیب سے اس کے دماغ میں اترتی ہیں۔ مشاہدے کے لیے وہی نقطۂ نظر اسے ملتا ہے۔ نتائج اخذ کرنے کی ساری تربیت اسی طرز پر اسے حاصل ہوتی ہے۔ حق وباطل، صحیح وغلط، مقبول اور مردود کی تعیین کے لیے وہی معیار اسے میّسر آتا ہے، اخلاق کے وہی اصول، زندگی کے وہی مقاصد اور سعی وعمل کے وہی راستے اس کے سامنے روشن ہوتے ہیں، اپنے گرد وپیش زندگی کا سارا کارخانہ اسی ڈھنگ پر اسے چلتا ہوا ملتا ہے اور جب وہ اس طرح پروان چڑھنے کے بعد چراگاہِ حیات میں حصہ لینے کے لیے تیار ہوتا ہے تو چوں کہ یہی ایک مشین دنیا میں چل رہی ہے اور کوئی دوسری مشین چلنے والی موجود نہیں ہے اس لیے اسی کا پرزہ اسے بن جانا پڑتا ہے۔ ناخدا شناس تہذیب وتمدن کے اس کامل تسلّط میں اوّل تو یہی سخت مشکل ہے کہ خدا پرستانہ نظریہ حیات، مقصدِ زندگی اور اصولِ اخلاق کو دلوں اور دماغوں میں راہ مل سکے کیوں کہ علوم وفنون کی ساری ترتیب اور زندگی کی روش اس کے بالکل برعکس سمت میں پھری ہوئی ہے لیکن اگر کچھ لوگ ایسے بھی نکل آئیں جن کے ذہن میں یہ تخم جڑ پکڑ لے تب بھی گرد وپیش کی پوری فضا اسے غذا دینے سے انکار کر دیتی ہے اسے نہ کہیں علوم سے تائید ملتی ہے، نہ زندگی کے بنے اور جمے ہوئے نقشے اس کا ساتھ دیتے ہیں، نہ دنیا کے چلتے ہوئے معاملات ہی میں کہیں اس کی جگہ نظر آتی ہے۔ جس قدر معلومات گزشتہ پانچ سو برس کی مدت میں انسان کو حاصل ہوئی ہیں، ان کومرتّب کرنے اور ان سے نتائج اخذ کرنے کا سارا کام ناخداشناس لوگوں نے کیا ہے۔ خدا پرستی کے نقطہ نظر سے ان کی ترتیب کا اور اخذِ نتائج کا کوئی کام ہوا ہی نہیں۔ فطرت کی جو طاقتیں اس دوران میں انسان کے لیے مسخر ہوئیں اور قوانینِ طبعی کی مزید دریافت سے جو فوائد حاصل ہوئے ہیں، ان سے بھی خدا پرستوں نے نہیں بلکہ خدا کے باغیوں نے کام لیا۔ اس لیے ناگزیر تھا کہ تمدنِ انسانی میں ان سب کا مصرف وہی مقرر ہوتا جو ان کے مقاصد ِزندگی اور اصولِ اخلاق کے مناسب حال تھا۔ اسی طرح اجتماعی معاملات کی تنظیم کے جتنے فطری خاکے اور عملی طریقے اس دوران میں سوچے اور عملاً چلائے گئے ان سب کے سوچنے اور چلانے والے وہ دماغ اور وہ ہاتھ نہ تھے جن پر خدا پرستی کا مسلک کارفرماں روا ہوتا بلکہ وہ تھے جو خدا کی اطاعت سے منحرف تھے اس لیے نظریات اور عملیات کے میدان پر آج سارے کے سارے وہی نقشے چھائے ہوئے ہیں جو انھوں نے بنائے ہیں اور ایسا کوئی نقشہ جو خدا پرستانہ مسلک کی بنیاد پر بنا ہو تو کیا موجود ہوتا، نظریہ کی شکل میںبھی ایسی ترتیب کے ساتھ مرتّب نہیں ہے جوآج کے حالات سے ربط رکھتا ہو اور جس میں آج کے مسائلِ حیات کا پورا پورا حل مل سکے۔ اب اگر اس مسلک پر اعتقاد رکھنے والا کوئی شخص راہب بن کر دنیا اور اس کی زندگی سے الگ تھلگ کسی گوشے میں جا بیٹھے اور پانچ سو برس پہلے کی فضا اپنے اوپر طاری کر لے تب تو بات دوسری ہے۔ ورنہ اس دنیا کے معاملات میں ایک زندہ انسان کی حیثیت سے حصہ لینے کی صورت میں تو قدم قدم پر اس کے لیے مشکلات ہی مشکلات ہیں اپنے مسلک میں نیک نیت اور صحیح الاعتقاد ہونے کے باوجود بارہا وہ دانستہ ان فکری اورعملی راہوں پر چل پڑتا ہے جو اس کے مسلک سے بالکل مختلف ہیں۔نئی معلومات جب اس کے سامنے آتی ہیں تو اس کے لیے سخت دشوار ہوتا ہے کہ حقائق (facts) کو ان ناخداشناس لوگوں کے نقطۂ نظر اور اخذ کردہ نتائج سے الگ کر سکے جنھوں نے ان کی دریافت ترتیب اور استنتاج کا سارا کام انجام دیا ہے۔ اس لیے اکثر وہ اس طرح حقائق کے ساتھ ان کے نظریات اور نتائج کو بھی ہضم کر جاتا ہے کہ اسے اس امر کا شعور تک نہیں ہوتا کہ امرت کے ساتھ کتنا زہر اس کے اندر اتر گیا۔ اسی طرح زندگی کے معاملات سے جب اسے واسطہ پیش آتا ہے تو وہ سخت مشکل میں پڑ جاتا ہے کہ کون سی راہ اختیار کرے۔ بہت سے اجتماعی نظریات جو فی الاصل اس کے مسلک کے خلاف ہیں، اس کے دل ودماغ پر زبردستی چھا جاتے ہیں کیوں کہ دنیا میں ہر طرف چلن ہی ان کا ہے۔ بہت سے عملی طریقوں کو غلط سمجھنے کے باوجود محض اس بنا پر وہ اختیار کرتا ہے کہ ان سے ہٹ کر وہ کوئی دوسری راہ سوچ نہیں سکتا اور بہت سی غلط راہوں پر اسے مجبورًا چلنا پڑتا ہے کہ ان پر چلے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے۔
