اعتراض: یہ بات کہ اس نئے قبلے کا حکم ہی خدا کی طرف سے آیا تھا، پہلے قبلے کا نہیں، دو ہی آیات کے بعد قرآن نے واضح کر دی، جہاں کہا ہے کہ: وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَاۗءَھُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ۰ۙ اِنَّكَ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِـمِيْنَo البقرہ 145:2 یعنی اگر تو العلم آ جانے کے بعد ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع کرے گا تو تُو اس وقت بے شک ظالموں میں سے ہو جائے گا۔ اس سے صاف واضح ہے کہ العلم (یعنی وحی خداوندی) نئے قبلے کے لیے آئی تھی۔ اگر پہلا قبلہ بھی العلم کے مطابق مقرر ہوتا تو یہاں یہ کبھی نہ کہا جاتا کہ العلم کے آنے کے بعد تم پہلے قبلے کی طرف رخ نہ کرنا۔
جواب: مجھے شکایت تھی کہ منکرین حدیث میری عبارتوں کو توڑ مروڑ کر میرے ہی سامنے پیش فرماتے ہیں، مگر اب کیا اس کی شکایت کی جائے۔ جو لوگ اللّٰہ تعالیٰ کی آیات کو توڑ مروڑ کر ان کے من مانے مطلب نکالنے میں اس قدر بے باک ہوں ان کے سامنے ماوشما کی کیا ہستی ہے۔ جس آیت کا آخری ٹکڑا نقل کرکے اس سے یہ مطلب نچوڑا جا رہا ہے اس پوری آیت اور اس سے پہلے کی آیت کے آخری فقرے کو ملا کر پڑھیئے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ منکرین حدیث قرآن مجید کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں۔ بیت المقدس کو چھوڑ کر جب مسجد حرام کو قبلہ بنایا گیا تو یہودیوں کے لیے اسی طرح طعن وتشنیع کا موقع پیدا ہو گیا جس طرح قبلۂ سابق پر اہل عرب کے لیے پیدا ہوا تھا۔اس سلسلے میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَاِنَّ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَيَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ الْحَـقُّ مِنْ رَّبِّہِمْ۰ۭ وَمَا اللہُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُوْنَo وَلَىِٕنْ اَتَيْتَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ بِكُلِّ اٰيَۃٍ مَّا تَبِعُوْا قِبْلَتَكَ۰ۚ وَمَآ اَنْتَ بِتَابِــــعٍ قِبْلَتَہُمْ۰ۚ وَمَا بَعْضُہُمْ بِتَابِـــعٍ قِبْلَۃَ بَعْضٍ۰ۭ وَلَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَاۗءَھُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ۰ۙ اِنَّكَ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِـمِيْنَo
البقرہ 144-145:2
اہل کتاب خوب جانتے ہیں کہ یہ (یعنی مسجد حرام کو قبلہ بنانا) حق ہے، ان کے رب کی طرف سے، اور جو کچھ و ہ کرتے ہیں اللّٰہ اس سے غافل نہیں ہے۔ تم خواہ کوئی نشانی ان اہل کتاب کے پاس لے آئو، یہ تمھارے قبلے کی پیروی نہ کریں گے اور تم ان کے قبلے کی پیروی کرنے والے نہیں ہو، اور نہ ان میں سے کوئی کسی کے قبلے کی پیروی کرنے والا ہے اور اگر تم نے وہ علم آ جانے کے بعد جو تمھارے پاس آیا ہے ان کی خواہشات کا اتباع کیا تو تم ظالموں میں سے ہو گے۔
اس سیاق وسباق میں جو بات کہی گئی ہے اس سے یہ مطلب آخر کیسے نکل آیا کہ پہلا قبلہ ’’العلم‘‘ کے مطابق مقرر نہیں کیا گیا تھا اور صرف یہ دوسرا قبلہ ہی اس کے مطابق مقرر کیا گیا ہے۔ اس میں تو صرف یہ کہا گیا ہے کہ جب خدا کا حکم بیت المقدس کو چھوڑ کر مسجد حرام کو قبلہ بنانے کے لیے آ گیا ہے تو اب اس العلم کے آ جانے کے بعد محض یہودیوں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر سابق قبلے کی طرف رخ کرنا ظلم ہو گا۔ کسی منطق کی رو سے بھی اس کو یہ معنی نہیں پہنائے جا سکتے کہ پہلے جس قبلے کی طرف رخ کیا تھا وہ حضورﷺ کا خود ساختہ تھا۔ خصوصاً جب کہ اس سے پہلے کی آیتوں میں وہ کچھ تصریحات موجود ہوں جو نمبر ۴۳،۴۴ میںابھی نقل کی جا چکی ہیں۔({ FR 6824 }) نبی اکرم ﷺ پر خود ساختہ قبلہ بنانے کا الزام رکھنا ایک بدترین قسم کی جسارت ہے۔