قرآن مجید میں یہ لفظ ان سب معانی میں آتا ہے۔ کہیں ان میں سے کوئی ایک یا دو معنی مرادہیں، کہیں اس سے زائد اور کہیں پانچوں معنی۔ اس بات کو ہم آیاتِ قرآنی سے مختلف مثالیں دے کر واضح کریں گے۔پہلے معنی میں:
قَالَ مَعَاذَ اللہِ اِنَّہٗ رَبِّيْٓ اَحْسَنَ مَثْوَايَ۰ۭ (یوسف۱۲: ۲۳)
اس نے کہا کہ پناہ بخدا! وہ تو میرا رب ہے{ FR 7431 } جس نے مجھے اچھی طرح رکھا۔
دوسرے معنی میں جس کے ساتھ پہلے معنی کا تصور بھی کم وبیش شامل ہے:
فَاِنَّہُمْ عَدُوٌّ لِّيْٓ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِيْنَo الَّذِيْ خَلَقَنِيْ فَہُوَيَہْدِيْنِo وَالَّذِيْ ہُوَيُطْعِمُنِيْ وَيَسْقِيْنِo وَاِذَا مَرِضْتُ فَہُوَيَشْفِيْنِo (الشعرائ ۲۶:۷۷۔۸۰)
تمھارے یہ معبود تو میرے دشمن ہیں، بجز ربِ کائنات کے جس نے مجھے پیدا کیا ہے، جو میری راہ نمائی کرتا ہے، جو مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو مجھے شفا دیتا ہے۔
وَمَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللہِ ثُمَّ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَاِلَيْہِ تَجْــــَٔــرُوْنَo ثُمَّ اِذَا كَشَفَ الضُّرَّ عَنْكُمْ اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْكُمْ بِرَبِّہِمْ يُشْرِكُوْنَo (النحل۱۶: ۵۳۔۵۴)
تمھیں جو نعمت بھی حاصل ہے اللہ ہی سے حاصل ہوئی ہے، پھر جب تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو اُسی کی طرف تم گھبرا کر رجوع کرتے ہو مگر جب وہ تم پر سے مصیبت ٹال دیتا ہے تو کچھ لوگ تم میں ایسے ہیں جو اپنے رب کے ساتھ (اس نعمت کی بخشش اور اس مشکل کشائی میں) دوسروں کو شریک ٹھہرانے لگتے ہیں۔
قُلْ اَغَيْرَ اللہِ اَبْغِيْ رَبًّا وَّہُوَرَبُّ كُلِّ شَيْءٍ۰ۭ (الانعام۶: ۱۶۴)
کہو کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور رب تلاش کروں، حالانکہ ہر چیز کا ربّ وہی ہے۔
رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَفَاتَّخِذْہُ وَكِيْلًاo (المزمل۷۳: ۹)
وہ مغرب ومشرق کا رب ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے، لہٰذا اُسی کو اپنا وکیل (اپنے سارے معاملات کا کفیل وذمہ دار) بنالے۔
تیسرے معنی میں:
ہُوَرَبُّكُمْ۰ۣ وَاِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَo (ہود۱۱:۳۴)
وہ تمھارا رب ہے اور اسی کی طرف تم پلٹا کر لے جائے جائو گے۔
ثُمَّ اِلٰى رَبِّكُمْ مَّرْجِعُكُمْ (الزمر۳۹:۷)
پھر تمھارے رب کی طرف تمھاری واپسی ہے۔
قُلْ يَجْمَعُ بَيْـنَنَا رَبُّنَا (سبا۳۴: ۲۶)
کہو کہ ہم دونوں فریقوں کو ہمارا رب جمع کرے گا۔
وَمَا مِنْ دَاۗبَّۃٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا طٰۗىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْہِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ۰ۭ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّہِمْ يُحْشَرُوْنَo (الانعام۶: ۳۸)
زمین میں چلنے والا کوئی جان دار اور ہوا میں اڑنے والا کوئی پرندہ ایسا نہیں ہے جو تمھاری ہی طرح ایک امت نہ ہو، اور ہم نے اپنے دفتر میں کسی کے اندراج سے کوتاہی نہیں کی ہے۔ پھر وہ سب اپنے رب کی طرف سمیٹے جائیں گے۔
وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَاِذَا ہُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰى رَبِّہِمْ يَنْسِلُوْنَo(یٰس۳۶: ۵۱)
اور جوں ہی کہ صور پھونکا جائے گا وہ سب اپنے ٹھکانوں سے اپنے رب کی طرف نکل پڑیں گے۔