انقلابِ امامت کے لیے انقلابِ تعلیم ناگزیر ہے
حضرات یہ ہے وہ صورتِ حال جس میں اس وقت آپ مبتلا ہیں۔ مَیں نے اس صورتِ حال کا جو تجزیہ کیا ہے اگر اس میں کوئی غلطی آپ پاتے ہیں تو براہ کرم مجھے بھی اس سے آگاہ کریں تاکہ اس پر نظرثانی کر سکوں لیکن اگر یہ تجزیہ صحیح ہے تو اس سے حسبِ ذیل نتائج نکلتے ہیں:
اولاً: ناخدا شناس ائمہ کی امامت میں رہ کر خداشناسی وخدا پرستی کا مسلک زندہ نہیں رہ سکتا۔ لہٰذا جو کوئی اس مسلک پر اعتقاد رکھتا ہو اس کے عین ایمان واعتقاد کا اقتضا یہ ہے کہ اس امامت کو مٹانے اور خدا شناس امامت کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے تیار ہو جائے۔
ثانیاً: جونظامِ تعلیم محض پرانے سمعی علوم کی حد تک محدود ہے۔ اس میں یہ طاقت ہرگز نہیں ہے کہ امامت میں اتنا بڑا انقلاب پرپا کرنے کے لیے آپ کو تیار کرسکے۔ لہٰذا اگر آپ اس پر راضی ہوں کہ خدا پرستی کا مسلک بتدریج مٹتے مٹتے دنیا سے فنا ہو جائے تب تو شوق سے اس نظامِ تعلیم پر جمے رہیں ورنہ اسے آپ کو بدلنا ہو گا۔
ثالثاً: جو نظامِ تعلیم تمام علوم کو اسی ترتیب اور اسی زاویہِ نظر سے لیتا ہے جو خدا شناس ائمہ کی تربیت اور ان کا زاویہ نظر ہے اور جو اس تمدنی مشین کا پرزہ بننے کے لیے انسانوں کو تیار کرتا ہے جو ائمہ ضلال نے بنائی ہے، وہ دراصل ارتداد کا مجرب نسخہ ہے اس سے بڑھ کر کوئی فریب نہیں ہو سکتا کہ اس نوعیت کی کسی تعلیم گاہ پر مسلم یونی ورسٹی یا اسلامیہ کالج یا اسلامیہ ہائی اسکول کے الفاظ کا اطلاق کیا جائے اور اس تعلیم کے ساتھ دینیات کے کسی کورس کو الگ سے جوڑ دینا ۹۵ فی صدی توبالکل ہی لاحاصل ہے اور ۵ فی صدی فائدہ اگر اس سے حاصل ہو بھی سکتا ہے تو وہ بیش ازیں نیست کہ لوگ کچھ مدت تک کفر کے راستے پر خدا کا نام لیتے ہوئے چلتے رہیں۔
رابعاً: اصلاحِ تعلیم کا یہ لائحہ کہ علوم اسلامی کے ساتھ نئے علوم کا جوڑ لگایا جائے یہ بھی امامت میں انقلاب پیدا کرنے کے لیے آپ کو تیار نہیں کرسکتا۔ اس لیے کہ فلسفہ، سائنس، تاریخ، سیاست، معاشیات، اور دوسرے علوم جو اس وقت مدون ومرتب صورت میں آپ کو ملتے ہیں وہ سب کے سب ناخدا شناس لوگوں کی فکر وتحقیق کا نتیجہ ہیں اور ان کی ترتیب وتدوین میں اس گروہ کا نقطۂ نظر اس طرح پیوست ہے کہ حقائقِ واقعہ کو نظریات اور اوہام وتعصّبات اور اہوا ورجحانات سے الگ چھانٹ لینا اور خدا پرستی کے نقطۂ نظر سے انھیں بطور خود مرتب کرکے دوسرے نظریات قائم کرنا، نہ ہر طالب علم کے بس کی بات ہے نہ ہر استاد کے بس کی۔ اب اگر آپ ایک طرف پرانے علوم کو پرانی ترتیب کے ساتھ اور نئے علوم کو اس خاص ترتیب کے ساتھ جو اس وقت پائی جاتی ہے، ملا کر پڑھائیں گے تو ان دو متضاد طاقتوں کے میل سے عجیب وغریب قسم کے مرکبات پیدا ہوں گے، کوئی پرانے علوم سے مغلوب ہو گا تو مولوی بن جائے گا، کوئی نئے علوم سے مفتوح ہو گا تو مسٹریّت کی طرف چلا جائے گا بلکہ ’’کامریڈیت‘‘ تک جا پہنچے گا، کوئی دونوں کے درمیان تذبذب ہو کر مضمحل ہو جائے گا۔ بہت ہی کم آدمی اس نظامِ تعلیمی سے ایسے نکل سکتے ہیں جو دونوں قسم کے علوم کو جوڑ کر کوئی صحیح مرکب بنا سکیں اور ان کا بھی اس قدر طاقت ور ہونا بہت مشکل ہے کہ اٹھ کر خیالات اور زندگی کے دھارے کو ایک طرف سے دوسری طرف پھیر دیں۔
یہ نتائج جو میں نے حالات کے تجزیہ سے اخذ کیے ہیں اگر ان میں سے کوئی غلط ہو تو میں پھر عرض کرتا ہوں کہ آپ مجھے اس سے آگاہ فرمائیں، لیکن اگر نتائج کو بھی آپ تسلیم کرتے ہیں تو اب میں کہتا ہوں کہ امامت میں انقلاب برپا کرنے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ ان تینوں نظامات تعلیمی سے ہٹ کر ایک بالکل نیا نظامِ تعلیم بنایا جائے جس کا نقشہ ابتدائی تعلیم سے لے کر انتہائی مدارج تک تینوں سے مختلف ہو۔
نئے نظامِ تعلیم کا خاکہ
اس انقلابی اصلاح کی ضرورت ثابت کرنے کے بعد میں اس نظام تعلیم کا ایک خاکہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں:
