Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
جدید ایڈیشن
مقدمہ
۱ اِلٰہ: لغوی تحقیق
اہلِ جاہلیت کا تصورِ اِلٰہ
اُلوہیّت کے باب میں ملاک اَمر
قرآن کا استدلال
۲ رَبّ: لغوی تحقیق
قرآن میں لفظ ’’رَبّ‘‘ کے استعمالات
ربُوبیّت کے باب میں گم راہ قوموں کے تخیلات
قومِ نوحؑ
قومِ عاد
قومِ ثمود
قومِ ابراہیم ؑونمرود
قومِ لُوطؑ
قومِ شعیبؑ
فرعون اور آلِ فرعون
یہود ونصارٰی
مشرکینِ عرب
قرآن کی دعوت
۳ عبادت: لغوی تحقیق
لفظِ عباد ت کا استعمال قرآن میں
عبادت بمعنی اطاعت
عبادت بمعنی پرستش
مثالیں
عبادت بمعنی بندگی واطاعت وپرستش
۴ دین: لغوی تحقیق
قرآن میں لفظِ ’’دین‘‘ کا استعمال
دین بمعنی اوّل ودُوُم
دین بمعنی سوم
دین بمعنی چہارم
دین ایک جامع اصطلاح

قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں

اُمت مسلمہ کے زوال کے اسباب پر اگرغور کیا جائے تو اس میں سر فہرست یہ سبب نظر آئے گا کہ اس نے قرانی تعلیمات کو فراموش کر دیا اور اس کی انقلابی دعوت سے نا آشنا ہوگئی۔ آج اگر ہم قرآن مجید کو پڑھتے ہیں تو اس کے معانی ومفہوم سے بے خبر اور محض رسماً۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے دکھوں کا علاج اور ترقی کا زینہ دنیا بھر کے افکار ونظریات میں تلاش کرتے ہیں لیکن خود نسخہ شفا سے استفادہ نہیں کرتے یا استفادے کی اہلیت نہیں رکھتے جواللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے نازل کیا ہے۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒنے اس کتاب کو لکھ کر قرآن کی اس ہی انقلابی دعوت کو واضح کیا ہے۔ جس نے اونٹوں کی نکیل پکڑنے والوں کو دنیا کا امام بنا دیا تھا اور اس کے ذریعے سے فہم قرآن کی راہ کو آسان بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مولانا موصوف کو علوم قرانی میں جوگہری بصیرت عطا فرمائی ہے۔ یہ کتاب اس کی پوری طرح آئنہ دارہے۔

مشرکینِ عرب

اب دیکھنا چاہیے کہ وہ عرب کے مشرکین جن کی طرف نبی a مبعوث ہوئے، اور جو قرآن کے اوّلین مخاطب تھے، اس باب میں ان کی گم راہی کس نوعیت کی تھی؟ کیا وہ اللہ سے ناواقف تھے یا اس کی ہستی کے منکر تھے اور نبی a اس لیے بھیجے گئے تھے کہ انھیں وجودِ باری کا معترف بنائیں؟ کیا وہ اللہ کو الٰہ اور رب نہیں مانتے تھے اور قرآن اس لیے نازل ہوا تھا کہ انھیں حق جلّ شانہٗ کی الٰہیّت وربوبیت کا قائل کرے؟ کیا انھیں اللہ کی عبادت وپرستش سے انکار تھا؟ یا وہ اللہ کو دعائیں سننے والا اور حاجتیں پوری کرنے والا نہیں سمجھتے تھے؟ کیا ان کا خیال یہ تھا کہ لاتؔ اور مناتؔ اور عُزّیٰؔ اور ہُبلؔ اور دوسرے معبود ہی اصل میں کائنات کے خالق، مالک، رازق، اور مدبر ومنتظم ہیں؟ یا وہ اپنے ان معبودوں کو قانون کا منبع اور اخلاق وتمدن کے مسائل میں ہدایت وراہ نُمائی کا سرچشمہ مانتے تھے؟ ان میں سے ایک ایک سوال کا جواب ہمیں قرآن سے نفی کی صورت میں ملتا ہے۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ عرب کے مشرکین نہ صرف یہ کہ اللہ کی ہستی کے قائل تھے،بلکہ اسے تمام کائنات کا اور خود اپنے معبودوں تک کا خالق، مالک اور خداوندِ اعلیٰ مانتے تھے اسے رَبّ اور الٰہ تسلیم کرتے تھے۔ مشکلات اور مصائب میں آخری اپیل وہ جس سرکار میں کرتے تھے وہ اللہ ہی کی سرکار تھی۔ انھیں الہ کی عبادت وپرستش سے بھی انکار نہ تھا۔ ان کا عقیدہ اپنے دیوتائوں اور معبودوں کے بارے میں نہ تو یہ تھا کہ وہ ان کے اور کائنات کے خالق ورازق ہیں اور نہ یہ کہ یہ معبود زندگی کے تمدنی واخلاقی مسائل میں ہدایت وراہ نُمائی کرتے ہیں۔ چنانچہ ذیل کی آیات اس پر شاہد ہیں:
قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِيْہَآ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo سَيَقُوْلُوْنَ لِلہِ۝۰ۭ قُلْ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَo قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِo سَيَقُوْلُوْنَ لِلہِ۝۰ۭ قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَo قُلْ مَنْۢ بِيَدِہٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ وَّہُوَيُجِيْرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْہِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo سَيَقُوْلُوْنَ لِلہِ۝۰ۭ قُلْ فَاَنّٰى تُسْحَرُوْنَo بَلْ اَتَيْنٰہُمْ بِالْحَقِّ وَاِنَّہُمْ لَكٰذِبُوْنَo (المومنون۲۳: ۸۴۔۹۰)
اے نبیؐ! ان سے کہو، زمین اور جو کچھ زمین میں ہے وہ کس کی مِلک ہے؟ بتائو اگر تم جانتے ہو؟ وہ کہیں گے کہ اللہ کی ملک ہے۔ کہو پھر بھی تم نصیحت قبول نہیں کرتے؟ کہو، ساتوں آسمانوں اور عرشِ عظیم کا رب کون ہے؟ وہ کہیں گے اللہ۔ کہو پھر بھی تم نہیں ڈرتے؟ کہو ہر چیز کے شاہانہ اختیارات کس کے ہاتھ میں ہیں؟ اور وہ کون ہے جو پناہ دیتا ہے مگر اس کے مقابلہ میں پناہ دینے کی طاقت کسی میں نہیں بتائو اگر تم جانتے ہو؟ وہ کہیں گے یہ صفت اللہ ہی کی ہے۔ کہو پھر کہاں سے تمھیں دھوکا لگتا ہے؟ حق یہ ہے کہ ہم نے صداقت ان کے سامنے پیش کر دی ہے اور یہ لوگ یقینا جھوٹے ہیں۔
ھُوَالَّذِيْ يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۝۰ۭ حَتّٰٓي اِذَا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ۝۰ۚ وَجَرَيْنَ بِہِمْ بِرِيْحٍ طَيِّبَۃٍ وَّفَرِحُوْا بِہَا جَاۗءَتْہَا رِيْحٌ عَاصِفٌ وَّجَاۗءَھُمُ الْمَوْجُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ اُحِيْطَ بِہِمْ۝۰ۙ دَعَوُا اللہَ مُخْلِصِيْنَ لَہُ الدِّيْنَ۝۰ۥۚ لَىِٕنْ اَنْجَيْـتَنَا مِنْ ہٰذِہٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَo فَلَمَّآ اَنْجٰىھُمْ اِذَا ھُمْ يَبْغُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ۝۰ۭ (یونس۱۰:۲۲۔۲۳)
