پھر فاضل موصوف کا یہ ارشاد شدت کے ساتھ نظر ثانی کا محتاج ہے کہ رسول اللّٰہﷺ ’’ماسوا اس وحی کے جو ان کے پاس خدا کی طرف سے آئی تھی، خود اپنے بھی کچھ خیالات رکھتے تھے اور ان خیالات کے زیر اثر کام کرتے تھے۔‘‘ یہ بات نہ قرآن سے مطابقت رکھتی ہے اور نہ عقل اس کو باور کر سکتی ہے۔ قرآن مجید بار بار اس امر کی صراحت کرتا ہے کہ رسول ہونے کی حیثیت سے جو فرائض حضورﷺ پر عائد کیے گئے تھے اور جو خدمات آپﷺ کے سپرد کی گئی تھیں، ان کی انجام دہی میں آپﷺ اپنے ذاتی خیالات وخواہشات کے مطابق کام کرنے کے لیے آزاد نہیں چھوڑ دیے گئے تھے، بلکہ آپﷺ وحی کی راہ نُمائی کے پابند تھے۔ اِنْ اَتَّبِـــعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ۰ۭ الانعام50:6 قُلْ اِنَّمَآ اَتَّبِــعُ مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ مِنْ رَّبِّيْ۰ۚالاعراف203:7 مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوٰىo وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰىo اِنْ ہُوَاِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰىo النجم 53:4-2 رہی عقل، تو وہ کسی طرح یہ نہیں مان سکتی کہ ایک شخص کو خدا کی طرف سے رسول بھی مقرر کیا جائے اور پھر اسے رسالت کا کام اپنی خواہشات ورجحانات اورذاتی آرا کے مطابق انجام دینے کے لیے آزاد بھی چھوڑ دیا جائے۔ ایک معمولی حکومت بھی اگر کسی شخص کو کسی علاقے میں وائسرائے یا گورنر یا کسی ملک میں اپنا سفیر مقرر کرتی ہے تو وہ اسے اپنی سرکاری ڈیوٹی انجام دینے میں خود اپنی مرضی سے کوئی پالیسی بنا لینے اور اپنے ذاتی خیالات کی بِنا پر بولنے اور کام کرنے کے لیے آزاد نہیں چھوڑدیتی۔ اتنی بڑی ذمہ داری کا منصب دینے کے بعد اس کو سختی کے ساتھ حکومت بالادست کی پالیسی اور اس کی ہدایات کا پابند کیا جاتا ہے۔ اس کی سخت نگرانی کی جاتی ہے کہ وہ کوئی کام سرکاری پالیسی اور ہدایات کے خلاف نہ کرنے پائے۔ جو معاملات اس کی صوابدید پر چھوڑے جاتے ہیں، ان میں بھی گہری نگاہ سے یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ اپنی صوابدید کو ٹھیک استعمال کر رہا ہے یا غلط۔اس کو صرف وہی ہدایات نہیں دی جاتیں جو پبلک میں پیش کرنے کے لیے، یا جس قوم کی طرف وہ سفیر بنایا گیا ہے، اسے سنانے کے لیے ہوں، بلکہ اسے خفیہ ہدایات بھی دی جاتی ہیں جو اس کی اپنی راہ نُمائی کے لیے ہوں۔ اگر وہ کوئی بات حکومت بالادست کے منشا کے خلاف کر دے تو اس کی فورًا اصلاح کی جاتی ہے یا اسے واپس بلا لیا جاتا ہے۔ دُنیا اس کے اقوال وفعل کے لیے اس حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے جس کی وہ نمایندگی کر رہا ہے، اور اس کے قول وافعال کے متعلق لازمًا یہی سمجھا جاتا ہے کہ اسے اس کی مقرر کرنے والی حکومت کی منظوری حاصل ہے، یا کم از کم یہ کہ حکومت اس کو ناپسند نہیں کرتی۔ حد یہ ہے کہ اس کی پرائیویٹ زندگی تک کی برائی اور بھلائی اس حکومت کی ناموری پر اثر انداز ہوتی ہے جس کا وہ نمایندہ ہے۔ اب کیا خدا ہی سے اس بے احتیاطی کی امید کی جائے کہ وہ ایک شخص کو اپنا رسول ﷺ مقرر کرتا ہے، دُنیا بھر کو اس پرایمان لانے کی دعوت دیتا ہے، اسے اپنی طرف سے نمونے کا آدمی ٹھہراتا ہے، اس کی بے چون وچرا اطاعت اور اس کے اتباع کا بار بار بتاکید حکم دیتا ہے، اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد اسے چھوڑ دیتا ہے کہ اپنے ذاتی خیالات کے مطابق جس طرح چاہے، رسالت کی خدمات انجام دے؟