آگے چل کر فاضل جج نے اپنے نکتہ ششم میں احادیث کے ’’انتہائی مشکوک‘‘ اور ’’ناقابل اعتماد‘‘ ہونے کی ایک وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ ’’بہت کم احادیث ہیں جن میں یہ جامعینِ حدیث متفق ہوں‘‘۔ یہ ایک ایسا دعوٰی ہے کہ جو سرسری طور پر چند مختلف احادیث پر ایک نگاہ ڈال کر توکیا جا سکتا ہے لیکن اگر تفصیل کے ساتھ کتب حدیث کا متقابل مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے درمیان اتفاق بہت زیادہ اور اختلاف بہت کم ہے۔ پھر جن میں اختلاف ہے، ان کا جائزہ لیا جائے تو زیادہ تر اختلافات حسب ذیل چار نوعیتوں میں سے کسی نوعیت کے پائے جاتے ہیں:
٭ ایک یہ کہ مختلف راویوں نے ایک ہی بات یا واقعہ کو مختلف الفاظ میں بیان کیا ہے اور ان کے درمیان معانی میں کوئی اہم اختلاف نہیں ہے، یا مختلف راویوں نے ایک ہی واقعہ یا تقریر کے مختلف اجزا نقل کیے ہیں۔
٭ دوسرے یہ کہ خود حضورﷺ نے ایک مضمون کو مختلف الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔
٭ تیسرے یہ کہ حضورﷺ نے مختلف مواقع پر مختلف طریقوں سے عمل فرمایا ہے۔
٭ چوتھے یہ کہ ایک حدیث پہلے کی ہے اور دوسری حدیث بعد کی اور اس نے پہلی کو منسوخ کر دیا ہے۔
ان چار اقسام کو چھوڑ کر جن احادیث کا باہمی اختلاف رفع کرنے میں واقعی مشکل پیش آتی ہے ان کی تعداد پورے ذخیرۂ حدیث میں ایک فی صدی سے بھی بہت کم ہے۔ کیا چند روایات میں اس خرابی کا پایا جانا یہ فیصلہ کر دینے کے لیے کافی ہے کہ پورا ذخیرۂ حدیث مشکوک اور ناقابل اعتماد ہے؟ روایات کسی ایک ناقابل تقسیم کُل کا نام نہیں ہے۔ جس کے کسی جز کے ساقط ہو جانے سے کُل کا ساقط ہو جانا لازم آئے۔ ہر روایت اپنی ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے اور اپنی جداگانہ سند کے ساتھ آتی ہے۔ اس بِنا پر ایک دو نہیں، دو چار سو روایتوں کے ساقط ہو جانے سے بھی بقیہ روایات کا سقوط لازم نہیں آ سکتا۔ علمی تنقید پر جو جو روایات بھی پوری اتریں انھیں ماننا ہی ہو گا۔
محدثین کے درمیان اختلاف کی ایک اور صورت یہ ہے کہ کسی روایت کی سند کو ایک محدث اپنی تنقید کے اعتبار سے درست سمجھتا ہے اور دوسرا محدث اسے کم زور قرار دیتا ہے۔ یہ رائے اور تحقیق کا اختلاف ہے جس سے پریشان ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ کیا عدالتوں میں کسی شہادت کو قبول کرنے اور نہ قبول کرنے پر اختلاف کبھی نہیں ہوتا؟