پہلی خصوصیت
سب سے پہلی چیز جو اس نئے نظام میں ہونی چاہیے، وہ یہ ہے کہ دینی اور دنیوی علوم کی انفرادیت مٹا کر دونوں کو ایک جان کر دیا جائے۔
علوم کو دینی اور دنیوی دو الگ الگ قسموں میں منقسم کرنا دراصل دین اور دنیا کی علیحدگی کے تصوّر پر مبنی ہے اور یہ تصوّر بنیادی طور پر غیر اسلامی ہے۔ اسلام جس چیز کو دین کہتا ہے وہ دنیا سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔ بلکہ دنیا کو اس نقطۂ نظر سے دیکھنا کہ یہ اللّٰہ کی سلطنت ہے اوراپنے آپ کو یہ سمجھنا کہ ہم اللّٰہ کی رعیّت ہیں، اور دنیوی زندگی میں ہر طرح سے وہ رویہّ اختیار کرنا جو اللّٰہ کی رضا اور اس کی ہدایت کے مطابق ہو، اسی چیز کا نام دین ہے۔ اس تصورِ دین کا اقتضا یہ ہے کہ تمام دنیوی علوم کو دینی علوم بنا دیا جائے ورنہ اگر کچھ علوم دنیوی ہوں اور وہ خدا پرستی کے نقطہ نظر سے خالی رہیں اور کچھ علوم دینی ہوں اور وہ دنیوی علوم سے الگ پڑھائے جائیں تو ایک بچہ شروع ہی سے اس ذہنیت کے ساتھ پرورش پائے گا کہ دنیا کسی اور چیز کا نام ہے اور دین کسی اور چیز کا۔ اس لیے یہ دونوں دو مختلف عنصر ہوں گے اور ان کے درمیان توافق پیدا کرکے ایک ایسی ہموار زندگی بنانا اس کے لیے مشکل ہو گا جو ادخلوا فی السلم کآفۃ کی مصداق ہو سکے۔
مثال کے طور پر اگر آپ تاریخ، جغرافیہ، طبیعات، کیمیا، حیاتیات (biology) حیوانیات (zoology) ارضیات (geology) ریاضی ہیئت (astronomy) معاشیات (economics) سیاسیات اور دوسرے تمام علوم ایک شخص کو اس طرح پڑھاتے ہیں کہ اوّل سے آخر تک کسی جگہ خدا کا نام نہیں آتا، نہ آفاق وانفس کے آثار پر اس حیثیت سے نظر ڈالی جاتی ہے کہ یہ آیاتِ الٰہی ہیں، نہ قوانینِ طبعی کا ذکر اس حیثیت سے کیا جاتا ہے کہ یہ ایک حکیم کے بنائے ہوئے قوانین ہیں، نہ واقعات کی توجیہ اس حیثیت سے کی جاتی ہے کہ ان میں کسی قادر وتوانا کا ارادہ کام کر رہا ہے۔ نہ عملی علوم میں اس مقصد کا کہیں نشان پایا جاتا ہے کہ ان سے خدا کی رضا کے مطابق کام لینا ہے نہ معاملاتِ زندگی کی بحث میں اس ضابطہ کا کہیں بیان آتا ہے جو انھیں چلانے کے لیے خدا نے بنایا ہے نہ سرگزشتِ حیات میں اس کے الٰہی مبدا وغایت کی بحث کسی جگہ آتی ہے تو علوم کے اس پورے مجموعہ سے اس کے ذہن میں دنیا اور اس کی زندگی کا جو تصور پیدا ہو گا وہ خدا کے تصور سے بالکل خالی ہو گا، ہر چیز سے اس کا تعارف خدا کے بغیر ہو گا اور ہر معاملہ میں وہ اپنا راستہ خدا اور اس کی رضا سے الگ بنائے گا۔ پھر جب تمام شعبوں سے یہ نقطۂ نظر اور معلومات کی یہ ترتیب لیے ہوئے ایک شعبہ میں جا کر وہ الگ سے خدا کا ذکر سنے گا اور ان مقاصدِ زندگی اور ان قوانینِ اخلاقی اور ان ضوابط شرعی کی تعلیم حاصل کرے گا جنھیں آپ دینیات کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں تو اس کی سمجھ میں نہ آئے گا کہ اس نقشہ میں خدا کو اور اس سے تعلق رکھنے والی ان ساری چیزوں کو کہاں جگہ دوں پہلے تو اسے خدا کی ہستی کا ثبوت درکار ہو گا۔ پھر وہ اس بات کا ثبوت مانگے گا کہ مجھے اس کی ہدایت درکار بھی ہے اور اس کے پاس سے ہدایت آئی بھی ہے یا نہیں؟ اور ان سب باتوں کے بعد بھی اس کے لیے اپنی دنیوی معلومات کو اس نئی چیز کے ساتھ یک جان کرکے ہم رنگ نقشہ بنانا مشکل ہو گا۔ وہ خواہ کتنا ہی پختہ ایمان لے آئے مگر بہرحال اس کے لیے دین عین اس کی زندگی نہ ہو گا۔ بلکہ زندگی کا ایک ضمیمہ ہی بن کر رہ جائے گا۔
یہ ساری خوبی دینی اور دنیوی علوم کی تقسیم کا نتیجہ ہے اور جیسا کہ میں ابھی عرض کر چکا ہوں، یہ تقسیم بالکل اسلامی نقطۂ نظر کے خلاف ہے، نئے نظامِ تعلیم میں دینیات کے الگ کورس کی ضرورت نہیں، بلکہ سارے کورس کو دینیات کے کورس میں تبدیل کر دینا چاہیے۔ شروع ہی سے ایک بچے کو دنیا سے اس طرح روشناس کرائیے کہ گویا وہ خدا کی سلطنت میں ہے، اس کے اپنے وجود میں اور تمام آفاق میں خدا کی آیات پھیلی ہوئی ہیں، ہر چیز میں وہ خدا کی حکمت اور قدرت کے آثار دیکھ رہا ہے، اس کا اور ہر شے کا براہِ راست تعلق خداوند عالم سے ہے جو آسمانوں سے زمین تک تمام معاملاتِ دنیا کی تدبیر کر رہا ہے۔ دنیا میں جتنی قوتیں اسے حاصل ہیں اورجو اشیا اس کے لیے مسخر ہیں، سب کی سب خدا نے اسے دی ہیں۔ ان سب سے خدا کی مرضی کے مطابق اور اس کے بتائے ہوئے طریقہ پر اسے کام لینا ہے اوراپنے اس کام کی جواب دہی خدا کے سامنے اسے کرنی ہے۔