وہ اللہ ہی ہے جو تمھیں خشکی اور تری میں چلاتا ہے حتّٰی کہ جس وقت تم کشتی میں سوار ہو کر بادِ موافق پر فرحاں وشاداں سفر کر رہے ہوتے ہو اور پھر یکایک بادِ مخالف کا زور ہوتا ہے اور ہر طرف سے موجوں کے تھپیڑے لگتے ہیں اور تم سمجھتے ہو کہ طوفان میں گِھر گئے اُس وقت سب اللہ ہی کو پکارتے ہیں اور اسی کے لیے اپنے دین کو خالص کرکے دعائیں مانگتے ہیں کہ اگر تو نے اس بلا سے ہمیں بچا لیا تو ہم تیرے شکر گزار بندے بنیں گے، مگر جب وہ انھیں بچا لیتا ہے تو پھر وہی لوگ حق سے منحرف ہو کر زمین میں بغاوت کرنے لگتے ہیں۔
وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِيَّاہُ۝۰ۚ فَلَمَّا نَجّٰىكُمْ اِلَى الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ۝۰ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ كَفُوْرًاo (بنی اسرائیل۱۷:۶۷)
جب سمندر میں تم پر کوئی آفت آتی ہے تو اس ایک رب کے سوا اور جن جن کو تم پکارتے ہو وہ سب گم ہو جاتے ہیں مگر جب وہ تمھیں بچا کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اس سے پھر جاتے ہو۔ سچ یہ ہے کہ انسان بڑا ناشکرا ہے۔
اپنے معبودوں کے متعلق ان کے جو خیالات تھے وہ خود انھی کے الفاظ میں قران اس طرح نقل کرتا ہے:
وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ۝۰ۘ مَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللہِ زُلْفٰى۝۰ۭ
(الزمر۳۹: ۳)
جن لوگوں نے اللہ کے سوا دُوسرے ولی اور کارساز ٹھہرا رکھے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں۔
وَيَقُوْلُوْنَ ہٰٓؤُلَاۗءِ شُفَعَاۗؤُنَا عِنْدَ اللہِ۝۰ۭ (یونس۱۰: ۱۸)
اور وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے حضور میں ہمارے سفارشی ہیں۔
پھر وہ اپنے معبودوں کے بارے میں اس قسم کا بھی کوئی گمان نہ رکھتے تھے کہ وہ مسائل زندگی میں ہدایت بخشنے والے ہیں۔ چنانچہ سورۂ یونس میں اللہ اپنے نبی a کو حکم دیتا ہے کہ:
قُلْ ہَلْ مِنْ شُرَكَاۗىِٕكُمْ مَّنْ يَّہْدِيْٓ اِلَى الْحَقِّ۝۰ۭ (یونس۱۰:۳۵)
ان سے پوچھو، تمھارے ٹھیرائے ہوئے ان شریکوں میں سے کوئی حق کی طرف راہ نُمائی کرنے والا بھی ہے؟
لیکن یہ سوال سن کر ان پر سکوت چھا جاتا ہے ان میں سے کوئی یہ جواب نہیں دیتا کہ ہاں لات یا منات یا عزّٰی یا دوسرے معبود ہمیں فکر وعمل کی صحیح راہیں بتاتے ہیں اور وہ دنیا کی زندگی میں عدل اور سلامتی اور امن کے اُصول ہمیں سکھاتے ہیں اور ان کے سرچشمۂ علم سے ہمیں کائنات کے بنیادی حقائق کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ تب اللہ اپنے نبی ؐسے فرماتا ہے:
قُلِ اللہُ يَہْدِيْ لِلْحَقِّ۝۰ۭ اَفَمَنْ يَّہْدِيْٓ اِلَى الْحَقِّ اَحَقُّ اَنْ يُّتَّبَعَ اَمَّنْ لَّا يَہِدِّيْٓ اِلَّآ اَنْ يُّہْدٰى۝۰ۚ فَمَا لَكُمْ۝۰ۣ كَيْفَ تَحْكُمُوْنَo (یونس۱۰:۳۵)
