اٹھارویں صدی عیسوی میں مشین کی ایجاد نے اس انقلاب کی رفتار کو بدرجہا زیادہ تیز کردیا جس کی ابتدا نشاۃ ثانیہ کے دور میں ہوئی تھی۔ نئی سائنٹفک معلومات اور ایجادات کو جب صنعت و حرفت، زراعت اور وسائل آمدورفت کی ترقی میں استعمال کیا گیا تو اتنے بڑے پیمانے پر مصنوعات کی تیاری، خام پیداوار کی فراہمی اور دنیا کے گوشے گوشے میں تیار مال کی کھپت کا سلسلہ چل پڑا جس کا تصور بھی اس سے پہلے کبھی نہ کیا گیا تھا۔
اس عظیم الشان انقلاب نے ترقی، خوشحالی اور قوت و اقتدار کے جن مواقع کا دروازہ کھولا ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے قریب ترین گروہ اگر کوئی تھا تو وہی ’’بورژوا‘‘ گروہ تھا جو نشا ٔۃِ ثانیہ کے دور میں ابھر آیا تھا کیونکہ صنعت وتجارت اسی کے ہاتھ میں تھی، سرمایہ بھی اسی کے پاس تھا اور علم و ادب پر بھی وہی چھایا ہوا تھا۔ اس نے سرمایہ اور فنی قابلیت اور تنظیمی صلاحیت، تینوں کے اشتراک سے صنعت اور کاروبار کا ایک نیا نظام بنا کھڑا کیا جسے ’’جدید نظام سرمایہ داری‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس نظام کے تحت شہرو ں میں بڑے بڑے کارخانے اور تجارتی ادارے قائم ہوئے۔ پیشہ ور برادریوں کے پرانے حلقے ٹوٹ گئے۔ چھوٹے چھوٹے کارخانوں اور منفرد کاریگروں اور چھوٹی پونجی والے دکانداروں کے لیے دائرۂ زندگی تنگ ہوگیا۔ دیہات و قصبات کے پیشہ ور لوگ مجبور ہوگئے، شہروں میں آئیں اور ان بڑے کارخانہ داروں کے دروازے پر مزدور کی حیثیت سے جا کھڑے ہوں اور چھوٹے موٹے سوداگر اور کاروباری لوگ بھی مجبور ہوگئے کہ ان بڑے صناعوں اور تاجروں کی ملازمت یا ایجنسی قبول کرلیں۔ اسی طرح سائنس کی نئی دریافتوں سے جو طاقت آئی تھی اسے بورژوا طبقے نے اچک لیا اور اپنی فتوحات کا دائرہ پھیلانا شروع کردیا۔
اس دائرے کے پھیلائو میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ قومی ریاستیں تھیں جو نشأۃِ ثانیہ کی تحریک کے نتیجے میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان ریاستوں کے مطلق العنان بادشاہ ’’خدا داد حق‘‘ کے مدعی تھے۔ سابق جاگیرداری نظام کے امراء ان بادشاہوں کی ’’پائیگاہ‘‘ بن گئے تھے اور قومی کلیسا ان کے لیے مذہبی و روحانی پشت پناہ تھے۔ سارا سیاسی اقتدار اسی ثلیث کے قبضے میں تھا اور بورژوا طبقے کے لیے اس تثلیث کی فرمانروائی طرح طرح کی رکاوٹیں پیدا کرتی تھی۔ اس کی ڈالی ہوئی رکاوٹیں نہ صرف صنعت اور تجارت کے میدان میں اس طبقے کی پیش قدمی کو روکتی تھیں بلکہ تمدن اور معاشرت میں بھی دور جاگیر داری کے وہ بہت سے باقیات ابھی موجود تھے جو اس نو خیز طبقے کو ناگوار تھے۔