ابتدائی مراحل میں تو کوئی دوسرا نقطۂ نظر طالب علم کے سامنے آنا ہی نہیں چاہیے البتہ بعد کے مراحل میں تمام علوم اس کے سامنے اس طرح آنے چاہییں کہ معلومات کی ترتیب، حقائق کی توجیہ اور واقعات کی تعبیر تو بالکلیہ اسلامی نقطہ نظر سے ہو، مگر اس کے مخالف تمام دوسرے نظریات بھی پوری تنقید وتنقیح کے ساتھ اس حیثیت سے اس کے سامنے رکھ دیے جائیں کہ یہ ضالین اور مغضوب علیہم کے نظریات ہیں۔ اسی طرح عملی زندگی سے تعلق رکھنے والے جملہ علوم کی بنیاد میں تو مقصدِ حیات، اصولِ اخلاق، اور مناہجِ عملِ اسلام کے پیوست کیے جائیں اور دوسروں کے اصول اور طریقے اس حیثیت سے طالب علم کو پڑھائے جائیں کہ ان کی فکری اساس، منزلِ مقصود اور راہِ عمل اسلام سے کتنی اور کس کس پہلو سے مختلف ہے۔ یہ طریقہ ہے تمام علوم کودینی علوم میں تبدیل کرنے کا اور جب اس طریقہ سے تعلیم دی جائے تو ظاہر ہے کہ اس میں دینیات کے لیے کسی علیحدہ کورس کی کوئی حاجت ہی پیش نہیں آ سکتی۔
دُوسری خصوصیت
دوسری اہم خصوصیت جو اس نظامِ تعلیم میں ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ اس میں ہر طالب علم کو مجموعہ علوم بنانے اور تکمیل کے بعد ہرایک کو ’’مولانا‘‘ اور ہر ایک کو جملہ مسائل میں فتوٰی کا مجاز قرار دینے کا وہ طریقہ جو اب تک رائج ہے ختم کر دیا جائے اور اس کی جگہ اختصاصی تعلیم کا وہ طریقہ اختیار کیا جائے جو سال ہا سال کے تجربات کے بعد دنیا میں مفید پایا گیا ہے۔ انسان کا علم اب اتنی ترقی کر چکا ہے اور اتنے شعبے اس میں پیدا ہو گئے ہیں کہ کسی ایک شخص کا ان سب کو پڑھنا محال ہے اور اگر تمام علوم میں محض معمولی سی شد بد اسے کرا دی جائے تو وہ کسی شعبہ علم میں بھی کامل نہیں ہو سکتا۔ اس کی بجائے بہتر یہ ہے کہ پہلے آٹھ یا دس سال کا کورس ایسا رکھا جائے کہ ایک بچے کو دنیا، انسان اور زندگی کے متعلق جتنی معلومات کم از کم حاصل ہونی ضروری ہیں وہ اسے خالص اسلامی نقطۂ نظر سے دے دی جائیں۔ اس کے ذہن میں کائنات کا وہ تصور بیٹھ جائے جو مسلمان کا تصور ہونا چاہیے۔ زندگی کا وہ خاکہ جم جائے جو ایک مسلمان کی زندگی ہونی چاہیے۔ عملی زندگی کے متعلق وہ تمام معلومات اسے حاصل ہو جائیں جن کی ایک آدمی کو ضرورت ہوتی ہے اور وہ ان سب چیزوں کو ایک مسلمان کے طریقے پر برتنے کے لیے تیار ہوجائے، اسے اپنی مادری زبان بھی آ جائے، عربی زبان بھی وہ اتنی جان لے کہ آگے مزید مطالعہ میں اسے مدد مل سکے اور کسی ایک یورپین زبان سے بھی واقف ہو جائے تاکہ معلومات کے اس وسیع ذخیرے سے فائدہ اٹھا سکے جو ان زبانوں میں موجود ہے۔ اس کے بعد اختصاصی تعلیم کے الگ کورس ہوں جن میں چھے سات سال کی محققانہ تربیت حاصل کرکے ایک طالب علم اس شعبہ علم کا ڈاکٹر قرار دیا جائے جس کی تعلیم اس نے حاصل کی ہے۔ مثال کے طور پر میں چند شعبوں اور ان کے طریقِ تعلیم کی تشریح کروں گا جس سے آپ اندازہ کر سکیں گے کہ میرے ذہن میں اس اختصاصی تعلیم کا کیا نقشہ ہے۔
ایک شعبہ فلسفہ اور علومِ عقلیہ کے لیے مخصوص ہونا چاہیے۔ اس شعبہ میں طالب علم کو پہلے قرآن کا علم پڑھایا جائے، تاکہ اس ذریعے سے وہ معلوم کرے کہ انسانی حواس سے جو چیزیں محسوس ہوتی ہیں ان کی تہ میں حقائق کی جستجو کرنے کی کیا سبیل ہے۔ عقلِ انسانی کی رسائی کہاں تک ہے اور کِن حدود سے وہ محدود ہے۔ مجرد استدلال پر تخیلات کی عمارت کھڑی کرنے میں کس طرح انسان واقعات اور حقیقت کی دنیا سے الگ ہو کر خیالات کی تاریک دنیا میں گم ہو جاتا ہے۔ مابعد الطبیعی امور کے متعلق کتنا علم انسان کے لیے فی الواقع ضروری ہے۔ اس ضروری علم تک پہنچنے کے لیے مشاہدہ (observation) اور استقرا (inducation) سے کس طرح کام لینا چاہیے۔ کن امور مابعد الطبیعی کا تعین ہم کر سکتے ہیں۔ کن کے متعلق ایک مجمل اور مطلق حکم سے آگے ہم نہیں بڑھ سکتے اور کہاں پہنچ کر اجمال کو تفصیل سے بدلنے یا اطلاق کو تقلید میں تبدیل کرنے کی کوشش نہ صرف بے بنیاد ہو جاتی ہے بلکہ انسان کو تخیلاتِ لاطائل کی بھول بھلیوں میں بھٹکا دیتی ہے۔ اس بنیاد کو مستحکم کر لینے کے بعد طالب علم کو تاریخ فلسفہ کا مطالعہ کرایا جائے اور یہاں قرآنی فلسفہ کی مدد سے اسے تمام مذاہب فلسفہ کی سیر کرا دی جائے تاکہ وہ خود دیکھ لے کہ حقائق تک پہنچنے کے جو ذرائع انسان کو دیے گئے تھے ان سے کام نہ لے کر یا ان سے غلط طریقہ پر کام لے کر کس طرح انسان بھٹکتا رہا ہے۔ کس طرح اس نے اوہام کی حقیقت کو سمجھا ہے اور اس سے کس طرح اس نے اپنی پہنچ سے ماورا چیزوں کے متعلق رجماً بالغیب کا حکم لگایا اور اس کے کیا اثرات زندگی پر مرتب ہوئے۔ کس طرح اس نے اپنے حواس اور اپنی عقل کی حدود کا تعین کیے بغیران حقیقتوں کا تعین کرنے میں اپنا وقت ضائع کیا جن کا تعین اس کے بس کی چیز ہی نہ تھا۔ کہاں ہندو فلسفیوں نے ٹھوکر کھائی، کہاں سے یونانی فلسفہ بھٹکا، کِدھر مسلمان فلاسفہ قرآن کی بتائی ہوئی راہوں سے ہٹ کر نکل گئے، متکلمین کے مختلف اسکولوں نے صدیوں تک جن مسائل پر بحثیں کیں، ان میں قرآن کی راہ نمائی سے کہاں کہاں اور کتنا کتنا تجاوز تھا۔ فلسفیانہ تصوف کے مختلف مذاہب نے مجمل اور مفصّل اور مطلق کومقید بنانے کی کس طرح کوششیں کیں اور وہ کس قدر غلط تھیں۔ یورپ میں فلسفیانہ تفکر نے کیا کیا راہیں اختیار کیں، ایک ہی حقیقت کی جستجو میںکتنے مذہب بن گئے، ان مختلف مذاہب میں حق کتنا ہے اور باطل کی آمیزش کتنی ہوئی اور کن راہوں سے آئی، کون سے مابعد الطبیعی تصوّرات ہیں جنھوں نے یورپ کی جڑ پکڑ لی ہے۔ ان سے اخلاق واعمال پر کیا اثرات مرتّب ہوئے ہیں اور اگر کتاب اللّٰہ کی راہ نمائی سے فائدہ اٹھایا جاتا تو فضول دماغی کاوشوں میں وقت ضائع کرنے اور غلط بنیادوں پر زندگی کی تعمیر کرنے سے کس طرح دنیا بچ سکتی تھی۔ اس تمام مطالعہ کے بعد طالب علم اپنی تحقیق کے نتائج مرتب کرے اور جب اہل علم کی جرح وتنقید کے بعد وہ اپنا کامل الفن ہونا ثابت کر دے تو اسے فلسفہ میں فضیلت کی سند دے کر چھوڑ دیا جائے۔
ایک تیسرا شعبہ تاریخ کا ہونا چاہیے جس میں قرآن کا فلسفہ، تاریخ، مقصد مطالعہ تاریخ، اور طرز مطالعہ تاریخ طالب علم کے ذہن نشین کرایا جائے تاکہ اس کے قلب سے تمام تعصّبات نکل جائیں۔ وہ حقائق کو بے رنگ نگاہ سے دیکھنے اور ان سے بے لاگ نتائج اخذ کرنے کے لیے مستعد ہو جائے۔ نوع انسان کی سرگزشت اور تہذیبِ انسانی کی نشووارتقا کا مطالعہ کرکے انسان کی فلاح وخسران اور سعادت وشقاوت اور عروج وزوال کے مستقل اصول مستنبط کرے۔ مداواتِ ایام بین الناس جس ڈھنگ پر اور جس ضابطہ کے مطابق ہوتی ہے اسے معلوم کرے، جو اوصاف انسان کو اوپر اٹھاتے ہیں اور جو اسے نیچے گرا دیتے ہیں ان سے واقف ہو اورخود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر لے کہ کس طرح فطرت کا ایک خطِ مستقیم ابتدا سے آج تک سیدھا کھنچا ہوا نظر آتا ہے، جو انسان کی ترقی کا اصلی راستہ ہے۔ اس خط سے ہٹ کر جو بھی دائیں یا بائیں جانب دور نکل گیا اسے یا تو تھپڑ کھا کر اسی کی طرف پلٹنا پڑا ورنہ پھر ایسا پھینکا گیا کہ اس کا پتا نشان نہ ملا۔ اس طرزِ معاملہ سے جب طالب علم کو معلوم ہو جائے گا کہ خدا کا قانون کس قدر بے لاگ ہے اور کیسی غیر جانب داری کے ساتھ اس نے قوموں سے معاملہ کیا ہے تو کوئی قوم بھی اس کی چہیتی رہے گی اور نہ کسی کے خلاف اس کے دل میں نفسیاتی عداوت کا جذبہ رہے گا۔ جس قوم کے کارنامے پر بھی وہ نظر ڈالے گا، بے لاگ طریقہ پر ڈالے گا اور فلاح وخسران کے ابدی اصولوں کی کسوٹی پر کس کر کھرے کو الگ اور کھوٹے کو الگ کرکے سامنے رکھ دے گا۔ اس تربیتِ ذہنی کے بعد اسے تاریخی دستاویزوں میں آثار قدیمہ اور مآخذ اصلیہ سے بطور خود نتائج اخذ کرنے کی مشق کرائی جائے اور اتنا تیار کر دیا جائے کہ وہ جاہلی مورخین کے چڑھائے ہوئے ردّوں سے اصل حقائق کو الگ کرکے خود بے لاگ رائیں قائم کر سکے۔