کہو، مگر اللہ حق کی طرف راہ نُمائی کرتا ہے، پھر بتائو کون اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کی پیروی کی جائے؟ وہ جو حق کی طرف راہ نُمائی کرتا ہے، یا وہ جو خود ہدایت نہیں پاتا الّا یہ کہ اس کی راہ نُمائی کی جائے؟ تمھیں کیا ہو گیا ہے، کیسے فیصلے کر رہے ہو؟
ان تصریحات کے بعد اب یہ سوال حل طلب رہ جاتا ہے کہ ربوبیت کے باب میں ان کی وہ اصل گم راہی کیا تھی؟ جس کی اصلاح کرنے کے لیے اللہ نے اپنے نبی کو بھیجا اور کتاب نازل کی۔ اس سوال کی تحقیق کے لیے جب ہم قرآن میں نظر کرتے ہیں تو ان کے عقائد واعمال میں بھی ہمیں انھی دو بنیادی گم راہیوں کا سراغ ملتا ہے جو قدیم سے تمام گم راہ قوموں میں پائی جاتی رہی ہیں، یعنی:
ایک طرف فوق الطبیعی ربوبیت والٰہیت میں وہ اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہوں اور ارباب کو شریک ٹھہراتے تھے، اور یہ سمجھتے تھے کہ سلسلۂ اسباب پر جو حکومت کار فرما ہے اس کے اختیارات واقتدارات میں کسی نہ کسی طور پر ملائکہ اور بزرگ انسان اور اجرامِ فلکی وغیرہ بھی دخل رکھتے ہیں اسی بنا پر دعا اور استعانت اور مراسمِ عبودیت میں وہ صرف اللہ کی طرف رجوع نہیں کر تے تھے بلکہ ان بناوٹی خدائوں کی طرف بھی رجوع کیا کرتے تھے۔
دُوسری طرف تمدنی وسیاسی ربوبیت کے باب میں ان کا ذہن اس تصور سے بالکل خالی تھا کہ اللہ اس معنی میں بھی رب ہے، اس معنی میں وہ اپنے مذہبی پیشوائوں، اپنے سرداروں اور اپنے خاندان کے بزرگوں کو رب بنائے ہوئے تھے اور انھی سے اپنی زندگی کے قوانین لیتے تھے۔
چنانچہ پہلی گم راہی کے متعلق قرآن یہ شہادت دیتا ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللہَ عَلٰي حَرْفٍ۝۰ۚ فَاِنْ اَصَابَہٗ خَيْرُۨ اطْـمَاَنَّ بِہٖ۝۰ۚ وَاِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُۨ انْقَلَبَ عَلٰي وَجْہِہٖ۝۰ۣۚ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃَ۝۰ۭ ذٰلِكَ ہُوَالْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُo يَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَضُرُّہٗ وَمَا لَا يَنْفَعُہٗ۝۰ۭ ذٰلِكَ ہُوَالضَّلٰلُ الْبَعِيْدُo يَدْعُوْا لَمَنْ ضَرُّہٗٓ اَقْرَبُ مِنْ نَّفْعِہٖ۝۰ۭ لَبِئْسَ الْمَوْلٰى وَلَبِئْسَ الْعَشِيْرُo (الحج۲۲: ۱۱۔۱۳)
انسانوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو خدا پرستی کی سرحد پرکھڑا ہو کر اللہ کی عبادت کرتا ہے۔فائدہ ہوا تو مطمئن ہو گیا اور جو کوئی تکلیف پہنچ گئی تو اُلٹا پھر گیا۔ یہ شخص دنیا اور آخرت دونوں میں خسارہ اُٹھانے والا ہے۔ وہ اللہ سے پھر کر انھیں پکارنے لگتا ہے جو نہ اسے نقصان پہنچانے کی طاقت رکھتے ہیں اور نہ فائدہ پہنچانے کی۔ یہی بڑی گم راہی ہے۔ وہ مدد کے لیے انھیں پکارتا ہے جنھیں پکارنے کا نقصان بہ نسبت نفع کے زیادہ قریب ہے کیسا بُرا مولیٰ ہے اور کیسا برا ساتھی ہے۔
وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَضُرُّھُمْ وَلَا يَنْفَعُھُمْ وَيَقُوْلُوْنَ ہٰٓؤُلَاۗءِ شُفَعَاۗؤُنَا عِنْدَ اللہِ۝۰ۭ قُلْ اَتُنَبِّـــــُٔوْنَ اللہَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ۝۰ۭ سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَo (یونس۱۰:۱۸)
یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر اُن کی عبادت کرتے ہیں جو نہ نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان اور کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے حضور ہمارے سفارشی ہیں، کہو (اے پیغمبرﷺ!)کیا تم اللہ کو اس بات کی خبر دیتے ہو جو اس کے علم میں نہ آسمانوں میں ہے نہ زمین{ FR 7438 } میں؟ اللہ پاک ہے اس شرک سے جو یہ کرتے ہیں۔
قُلْ اَىِٕنَّكُمْ لَتَكْفُرُوْنَ بِالَّذِيْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِيْ يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَہٗٓ اَنْدَادًا۝۰ۭ
(حٰم السجدہ۴۱: ۹)
اے نبیؐ! ان سے کہو، کیا واقعی تم اُس خدا سے جس نے دو دن میں زمین کو پیدا کر دیا کفر کرتے ہو اور دوسروں کو اس کا ہم سَر اور مدِّمقابل بناتے ہو؟
قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا۝۰ۭ وَاللہُ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُo (المائدہ۵: ۷۶)
کہو، کیا تم اللہ کو چھوڑ کر اُن کی عبادت کرتے ہو جو نہ تمھارے لیے نقصان کا کچھ اختیار رکھتے ہیں نہ فائدے کا؟ حالانکہ سننے اور جاننے والا تو اللہ ہی ہے۔
وَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّہٗ مُنِيْبًا اِلَيْہِ ثُمَّ اِذَا خَوَّلَہٗ نِعْمَۃً مِّنْہُ نَسِيَ مَا كَانَ يَدْعُوْٓا اِلَيْہِ مِنْ قَبْلُ وَجَعَلَ لِلہِ اَنْدَادًا لِّيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِہٖ۝۰ۭ
(الزمر۳۹: ۸)
اور جب انسان پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو یک سُو ہو کر اپنے رب ہی کو پکارتا ہے، مگر جب وہ اپنی نعمت سے اسے سرفراز کرتا ہے تو یہ اس مصیبت کو بھول جاتا ہے جس میں مدد کے لیے اس سے پہلے اللہ کوپکار رہا تھا اور اللہ کے ہم سَر ٹھہرانے لگتا ہے۔{ FR 7439 } تاکہ یہ حرکت اسے اللہ کے راستہ سے بھٹکا دے۔
وَمَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللہِ ثُمَّ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَاِلَيْہِ تَجْــــَٔــرُوْنَo ثُمَّ اِذَا كَشَفَ الضُّرَّ عَنْكُمْ اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْكُمْ بِرَبِّہِمْ يُشْرِكُوْنَo لِيَكْفُرُوْا بِمَآ اٰتَيْنٰہُمْ۝۰ۭ فَتَمَتَّعُوْا۝۰ۣ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَo وَيَجْعَلُوْنَ لِمَا لَا يَعْلَمُوْنَ نَصِيْبًا مِّمَّا رَزَقْنٰہُمْ۝۰ۭ تَاللہِ لَتُسْـــَٔـلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَفْتَرُوْنَo (النحل ۱۶: ۵۳۔۵۶)
