اعتراض: آخر کی آیت آپ نے یہ پیش کی ہے کہ:
اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّىْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَۃِ مُرْدِفِيْنَ
الانفال 9:8
جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمھاری فریاد کے جواب میں فرمایا: میں تمھاری مدد کے لیے لگاتار ایک ہزار فرشتے بھیجنے والا ہوں۔
اس کے بعد آپ پوچھتے ہیں:کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کی فریاد کا یہ جواب قرآن کی کس آیت میں نازل ہوا تھا؟
کیا میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں کہ جب اللّٰہ نے کہا کہ اُجِيْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۰ۙ البقرہ 186:2 ’’میں ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں، جب وہ مجھے پکارتا ہے‘‘ تو خدا کی طرف سے پکارنے والے کی پکار کا جواب کس نوشتے کے ذریعے ملتا ہے؟ جس طریق سے ہر پکار نے والے کو خدا کی طرف سے اس کی پکار کا جواب ملتا ہے اسی طریق سے جماعت مومنین کو ان کی پکار کا جواب ملا تھا۔ لیکن جواب ان لوگوں کو کس طرح نظر آ جائے جو خدا کی ہر بات کو کاغذ پر تحریر شدہ مانگیں۔
جواب: سوال از آسمان وجواب از ریسماں۔ میرا سوال یہ تھا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی فریاد کے جواب میں ایک ہزار فرشتے بھیجنے کے جس صریح اور قطعی وعدے کا ذکر اس آیت میں کیا ہے وہ قرآن کی کس آیت میں نازل ہوا تھا۔ ڈاکٹر صاحب اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ جس طریقے سے ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب اللّٰہ کے ہاں سے ملا کرتا ہے اسی طریقے سے جنگ بدر کے موقع پر مسلمانوں کی پکار کا جواب بھی ملا تھا۔ کیا ہر پکارنے والے کو اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا ہی واضح جواب ملا کرتا ہے کہ تیری مدد کے لیے اتنے ہزار فرشتے بھیجے جا رہے ہیں؟ اور کیا تعداد کے اس قطعی تعین کے ساتھ صاف الفاظ میں اس جواب کا ذکر کتاب اللّٰہ میں بھی لکھا ہوا مل جاتا ہے؟
یہاں یہ عجیب اور دل چسپ بات بھی لائق ملاحظہ ہے کہ ہم پر ’’خد اکی ہر بات کو کاغذ پر تحریر شدہ مانگنے‘‘ کا الزام وہ لوگ عائد کر رہے ہیں، جنھیں اصرار ہے کہ جو وحی لکھی گئی ہو، ہم صرف اسی کو مانیں گے۔