فاضل جج کی ایک اوربات جو سخت غلط فہمی پیدا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ’’امام بخاریؒ نے چھ لاکھ حدیثوں میں سے صرف ۹ ہزار کو صحیح احادیث کی حیثیت سے منتخب کیا۔‘‘ اس سے ایک شخص یہ تاثر لیتا ہے کہ چھ لاکھ میں سے بس وہ ۹ ہزار تو صحیح تھیں جو امام بخاری نے لے لیں اور باقی ۵ لاکھ ۹۱ ہزار جھوٹی حدیثیں قوم میں پھیلی ہوئی تھیں۔ حالانکہ اصل حقیقت اس سے بہت مختلف ہے۔ دراصل محدثین کی اصطلاح میں ایک واقعہ اگر ایک سلسلۂ سند سے نقل ہو تو وہ ایک حدیث ہے، اور وہی ایک واقعہ مثلاً دس، بیس یا پچاس مختلف سندوں سے نقل ہو کر آئے تو وہ اسے دس، بیس یا پچاس حدیثیں کہتے ہیں۔ امام بخاریؒ کے زمانے تک پہنچتے پہنچتے حضورﷺ کے ایک ایک ارشاد اورآپﷺ کی زندگی کے ایک ایک واقعے کو بکثرت راوی بہت سی مختلف سندوں سے روایت کرتے تھے، اور اس طرح چند ہزار حدیثیں کئی لاکھ حدیثوں کی شکل اختیار کر گئی تھیں۔ امام بخاریؒ کا طریقہ یہ تھا کہ جتنی سندوں سے کوئی واقعہ انھیں پہنچا تھا انھیں وہ اپنی شرائط صحت (یعنی سند کی صحت نہ کہ اصل واقعے کی صحت) کے مطابق جانچتے تھے اور ان میں سے جس سند یا جن سندوں کو وہ سب سے زیادہ معتبر سمجھتے تھے ان کا انتخاب کر لیتے تھے مگر انھوں نے کبھی یہ دعوٰی نہیں کیا کہ جو حدیثیں انھوں نے منتخب کی ہیں بس وہی صحیح ہیں اور باقی تمام روایات غیر صحیح ہیں۔({ FR 7034 }) ان کا اپنا قول ہے کہ ’’میں نے اپنی کتاب میں کوئی ایسی حدیث داخل نہیں کی ہے جو صحیح نہ ہو، مگر بہت سی صحیح حدیثیں چھوڑ دی ہیں تاکہ کتاب طویل نہ ہو جائے۔‘‘({ FR 7035 })بلکہ ایک اور موقع پر وہ اس کی تصریح بھی کرتے ہیں کہ ’’میں نے جو صحیح حدیثیں چھوڑ دی ہیں وہ میری منتخب کردہ حدیثوں سے زیادہ ہیں‘‘ اور یہ کہ ’’مجھے ایک لاکھ صحیح حدیثیں یاد ہیں۔‘‘({ FR 7036 }) قریب قریب یہی بات امام مسلم نے بھی کہی ہے۔ ان کا قول ہے:
میں نے اپنی کتاب میں جو روایتیں جمع کی ہیں ان کو میں صحاح کہتا ہوں مگر یہ میں نے کبھی نہیں کہا کہ جو روایت میں نے نہیں لی ہے وہ ضعیف ہے۔({ FR 7037 })