پیراگراف ۳۱ میں فاضل جج ایک اور دلیل لاتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:
’’یہ بات کہ محدثین خود اپنی جمع کردہ احادیث کی صحت پر مطمئن نہ تھے، صرف اسی ایک امر واقعہ سے واضح ہو جاتی ہے کہ وہ مسلمانوں سے یہ نہیں کہتے کہ ہماری جمع کردہ احادیث کو صحیح مان لو بلکہ یہ کہتے ہیں کہ انھیں ہمارے معیارِ صحت پر جانچ کر اپنا اطمینان کر لو۔ اگر انھیں ان احادیث کی صحت کا یقین ہوتا تو یہ جانچنے کا سوال بالکل غیر ضروری تھا۔‘‘
دَرحقیقت یہ ایک عجیب استدلال ہے ۔ دُنیا کا کوئی محقق آدمی کسی چیز کو اس وقت تک صحیح نہیں کہتا جب تک اسے اپنی جگہ اس کی صحت کا اطمینان نہیں ہو جاتا لیکن آپ کسی ایمان دار محقق سے یہ توقع نہیں کرسکتے کہ وہ اپنی تحقیق پر ایمان لے آنے کا دُنیا بھر سے مطالبہ کرے گا اور دھڑلے کے ساتھ لوگوں سے کہے گا کہ میں اسے صحیح سمجھتا ہوں، لہٰذا تم کو بھی اسے صحیح مان لینا چاہیے۔ وہ تو یہی کرے گا کہ اپنی تحقیقات کے دوران میں جو موادبھی اس کے سامنے آیا ہے، وہ سب کا سب لوگوں کے سامنے رکھ دے گا اور بتا دے گا کہ اس مواد کی بنیاد پر میں ان نتائج تک پہنچا ہوں۔ تم بھی انھیں جانچ لو، اگر تمھارا اطمینان میرے اخذ کردہ نتائج پر ہو تو انھیں قبول کر لو، ورنہ یہ مواد حاضر ہے، اس کے ذریعے سے خود تحقیق کر لو۔ محدثین نے یہی کام کیا ہے۔ انھیں حضورﷺ کا جو فعل یا قول بھی پہنچا ہے اس کی پوری سند انھوں نے بیان کر دی ہے۔ ہر سند میں جتنے راوی آئے ہیں ان میں سے ایک ایک کے حالات بیان کر دیے ہیں، مختلف سندوں سے آنے والی روایات میں جن جن پہلوئوں سے ضعف یا قوت کا کوئی پہلو نکلتا ہے، اسے بھی صاف صاف بتا دیا ہے اور ہر حدیث کے متعلق اپنی رائے دے دی ہے کہ ہم فلاں فلاں دلائل کی بِنا پر اس کو صحت یا کم زوری کے اعتبار سے یہ درجہ دیتے ہیں۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جن حدیثوں کو وہ اس مدلل طریقے سے صحیح کہتے ہیں وہ ان کے نزدیک صحیح ہی ہیں۔ ان کی صحت کا انھیں یقین نہ ہوتا تو وہ آخر انھیں صحیح کہتے ہی کیوں، مگر کیا اس کے بعد انھیں یہ بھی کہنا چاہیے تھا کہ اے مسلمانو! تم بھی ان کی صحت پر ایمان لائو کیوں کہ ہم انھیں صحیح قرار دے رہے ہیں؟