تمھیں جو نعمت بھی حاصل ہے اللہ کی بخشش سے حاصل ہے۔ جب تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو اللہ ہی کی طرف فریاد لے کر تم جاتے ہو، مگر جب وہ اس مصیبت کو تم پر سے ٹال دیتا ہے تو تم میں سے کچھ لوگ ہیں جو (اس مشکل کشائی میں) دوسروں کو شریک ٹھہرانے لگتے ہیں تاکہ ہمارے احسان کا جواب احسان فراموشی سے دیں۔ اچھا مزے کر لو۔ عن قریب تمھیں اس کا انجام معلوم ہو جائے گا۔ یہ لوگ جنھیں نہیں جانتے ان کے لیے ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے حصے{ FR 7440 } مقرر کرتے ہیں۔ خدا کی قسم جو افترا پردازیاں تم کرتے ہو ان کی باز پرس تم سے ہو کر رہے گی۔
رہی دُوسری گم راہی تو اس کے متعلق قرآن کی شہادت یہ ہے:
وَكَذٰلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيْرٍ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ قَتْلَ اَوْلَادِہِمْ شُرَكَاۗؤُہُمْ لِيُرْدُوْہُمْ وَلِيَلْبِسُوْا عَلَيْہِمْ دِيْنَہُمْ۝۰ۭ (الانعام۶: ۱۳۷)
اور اسی طرح بہت سے مشرکین کے لیے ان کے بنائے ہوئے شریکوں نے اپنی اولاد کا قتل پسندیدہ بنا دیا تاکہ انھیں ہلاکت میں مبتلا کریں اور ان کے دین کو ان کے لیے مشتبہ بنا دیں۔
ظاہر ہے کہ یہاں ’’شریکوں‘‘ سے مراد بت اور دیوتا نہیں ہیں بلکہ وہ پیشوا اور راہ نُما ہیں جنھوں نے قتلِ اولاد کو اہلِ عرب کی نگاہ میں ایک بھلائی اور خوبی کا کام بنایا اور حضرت ابراہیم ؑ واسماعیل ؑ کے دین میں اس رسمِ قبیح کی آمیزش کر دی۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ خدا کے ’’شریک‘‘ اس معنی میں قرار نہیں دیے گئے تھے کہ اہلِ عرب انھیں سلسلۂ اسباب پر حکم ران سمجھتے تھے یا ان کی پرستش کرتے اور ان سے دعائیں مانگتے تھے، بلکہ انھیں ربوبیت والٰہیت میں شریک اس لحاظ سے ٹھہرایا گیا تھا کہ اہلِ عرب ان کے اس حق کو تسلیم کرتے تھے کہ تمدنی ومعاشرتی مسائل اور اخلاقی ومذہبی اُمور میں وہ جیسے چاہیں قوانین مقرر کر دیں۔
اَمْ لَہُمْ شُرَكٰۗؤُا شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِہِ اللہُ۝۰ۭ (الشوریٰ۴۲: ۲۱)
کیا یہ ایسے شریک بنائے بیٹھے ہیں جنھوں نے ان کے لیے دین کی قسم سے وہ قانون بنا دیا جس کا اللہ نے کوئی اِذن نہیں دیا ہے۔
لفظ ’’دین‘‘ کی تشریح آگے چل کر بیان ہو گی اور وہیں اس آیت کے مفہوم کی وسعت بھی پوری طرح واضح ہو سکے گی، لیکن یہاں کم از کم یہ بات تو صاف معلوم ہو جاتی ہے کہ اللہ کی اجازت کے بغیر ان کے پیشوائوں اور سرداروں کا ایسے ضابطے اور قاعدے مقرر کرنا جو ’’دین‘‘ کی نوعیت رکھتے ہوں اور اہلِ عرب کا ان ضابطوں اور قاعدوں کو واجب التقلید مان لینا یہی ربوبیت والٰہیت میں ان کا خدا کے ساتھ شریک بننا اور یہی اہلِ عرب کا ان کی شرکت کو تسلیم کر لینا تھا۔

شیئر کریں