اس لفظ کا مادہ ا ل ہ ہے۔ اس مادہ سے جو الفاظ لغت میں آئے ہیں ان کی تفصیل یہ ہے:
اَلِہَ اذا تحیّر، حیران وسرگشتہ ہوا۔
اَلِھْتُ اِلٰی فُلَانٍ اَیْ سَکَنْتُ اِلَیْہِ۔اس کی پناہ میں جا کر یا اس سے تعلق پیدا کرکے مَیں نے سکون واطمینان حاصل کیا۔
اَلِہَ الرَّجُلُ یَأْلَہُ اِذَا فَزِعَ مِنْ اَمْرٍ نَزَلَ بِہِ فَآلَھَہُ غَیْرُہ اَیْ اَجَارَہٗ۔آدمی کسی مصیبت یا تکلیف کے نزول سے خوف زدہ ہوا اور دوسرے نے اسے پناہ دی۔
اَلِہَ الرَّجُلُ اِلٰی الرَّجُلِ اِتَّجَہَ اِلَیْہِ لِشِدِّۃِ شَوْقِہٖ اِلَیْہِ۔آدمی نے دوسرے کی طرف شدّتِ شوق کی وجہ سے توجہ کی۔
اَلِہَ الْفَصِیْلُ اِذَا وَلِہَ بِاُمِّہِ۔اونٹنی کا بچہ جو اس سے بچھڑ گیا تھا ماں کو پاتے ہی اس سے چمٹ گیا۔
لَاہَ یَلِیْہُ لِیْھًا وَلَاھًا اِذَا احْتَجَبَ۔ پوشیدہ مستور ہوا۔ نیز ارتفع یعنی بلند ہوا۔
اِلٰہً اِلٰھۃً وَاُلُوْھَۃً وَاُلُوْھِیَّۃً عَبَدَ عبادت کی۔
ان تمام معانی مصدر پر یہ غور کرنے سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ اَلِہَ یَالَہُ اِلٰھَۃً کے معنی عبادت (پرستش)اور الٰہ کے معنی معبود کس مناسبت سے پیدا ہوئے:
۱۔ انسان کے ذہن میں عبادت کے لیے اولین تحریک اپنی حاجت مندی سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ کسی کی عبادت کا خیال تک نہیں کر سکتا جب تک اسے یہ گمان نہ ہو کہ وہ اس کی حاجتیں پوری کر سکتا ہے، خطرات اور مصائب میں اسے پناہ دے سکتا ہے، اضطراب کی حالت میں اسے سکون بخش سکتا ہے۔
۲۔ پھر یہ بات کہ آدمی کسی کو حاجت روا سمجھے اس تصور کے ساتھ لازم وملزوم کا تعلق رکھتی ہے کہ وہ اسے اپنے سے بالاتر سمجھے اور نہ صرف مرتبہ کے اعتبار سے اس کی برتری تسلیم کرے، بلکہ طاقت اور زور کے اعتبار سے بھی اس کی بالادستی کا قائل ہو۔
۳۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سلسلۂ اسباب وعلل کے تحت جن چیزوں سے بالعموم انسان کی ضروریات پوری ہوتی ہیں، اور جن کی حاجت روائی کا سارا عمل انسان کی آنکھوں کے سامنے یا اس کے حدودِ علم کے اندر واقع ہوتا ہے ان کے متعلق پرستش کا کوئی جذبہ اس میں پیدا نہیں ہوتا مثلاً مجھے خرچ کے لیے روپے کی ضرورت ہوتی ہے، میں جا کر ایک شخص سے نوکری یا مزدوری کی درخواست کرتاہوں، وہ میری درخواست کو قبول کرکے مجھے کوئی کام دیتا ہے اور اس کام کا معاوضہ مجھے دے دیتا ہے۔ یہ سارا عمل چونکہ میرے حواس اور علم کے دائرے کے اندر پیش آیا ہے اور مَیں جانتا ہوں کہ اس نے میری یہ حاجت کس طرح پوری کی ہے، اس لیے میرے ذہن میں اس کے لائق پرستش ہونے کا وہم تک نہیں گزرتا، پرستش کا تصور میرے ذہن میں صرف اسی حالت میں پیدا ہو سکتا ہے جب کہ کسی کی شخصیت یا اُس کی طاقت یا اس کی حاجت روائی واثر اندازی کی کیفیت پر راز کا پردہ پڑا ہوا ہو۔ اسی لیے معبود کے معنی میں وہ لفظ اختیار کیا گیا جس کے اندر رفعت کے ساتھ پوشیدگی اور حیرانی وسرگشتگی کا مفہوم بھی شامل ہے۔
۴۔ پھر جس کے متعلق بھی انسان یہ گمان رکھتا ہو کہ وہ احتیاج کی حالت میں حاجت روائی کر سکتا ہے، خطرات میں پناہ دے سکتا ہے، اضطراب میں سکون بخش سکتا ہے، اس کی طرف انسان کا اشتیاق کے ساتھ توجہ کرنا ایک امر ناگزیر ہے۔
پس معلوم ہوا کہ معبود کے لیے الٰہ کا لفظ جن تصورات کی بنا پر بولا گیا وہ یہ ہیں۔ حاجت روائی، پناہ دہندگی، سکون بخشی، بالاتری وبالادستی۔ ان اختیارات اور ان طاقتوں کا مالک ہونا جن کی وجہ سے یہ توقع کی جائے کہ معبود قاضی الحاجات اور پناہ دہندہ ہو سکتا ہے۔ اس کی شخصیت کا پُراسرار ہونا یا منظر عام پر نہ ہونا۔ انسان کا اس کی طرف مشتاق ہونا۔