اعتراض: اگر تسلیم کیا جائے کہ پہلا قبلہ خدا نے مقرر کیا تھا تو اس ٹکڑے کے کچھ معنی ہی نہیں بنتے کہ ’’ہم نے یہ اس لیے کیا تھا تاکہ یہ دیکھیں کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پائوں پھر جاتا ہے۔‘‘ اس لیے کہ پہلے قبلے کے تعین کے وقت کسی کا الٹے پائوں پھر جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ حضورﷺ ایک قبلے کی طرف رخ کرتے تھے۔ جو شخص حضورﷺ کے ساتھ شریک ہوتا تھا وہ بھی اسی طرف رخ کر لیتا تھا۔ ’’الٹے پائوں پھرنے‘‘ کا سوال اس وقت پیدا ہوا جب اس قبلے میں تبدیلی کی گئی۔ اس وقت اس کے پرکھنے کا موقع آیا کہ کون اسی پہلے قبلے کو زیادہ عزیز رکھتا ہے اور کون رسولﷺ کے اتباع میں (جس نے بحکم خداوندی یہ تبدیلی کی ہے)نئے قبلے کی طرف رخ کرتا ہے۔
جواب: یہ محض قلت فہم اور قلت علم کا کرشمہ ہے۔ منکرین حدیث کو یہ معلوم نہیں ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں کعبہ تمام اہل عرب کے لیے مقدس ترین تیرتھ({ FR 7140 }) کی حیثیت رکھتا تھا۔ اِسلام میں ابتدائً جب اس کے بجائے بیت المقدس کو قبلہ بنایا گیا تھا تو یہ عربوں کے لیے سخت آزمائش کا موقع تھا۔ ان کے لیے اپنے مرکزی معبد کو چھوڑ کر یہودیوں کے معبد کو قبلہ بنانا کوئی آسان کام نہ تھا۔ اسی کی طرف آیت زیر بحث کا یہ فقرہ اشارہ کرتا ہے کہ وَاِنْ كَانَتْ لَكَبِيْرَۃً اِلَّا عَلَي الَّذِيْنَ ھَدَى اللہُ۰ۭ وَمَا كَانَ اللہُ لِـيُضِيْعَ اِيْمَانَكُمْ۰ۭ البقرہ143:2 ’’اگرچہ وہ قبلہ سخت گراں تھا، مگر ان لوگوں پر نہیں، جنھیں اللّٰہ نے ہدایت بخشی تھی، اور اللّٰہ تمھارے اس ایمان کو ضائع کرنے والا نہیں ہے۔‘‘ ان الفاظ سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس قبلے کے معاملے میں الٹے پھر جانے کا سوال کیوں پیدا ہوتا تھا۔ مزید برآں یہی الفاظ اس حقیقت کو بھی ظاہر کرتے ہیں کہ جو حکم قرآن میں نہیں آیا تھا، بلکہ رسول پاکﷺ کے ذریعے سے پہنچایا گیا تھا، اسی کے ذریعے سے لوگوں کے ایمان کی آزمائش کی گئی تھی۔ اس حکم کی پیروی جن لوگوں نے کی، انھی کے متعلق اللّٰہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ہم تمھارے اس ایمان کو ضائع کرنے والے نہیں ہیں۔ کیا اب بھی اس امر میں کسی شک کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ غیر از قرآن بھی رسول کے پاس کوئی حکم بذریعہ وحی آ سکتا ہے اور اس پر بھی ایمان کا مطالبہ ہے؟