ایک اور شعبہ علومِ عمران (social sciences) کا ہونا چاہیے۔ جس میں پہلے قرآن اور حدیث سے انسانی تمدن کے بنیادی اصول بتائے جائیں۔ پھر تفصیل کے ساتھ اصول سے فروع کا استنباط کرکے اور انبیا کی راہ نمائی میں جو تمدن بنے تھے ان کے نظائر سے استشہاد کرتے ہوئے یہ بتایا جائے کہ ان قواعد اصلیہ (fundamental principle) پر کس طرح ایک صالح نظامِ معاشرت، نظامِ معیشت، نظامِ سیاست، تدبیرِ مملکت اور تعلقاتِ بین الاقوامی کی عمارت اٹھتی ہے۔ پھر یہ بتایاجائے کہ کس طرح انھی اصولوں پر اس عمارت کی مزید توسیع ہو سکتی ہے اور اجتہاد سے توسیع کا نقشہ مرتّب کرنے کا کیا طریقہ ہے اور انسانی علم کی ترقی سے جو نئی قوتیں دریافت ہوتی ہیں اور تمدن کی فطری نشوونما سے جونئے طرزِ عمل پیدا ہوتے ہیں، ان سب کو اللّٰہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے اس صالح تمدن میں جذب کرنے اور اپنے اپنے ٹھیک مقام پر رکھنے کی کیا صورت ہے۔ اس کے علاوہ ایک طرف طالب علم کو پچھلی قوموں اور مسلمانوں کی تمدنی تاریخ کا مطالعہ کرایا جائے تاکہ وہ دیکھے کہ تمدن کے ان اساسی اصول اور الٰہی حدود کے قریب رہنے اور ان سے انحراف کرنے سے کیا نتائج رونما ہوئے ہیں۔ اوردوسری طرف اسے دور جدید کے سیاسی، معاشی، اجتماعی نظریات وعملیات کا تنقیدی مطالعہ کرایا جائے تاکہ وہ یہ بھی دیکھ لے کہ انسان نے الٰہی ہدایت سے بے نیاز ہو کر بطور خود اپنی زندگی کے لیے جو راستے تجویز کیے ہیں وہ کہاں تک اس کے لئے موجبِ سعادت وشقاوت ہیں۔
سائنس کی مختلف شاخوں کے لیے چند شعبے علیحدہ ہونے چاہییں جن میں قرآن کی راہ نمائی سے فائدہ اٹھا کر نہ صرف اب تک کی جمع شدہ سائنٹیفک معلومات کا جائزہ لیا جائے بلکہ آثارِ فطرت کا مزید مشاہدہ اور قوانینِ فطرت کی مزید دریافت کا کام بھی انھی خطوط پر کیا جائے جو قرآن نے کھینچ دیے ہیں۔ اگرچہ یہ کتاب سائنس کی کتاب نہیں ہے، نہ اس کے موضوع کا براہِ راست سائنس سے کوئی تعلق ہے لیکن چوں کہ یہ اسی مصنّف کی تصنیف ہے جس نے کائنات کو تصنیف کیا ہے اور وہ مصنّف اپنی ایک کتاب سے دوسری کتاب میں جگہ جگہ استدلال واستشہاد کا کام لیتا ہے۔ اس لیے اس کے گہرے مطالعہ سے سائنس کے ایک طالب علم کو نہ صرف نظامِ کائنات کا بنیادی فارمولہ معلوم ہو جاتا ہے بلکہ قریب قریب ہر شعبہ میں اسے ایک نقطہ صحیح آغاز (starting piont) اور تلاش وتجسّس کے لیے ایک صحیح رخ (direction) بھی ملتا ہے یہ وہ شاہ کلید (master key) ہے جس سے تحقیق کا سیدھا راستہ کھل جاتا ہے۔ جس کی مشکل کشائی سے اگر آدمی کام لے تو اس کا بہت سا وقت گتھیوں کے سلجھانے اور سلجھاتے سلجھاتے خود الجھ جانے میں ضائع نہ ہو۔ موجودہ سائنس کی گم راہی میں ایک بڑا سبب یہ ہے کہ حقائقِ واقعیہ کے مشاہدے کی حد تک تو ٹھیک رہتا ہے، مگر جب حقائق کو جوڑ کر ان سے نظریات بناتا ہے تو کائنات فطرت کے مبدا وغایت سے ناواقف ہونے کے باعث ٹھوکریں کھاتا جاتا ہے اور اس سے نہ صرف بہت سی انسانی قوت فضول ضائع ہوتی ہے بلکہ ان غلط نظریات کو جب انسانی تمدن میں جذب کرکے عملیات کی بنیاد اٹھائی جاتی ہے تو وہ فسادِ تمدن کا موجب ثابت ہوتی ہے۔ قرآن کی راہ نمائی میں جب ایک مسلم سائنٹسٹ ثابت شدہ حقائق کو نظریات سے الگ کرکے مرتّب کرے گا اور مزید حقائق دریافت کرکے ان سے بہتر نظریات نکال بتائے گا تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا ان سائنٹیفک گم راہیوں کو چھوڑنے پر مجبور نہ ہو جائے جن میں آج وہ مبتلا ہے۔
