اعتراض:آپ کے بیان سے حضورﷺ پر جھوٹ کا جو الزام آتا ہے یہ آپ کے لیے کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ آپ تو اپنے جھوٹوں کے جواز میں یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ’’ ایسے مواقع پر (معاذ اللّٰہ، معاذ اللّٰہ) حضورﷺ نے بھی جھوٹ بولنے کی نہ صرف اجازت دی تھی بلکہ اسے واجب قرار دیا تھا۔
جواب: یہ ’’دروغ گویم برروئے تُو‘‘({ FR 6825 }) کا مصداق ہے۔ منکرینِ حدیث جھوٹے پروپیگنڈے میں اب اس درجہ بے باک ہو چکے ہیں کہ ایک شخص کو مخاطب کرکے اس پر رُو دَر رُو جھوٹا الزام لگانے سے بھی نہیں چوکتے۔ کیا یہ لوگ میری کوئی عبارت اس بات کے ثبوت میں پیش کر سکتے ہیں کہ ’’ایسے مواقع پر خود حضورﷺ نے بھی جھوٹ بولنے کی نہ صرف اجازت دی تھی بلکہ اسے واجب قرار دیا تھا۔‘‘ دراصل میں نے اپنے ایک مضمون میں جو بات کہی ہے، وہ یہ نہیں ہے کہ ’’ایسے مواقع پر‘‘ جھوٹ جائز یا واجب ہے، بلکہ یہ ہے کہ جہاں سچائی کسی بڑے ظلم میں مددگار ہوتی ہو، اور اس ظلم کو دفع کرنے کے لیے خلاف واقعہ بات کہنے کے سوا چارہ نہ ہو، وہاں سچ بولنا گناہ ہو جاتا ہے اور ناگزیر ضرورت کی حد تک خلاف واقعہ بات کہنا بعض حالات میں جائز اور بعض حالات میں واجب ہوتا ہے۔ میں نے اس کی ایک مثال بھی اسی مضمون میں دی تھی۔ فرض کیجیے کہ اِسلامی فوج کی کفار سے جنگ ہو رہی ہے اور آپ دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہو جاتے ہیں، اگر دشمن آپ سے معلوم کرنا چاہے کہ آپ کی فوج کہاں کہاں کس کس تعداد میں ہے اور آپ کے میگزین کس کس جگہ واقع ہیں، اور ایسے ہی دوسرے فوجی راز وہ دریافت کرے تو فرمائیے کہ اس وقت آپ سچ بول کر دشمن کو تمام اطلاعات صحیح صحیح بہم پہنچا دیں گے؟ ڈاکٹر صاحب اگر اس پر معترض ہیں تو وہ اب اس سوال کا سامنا کریں اور اس کا صاف صاف جوا ب عنایت فرما دیں۔