چوتھے معنی میں جس کے ساتھ کم وبیش تیسرے معنی کا تصور بھی موجود ہے:
اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ (التوبہ۹: ۳۱)
انھوں نے اللہ کے بجائے اپنے علمااور درویشوں کو اپنا رب بنا لیا۔
وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ۰ۭ (آل عمران۳: ۶۴)
اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنائے۔
دونوں آیتوں میں ارباب سے مراد وہ لوگ ہیں جنھیں قوموں اور گروہوں نے مطلقاً اپنا راہ نُما وپیشوا مان لیا ہو۔ جن کے امر ونہی، ضابطہ وقانون اور تحلیل وتحریم کو بلا کسی سند کے تسلیم کیا جاتا ہو۔ جنھیں بجائے خود حکم دینے اور منع کرنے کا حق دار سمجھا جاتا ہو۔
اَمَّآ اَحَدُكُمَا فَيَسْقِيْ رَبَّہٗ خَمْرًا۰ۚ ……وَقَالَ لِلَّذِيْ ظَنَّ اَنَّہٗ نَاجٍ مِّنْہُمَا اذْكُرْنِيْ عِنْدَ رَبِّكَ۰ۡفَاَنْسٰىہُ الشَّيْطٰنُ ذِكْرَ رَبِّہٖ (یوسف۱۲: ۴۱۔۴۲)
یوسف (علیہ السلام) نے کہا کہ تم میں سے ایک تو اپنے رب کو شراب پلائے گا… اور ان دونوں میں سے جس کے متعلق یوسفؑ کا خیال تھا کہ رہا ہو جائے گا اس سے یوسفؑ نے کہا کہ اپنے رب سے میرا ذکر کرنا، مگر شیطان نے اسے بھلاوے میں ڈال دیا اور اسے اپنے رب سے یوسفؑ کا ذکر کرنے کا خیال نہ رہا۔
فَلَمَّا جَاۗءَہُ الرَّسُوْلُ قَالَ ارْجِـــعْ اِلٰي رَبِّكَ فَسْـــَٔـلْہُ مَا بَالُ النِّسْوَۃِ الّٰتِيْ قَطَّعْنَ اَيْدِيَہُنَّ۰ۭ اِنَّ رَبِّيْ بِكَيْدِہِنَّ عَلِيْمٌo (یوسف۱۲: ۵۰)
جب پیغام لانے والا یوسفؑ کے پاس آیا تو یوسفؑ نے اس سے کہا کہ اپنے رب کے پاس واپس جائو اور اس سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا معاملہ ہے جنھوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔ میرا رب تو ان کی چال سے باخبر ہے ہی۔
ان آیات میں حضرت یوسفؑ نے مصریوں سے خطاب کرتے ہوئے بار بار فرعونِ مصر کو ان کا رب قرار دیا ہے، اس لیے کہ جب وہ اس کی مرکزیّت اور اس کا اقتدارِ اعلیٰ اور اسے امر ونہی کا مالک تسلیم کرتے تھے، تو وہی ان کا رب تھا، برعکس اس کے خود حضرت یوسف ؑ اپنا رب اللہ کو قرار دیتے ہیں، کیوں کہ وہ فرعون کو نہیں، صرف اللہ کو مقتدراعلیٰ اور صاحبِ امر ونہی مانتے تھے۔
پانچویں معنی میں:
فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ ہٰذَا الْبَيْتِo الَّذِيْٓ اَطْعَمَہُمْ مِّنْ جُوْعٍ۰ۥۙ وَّاٰمَنَہُمْ مِّنْ خَوْفٍo (قریش۱۰۶: ۳۔۴)
لہٰذا انھیں اس گھر کے مالک کی عبادت کرنی چاہیے جس نے ان کی رزق رسانی کا انتظام کیا ہے اور انھیں بدامنی سے محفوظ رکھا ہے۔
سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا يَصِفُوْنَo (الصافات ۳۷: ۱۸۰)
تیرا رب جو عزت واقتدار کا مالک ہے ان تمام صفاتِ عیب سے پاک ہے جو یہ لوگ اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
فَسُبْحٰنَ اللہِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُوْنَo (الانبیائ۲۱: ۲۲)
اللہ جو عرش کا مالک ہے اُن تمام صفاتِ عیب سے پاک ہے جو یہ لوگ اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِo (المومنون۲۳: ۸۶)
پوچھو کہ ساتوں آسمانوں کااور عرشِ بزرگ کا مالک کون ہے؟
رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَہُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِo (الصافات۳۷: ۵)
وہ جو مالک ہے آسمانوں اور زمین کا اور اُن سب چیزوں کا جو آسمان وزمین کے درمیان ہیں اور سب چیزوں کا جن پر سورج طلوع ہوتا ہے۔
وَاَنَّہٗ ہُوَرَبُّ الشِّعْرٰىo (النجم۵۳: ۴۹)
اور یہ کہ شعرٰی کا مالک بھی وہی ہے۔