جن علوم کو اس وقت علومِ دینی کہا جاتا ہے ان کے لیے بھی الگ الگ شعبے مخصوص ہونے چاہییں مثلاً ایک شعبہ قرآن کے تحقیقی مطالعہ کا ہو جس میں پچھلے مفسرین کے کام کا جائزہ لینے کے بعد آگے مزید کام کیا جائے، مختلف پہلوئوں سے قرآن کی گہرائیوں میں اُترنے کی کوشش کی جائے اور علومِ انسانی کے تمام شعبوں سے استفادہ کرکے قرآن میں مزید بصیرت حاصل کی جائے۔ اسی طرح ایک شعبہ علومِ حدیث کا ہونا چاہیے جس میں قدیم محدثین کے کام سے پورا فائدہ اٹھانے کے بعد حدیث میں تحقیق، تنقید، ترتیب معلومات اور اخذِ نتائج کا مزید کام کیا جائے۔ دورِ سعادت کے متعلق زیادہ سے زیادہ تفصیلات ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالی جائیں اور ان سے وہ نتائج اخذ کیے جائیں جو اب تک ہمارے علم سے مخفی ہیں۔ ایک شعبہ قانون کا ہونا چاہیے جس میں قرآن کے احکام، حدیث نبویؐ کی قولی وعملی تشریحات، صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کے اجتہادات اور ائمہ مجتہدین کے طرزِ استنباط اور جزئیات میں ان تصریحات کا مفصّل تحقیقی مطالعہ کیا جائے۔ نیز دنیا کی دوسری پرانی اور نئی قوموں کے قوانین اور قانونی نظامات پر بھی گہری نظر رکھی جائے اور زندگی کے روز بروز بدلنے والے معاملات ومسائل پر اصولِ قانونِ اسلامی کو منطبق کرکے فقہ کے ان چشموں کو پھر سے رواں کیا جائے جو صدیوں سے سوکھ کر رہ گئے ہیں۔ یہ شعبے نہ صرف بجائے خود بہت عظیم الشان کام انجام دیں گے، بلکہ دوسرے تمام شعبوں کو بھی کتاب اللّٰہ اور سنت رسول اللّٰہ کے متعلق انھی سے مواد ملے گا جس کی بنیاد پر علم کی تمام راہوں میں تحقیق و اکتشاف کا کام چلایا جائے۔
تیسری خصوصیت
مَیں نے یہ چند شعبے محض تمثیلاً بیان کیے ہیں۔ جن سے پورے نقشے کی تفصیلات کا تصوّر بآسانی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اب میں اس نئے تعلیمی نظام کی آخری مگر نہایت اہم خصوصیّت کا ذکر کروں گا اور وہ یہ ہے کہ اس میں وہ بے مقصد تعلیم نہیں ہو گی جو آج کل ہندوستان میں دی جا رہی ہے، بلکہ اس میں تعلیم دینے والے اور تعلیم پانے والے دونوں کے سامنے ایک متعین اور واضح مقصد زندگی اور منتہائے سعی و عمل ہو گا، یعنی یہ کہ ان سب کو مسلکِ خدا پرستی کی امامت دنیا میں قائم کرنے کے لیے جہاد کبیر کرنا ہے۔ یہ مقصد اس نظام کی ہر چیز میں اسی طرح کام کرے گا، جس طرح انسانی جسم کے ہر رگ، ہر ریشے اور ہر حرکت میں اس کی روح کام کرتی ہے طلبہ کی شخصی زندگی، ان کے باہمی اجتماعات، ان کے کھیل کود اور تفریحات اور ان کے درس وتدریس اور مطالعہ وتحقیق کے تمام مشاغل میں اسی مقصد کی کارفرمائی ہو گی۔ اسی کے مطابق ان کی سیرت وکردار کی تعمیر کی جائے گی۔ اسی پر ان کے اخلاق ڈھالے جائیں گے اور تمام ماحول ایسا بنایا جائے گا کہ ہر شخص کو ایک مجاہد فی سبیل اللّٰہ میں تبدیل کر دے۔
متوقع نتائج
اس قسم کی تربیت اور اس قسم کی تعلیم پا کر جو لوگ تیار ہوں گے ان میں یہ طاقت ہو گی کہ ان واقعات کی رفتار بدل دیں۔ ان کی محققانہ تنقید، جاہلیّت کے علوم اور جاہلی تہذیب کی ساری بنیادوں کو ہلا دے گی، ان کے مدوّن کیے ہوئے علوم میں اتنا زور ہو گا کہ جو لوگ آج جاہلیت کے نقطۂ نظر پر جمے ہوئے ہیں انھیں یہ اسلامی نقطۂ نظر کی طرف پھیر لائیں گے۔ ان کی تحقیق کے نتائج یورپ امریکا اور جاپان تک کو متاثر کر دیں گے اور ہر طرف سے معقول انسان ان کے نظریات کی طرف کھنچے چلے آئیں گے۔ ان کا مرتّب نظریۂ حیات اور لائحہ زندگی اتنی قوت کے ساتھ فکر و نظر کی دنیا پر چھا جائے گاکہ عمل کی دنیا میں اس کے خلاف کسی دوسرے لائحہ زندگی کا چلنا مشکل ہو گا۔ پھر اسی تعلیم سے اس سیرت اور اس عزم کے لوگ پیدا ہوں گے جو امامت کے نظام میں عملاً انقلاب برپا کرنے کے لیے ضروری ہے، وہ اس انقلاب کے فن کو بھی جانتے ہوں گے، ان میں سے اس کے برپا کرنے کا مضبوط داعیہ بھی ہو گا اور انھیں اپنی انقلابی تحریک کو خالص اسلامی راہوں پر چلانا بھی آتا ہو گا۔ پھر انھی میں یہ اہلیت بھی ہو گی کہ کام یابی کی منزل پر پہنچ کر اسلامی اصول کے مطابق ایک اسٹیٹ ایک مکمل تمدن کے ساتھ بنا کر کھڑی کر دیں جس کی شکل اور روح اسلامی ہو اور جو دنیا میں امامت کرنے کی پوری طاقت وصلاحیت رکھتی ہو۔
عملی مشکلات
حضرات! اس مرحلہ پر پہنچ کر تین کٹھن سوالات سامنے آتے ہیں اور میں محسوس کرتا ہوں کہ میرے یہ مفروضات سننے کے دوران میں ان سوالات نے آپ کے دلوں میں خلش پیدا کرنا شروع کی ہو گی۔
نصاب اور معلّمین کی تیاری
