فاضل جج بار بار لکھنے کے مسئلے کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک لکھنا اور محفوظ کرنا گویا ہم معنی نہیں ہیں۔ ان کے استدلال کا بڑا انحصار اس خیال پر ہے کہ قرآن اس لیے قابل اعتماد واستناد ہے کہ وہ لکھوا لیا گیا، اور احادیث اس لیے قابل اعتماد واستناد نہیں ہیں کہ وہ عہد رسالتﷺ اور عہد خلافت میں نہیں لکھوائی گئیں۔اس سلسلے میں:
پہلی بات تو یہ سمجھ لینی چاہیے کہ:
۱۔ قرآن کو جس وجہ سے لکھوا لیا گیا وہ یہ تھی کہ اس کے الفاظ اور معانی دونوں من جانب اللّٰہ تھے۔ اس کے الفاظ کی ترتیب ہی نہیں، اس کی آیتوں کی ترتیب اور سورتوں کی ترتیب بھی خدا کی طرف سے تھی۔ اس کے الفاظ کو دوسرے الفاظ کے ساتھ بدلنا بھی جائز نہ تھا اور وہ اس لیے نازل ہوا تھا کہ لوگ ان ہی الفاظ میں اسی ترتیب کے ساتھ اس کی تلاوت کریں۔ اس کے مقابلے میں سُنّت کی نوعیت بالکل مختلف تھی، وہ محض لفظی نہ تھی بلکہ عملی بھی تھی اور جو لفظی تھی اس کے الفاظ قرآن کے الفاظ کی طرح بذریعہ وحی نازل نہیں ہوئے تھے بلکہ حضورﷺ نے اس کو اپنی زبان میں ادا کیا تھا۔ پھر اس کا ایک بڑا حصہ ایسا تھا جسے حضورﷺ کے ہم عصروں نے اپنے الفاظ میں بیان کیا تھا، مثلاً یہ کہ حضورﷺ کے اخلاق ایسے تھے، حضورﷺ کی زندگی ایسی تھی، اور فلاں موقع پر حضورﷺ نے یوں عمل کیا۔ حضورﷺ کے اقوال اور تقریریں نقل کرنے کے بارے میں بھی یہ پابندی نہ تھی کہ سننے والے انھیں لفظ بلفظ نقل کریں، بلکہ اہل زبان سامعین کے لیے یہ جائز تھا اور وہ اس پر قادر بھی تھے کہ آپ سے ایک بات سن کر معنی ومفہوم بدلے بغیر اسے اپنے الفاظ میں بیان کر دیں۔ حضورﷺ کے الفاظ کی تلاوت مقصود نہ تھی بلکہ اس تعلیم کی پیروی مقصود تھی جو آپﷺ نے دی ہو۔ احادیث میں قرآن کی آیتوں اور سورتوں کی طرح یہ ترتیب محفوظ کرنا بھی ضروری نہ تھا کہ فلاں حدیث پہلے ہو اور فلاں اس کے بعد۔ اس بِنا پر احادیث کے معاملے میں یہ بالکل کافی تھا کہ لوگ انھیں یاد رکھیں اور دیانت کے ساتھ انھیں لوگوں تک پہنچائیں۔ ان کے معاملے میں کتابت کی وہ اہمیت نہ تھی جو قرآن کے معاملے میں تھی۔
۲۔ دوسری بات جسے خوب سمجھ لینا چاہیے، یہ ہے کہ کسی چیز کے سند اور حجت ہونے کے لیے اس کا لکھا ہوا ہونا قطعًا ضروری نہیں ہے۔ اعتماد کی اصل بنیاد اس شخص یا ان اشخاص کا بھروسے کے قابل ہونا ہے جس کے یا جن کے ذریعے سے کوئی بات دوسرے تک پہنچے، خواہ وہ مکتوب ہو یا غیرمکتوب۔ خود قرآن کو اللّٰہ تعالیٰ نے آسمان سے لکھوا کر نہیں بھیجا، بلکہ نبیﷺ کی زبان سے اس کو بندوں تک پہنچایا۔ اللّٰہ نے پورا انحصار اس بات پر کیا کہ جو لوگ نبیﷺ کوسچا مانیں گے وہ نبیﷺ کے اعتماد پر قرآن کو بھی ہمارا کلام مان لیں گے۔ نبی ﷺ نے بھی قرآن کی جتنی تبلیغ واشاعت کی، زبانی ہی کی۔ آپﷺ کے جو صحابہ مختلف علاقوں میں جا کر تبلیغ کرتے تھے وہ قرآن کی سورتیں لکھی ہوئی نہ لے جاتے تھے۔ لکھی ہوئی آیات اور سورتیں تو اس تھیلے میں پڑی رہتی تھیں جس کے اندر آپ انھیں کاتبانِ وحی سے لکھوا کر ڈال دیا کرتے تھے۔ باقی ساری تبلیغ واشاعت زبان سے ہوتی تھی اور ایمان لانے والے اس ایک صحابی کے اعتماد پر یہ بات تسلیم کرتے تھے کہ جو کچھ وہ سنا رہا ہے، وہ خدا کا کلام ہے یا رسول اللّٰہ ﷺ کا ، یعنی جو حکم وہ پہنچا رہا ہے ،وہ حضورﷺ ہی کا حکم ہے۔
۳۔ تیسرا اہم نکتہ اس سلسلے میں یہ ہے کہ لکھی ہوئی چیز بجائے خود کبھی قابل اعتماد نہیں ہوتی جب تک کہ زندہ اور قابل اعتماد انسانوں کی شہادت اس کی توثیق نہ کرے۔ محض لکھی ہوئی کوئی چیز اگر ہمیں ملے اور ہم اصل لکھنے والے کا خط نہ پہچانتے ہوں، یا لکھنے والا خود نہ بتائے کہ یہ اسی کی تحریر ہے، یا ایسے شاہد موجود نہ ہوں جو اس امر کی تصدیق کریں کہ یہ تحریر اسی شخص کی ہے جس کی طرف منسوب کی گئی ہے تو ہمارے لیے محض وہ تحریر یقینی کیا معنی، ظنی حجت بھی نہیں ہو سکتی۔ یہ ایک ایسی اصولی حقیقت ہے جسے موجودہ زمانے کا قانون شہادت بھی تسلیم کرتا ہے اور فاضل جج خود اپنی عدالت میں اس پر عمل فرماتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ قرآن مجید کے محفوظ ہونے پر جو یقین ہم رکھتے ہیں کیا اس کی بنیاد یہی ہے کہ وہ لکھا گیا تھا۔ کاتبین وحی کے ہاتھ کے لکھے ہوئے صحیفے جو حضورﷺ نے املا کرائے تھے آج دُنیا میں کہیں موجود نہیں ہیں۔ اگر وہ موجود ہوتے تو بھی آج کون یہ تصدیق کرتا کہ یہ وہی صحیفے ہیں جو حضورﷺ نے لکھوائے تھے۔ خود یہ بات بھی کہ حضورﷺ اس قرآن کو نزول وحی کے ساتھ لکھوا لیا کرتے تھے، زبانی روایات ہی سے معلوم ہوئی ہے، ورنہ اس کے جاننے کا کوئی دوسرا ذریعہ نہ تھا۔ پس قرآن کے محفوظ ہونے پر ہمارے یقین کی اصل وجہ اس کا لکھا ہوا ہونا نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ زندہ انسان زندہ انسانوں سے مسلسل اس کو سنتے اور آگے زندہ انسانوں تک اسے پہنچاتے چلے آ رہے ہیں۔ لہٰذا یہ غلط خیال ذہن سے نکال دینا چاہیے کہ کسی چیز کے محفوظ ہونے کی واحد سبیل بس اس کا لکھا ہوا ہونا ہے۔
ان امور پر اگر فاضل جج اور ان کی طرح سوچنے والے حضرات غور فرمائیں توانھیں یہ تسلیم کرنے میں ان شاء اللّٰہ کوئی زحمت نہ پیش آئے گی کہ اگر معتبر ذرائع سے کوئی چیز پہنچے تو وہ سند بننے کی پوری قابلیت رکھتی ہے، خواہ وہ لکھی نہ گئی ہو۔