پہلا سوال یہ ہے کہ یہ نیا نظام قائم کیسے کیا جائے گا کیوں کہ اس نئے طرز پر نہ تو پڑھانے والے ہی اس وقت کہیں مل سکتے ہیں اور نہ ایسی کتابیں ہی موجود ہیں جن سے کسی ایک شعبۂ علم کی تعلیم اس نقشہ کے مطابق دی جا سکے؟ بلکہ شاید مبالغہ نہ ہو گا اگر یہ کہا جائے کہ پہلی جماعت کے بچے کو بھی اس طرز کی تعلیم دینے کے لیے کسی مدرس اور کسی کتاب کا ملنا اس وقت مشکل ہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جس طرح ایک عمارت بنانے کے لیے بھٹا تیار کرنا پڑتا ہے، تاکہ اینٹیں پکائی جائیں، اسی طرح ایک نیا نظام بنانے کے لیے بھی ایک تربیت گاہ بنانا ضروری ہے تاکہ اس میں وہ آدمی تیار کیے جائیں جو اس خاص طریقہ کی تعلیم دینے کے قابل ہوں۔ اینٹیں بھی تو آپ کو پکی پکائی نہیں ملتیں، پکانا پڑتی ہیں، آدمی بھی آپ کو بنے بنائے نہیں ملیں گے، بنانا پڑیں گے۔ اس ناقص تعلیم سے کچھ اللّٰہ کے بندے ایسے بھی فارغ ہو کر نکلے ہیں جو فطرتِ ابراہیمی پر پیدا ہوئے ہیں، کافر گر تعلیم وتربیت کے سارے مرحلوں سے گزرنے کے باوجود اپنا ایمان بچا لائے ہیں۔ ان کا نقطۂ نظر اورمقصدِ زندگی اسلامی ہے یا ذرا سی محنت سے خالص اسلامی بنایا جا سکتا ہے۔ ان میں یہ طاقت بھی موجود ہے کہ جس مقصد پر وہ ایمان لائے ہیں اس کی راہ میں جفاکشی کر سکیں۔ ان میں اجتہادی صلاحیتیں بھی موجود ہیں۔ ایسے لوگوں کو لے کر اگر خاص قسم کی ذہنی واخلاقی تربیت دی جائے اورمعلومات جس ترتیب سے اب تک ان کے ذہن میں جمع ہوتی رہی ہیں، اسے ذرا حکمت کے ساتھ بدل دیا جائے اور زاویۂ نگاہ اچھی طرح اسلام کی سمت میں جما دیا جائے تو یہی لوگ تحقیق ومطالعہ سے اس قابل ہو سکتے ہیں کہ علوم کو میرے بیان کردہ نقشے کے مطابق ازسرِنو مدون کرنا شروع کر دیں پھر جب تدوین کا کام کسی حد تک انجام پا جائے تو ایک نمونہ کی درس گاہ ابتدائی تجربوں کے لیے بنائی جا سکتی ہے اور بعد میں آہستہ آہستہ ترقی دے کراسے یونی ورسٹی کے مرتبے تک پہنچایا جا سکتا ہے۔
متعلّمین کی فراہمی
دوسرا سوال یہ ہے کہ اس قسم کا نظام تعلیم اگر قائم بھی کر دیا جائے تو اس میں جاذبیت کون سی ہو گی۔ جو پڑھنے والوں کو اس کی طرف کھینچے گی؟ جو نظامِ تعلیم موجود ہ نظامات تمدن وسیاست کی خدمت کے لیے نہیں بلکہ ان سے لڑنے کے لیے بنایا جائے، اس میں شریک ہونے والے کو یہ تو امید ہو ہی نہیں سکتی کہ کل وہ وہاں سے نکل کر کچھ بچا سکے گا پھر کتنے ایسے لوگ ہوں گے جو کمانے سے بے نیاز ہو کر اس تعلیم کو حاصل کرنے کے لیے آئیں گے؟ جس کے بعد دنیوی لحاظ سے کوئی شان دار مستقبل نہیں ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس نظامِ تعلیم میں حق اور صداقت کے سوا کوئی کشش نہیں ہے اور کسی دوسری کشش کی حاجت ہی نہیں۔ جن لوگوں کے لیے اس چیز میں جاذبیت نہ ہواور صرف روٹی ہی جنھیں کھینچ سکتی ہو، ان کی توجہ فرمائی سے یہ نظامِ تعلیم خود بھی اتنا ہی بے نیاز ہو گا جتنے وہ اس سے بے نیاز ہیں۔ اس کے لیے تو وہ لوگ درکار ہیں جو جان بوجھ کر اس مقصد اور اس کام کے لیے اپنی اوراپنے بچوں کی زندگی وقف کرنے کے لیے تیار ہوں۔ جس کے لیے یہ نظامِ تعلیم بنایا جائے گا اور ایسے لوگ بالکل ہی مفقود نہیں ہیں۔ تمام ہندوستان سے پچاس بچے بھی کیا اس کام کے لیے نہ مل سکیں گے؟ اگر اتنے بچے بھی وہ قوم فراہم نہیں کر سکتی جو مدتوں سے اسلام اسلام چیخ رہی ہے۔ تب بھی کچھ پروا نہیں۔ اللّٰہ دوسری قوموں کو یہ سعادت بخشے گا۔
مال کا سوال
تیسرا اورآخری سوال یہ ہے کہ اس کام کے لیے مال کہاں سے آئے گا؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اُن لوگوں کے پاس سے جو مال اور ایمان دونوں رکھتے ہوں اور اتنی عقل بھی رکھتے ہوں کہ اپنے مال کا صحیح مصرف سمجھ سکیں۔ ایسے لوگ بھی اگر اس قوم میں نہ پائے گئے جو رات دن اسلام کے درد میں تڑپ رہی ہے تو میں پھر یہی کہوں گا کہ کچھ پروا نہیں، اللّٰہ دوسری قوم میں سے ایسے آدمی پیدا کرے گا۔ آخر پہلے بھی تو کفر وشرک کی گود ہی سے وہ اللّٰہ کے بندے نکل کرآئے تھے، جن کی مالی قربانیوں سے دنیا میں اسلام کا فروغ ہوا۔
(ترجمان القرآن۔ شوال، ذیقعدہ۱۳۵۹ھ)
٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں