اعتراض: آپ نے تحویل قبلہ والی آیت اور اس کا ترجمہ یوں لکھا ہے: وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِىْ كُنْتَ عَلَيْہَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَّتَّبِــعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ يَّنْقَلِبُ عَلٰي عَقِبَيْہِ۰ۭ
البقرہ 143:2
اور ہم نے وہ قبلہ جس پر اب تک تم تھے، اسی لیے مقرر کیا تھا تاکہ یہ دیکھیں کہ کون رسولﷺ کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پائوں پھر جاتا ہے۔
اس کے متعلق آپ لکھتے ہیں کہ:
مسجد حرام کو قبلہ قرار دینے سے پہلے مسلمانوں کا جو قبلہ تھا اُسے قبلہ بنانے کا کوئی حکم قرآن میں نہیں آیا۔ اگر آیا ہو تو آپ اُس کا حوالہ دے دیں۔‘‘
اگر اس کے متعلق خدا کی طرف سے کوئی حکم آیا ہوتا تو ضرور قرآن میں ہوتا لیکن جب حکم آیا ہی نہیں تھا تو میں اس کا حوالہ قرآن سے کیسے دوں؟ آپ نے پہلے یہ فرض کر لیا ہے کہ پہلے قبلے کو خدا نے مقرر کیا تھا اور اس کے بعد آپ اس آیت کا ترجمہ اسی مفروضے کے مطابق کرتے ہیں۔ اس آیت میں کُنْتَ کے معنی ’’تو تھا‘‘ نہیں۔ اس کے معنی ہیں ’’تو ہے‘‘ یعنی ’’ہم نے وہ قبلہ جس پر تو ہے اس لیے مقرر کیا تاکہ یہ دیکھیں کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پائوں پھر جاتا ہے۔‘‘ ان معانی کی تائید خود قرآن سے ہوتی ہے۔‘‘
جواب: اس آیت میں کُنْتَ کے معنی ’’تو ہے‘‘ صرف اس بنیاد پر کر ڈالے گئے ہیں کہ عربی زبان میں کَانَ کبھی کبھی ’’تھا‘‘ کے بجائے ’’ہے‘‘ کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے۔ لیکن جس شخص نے بھی سورۂ بقرہ کا وہ پورا رکوع کبھی سمجھ کر پڑھا ہو جس میں یہ آیت وارد ہوئی ہے، وہ یہاں کُنْتَ کے معنی ’’تو ہے‘‘ ہرگز نہیں لے سکتا، کیوں کہ مضمون ماسبق ومابعد یہ معنی لینے میں مانع ہے۔ رکوع کی ابتدا اس آیت سے ہوتی ہے: سَیَقُوْلُ السُّفَھَائُ مِنَ النَّاسِ مَاوَلّٰھُمْ عَنْ قِبْلَتِھِمُ الَّتِیْ کَانُوْا عَلَیْھَا البقرہ 142:2 ’’نادان لوگ ضرور کہیں گے کہ کس چیز نے پھیر دیا، ان کو ان کے اس قبلے سے جس پر یہ تھے۔‘‘یہاں کَانُوْا کا ترجمہ ’’یہ ہیں‘‘ کسی طرح بھی نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ ’’کس چیز نے پھیر دیا‘‘ کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ پہلے مسلمان کسی اور قبلے کی طرف رخ کرتے تھے، اب اسے چھوڑ کر دوسرے قبلے کی طرف رخ پھیرنے والے ہیں، اور اسی بِنا پر مخالفین کی طرف سے اس اعتراض کا موقع پیدا ہو رہا ہے کہ اپنے پہلے قبلے سے کیوں پھر گئے۔ اس کے بعد اللّٰہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ اگر مخالفین یہ اعتراض کریں تو اس کا جواب کیا ہے۔ اس سلسلے میں دوسری باتوں کے ساتھ یہ فقرہ ارشاد فرمایا جاتا ہے: وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَا اِلَّا… ’’اور ہم نے وہ قبلہ جس پر تم تھے، نہیں مقرر کیا گیا مگر اس لیے کہ…‘‘ یہاں کُنْتَ عَلَیْھَا سے مراد بعینہٖ وہی چیز ہے جس کے متعلق اوپر کی آیت میں کَانُوْا عَلَیْھَا فرمایا گیا ہے۔ اس کے معنی ’’تو ہے‘‘ کسی طرح بھی نہیں لیے جا سکتے۔ سابقہ آیت قطعی طور پر اس کے معنی ’’تو تھا‘‘ متعین کر دیتی ہے۔ اس کے بعدتیسری آیت میں تحویل قبلہ کا حکم اس طرح دیا جاتا ہے: قَدْ نَرٰى تَـقَلُّبَ وَجْہِكَ فِي السَّمَاۗءِ۰ۚ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَۃً تَرْضٰىھَا۰۠ فَوَلِّ وَجْہَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۰ۭ البقرہ 144:2 ’’ہم دیکھ رہے ہیں تمھارے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا۔ پس ہم پھیرے دیتے ہیں تم کو اس قبلے کی طرف جسے تم چاہتے ہو، اب موڑ دو اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف۔‘‘ ان الفاظ سے صاف نقشہ نگاہ کے سامنے یہ آتا ہے کہ پہلے مسجد حرام کے سوا کسی اورقبلے کی طرف رخ کرنے کا حکم تھا۔ رسول اللّٰہ ﷺ یہ چاہتے تھے کہ اب وہ قبلہ بدل دیا جائے۔ اس لیے آپ بار بار آسمان کی طرف منہ اُٹھاتے تھے کہ کب تبدیلیٔ قبلہ کا حکم آتا ہے۔ اس حالت میں فرمان آ گیا کہ لو اب ہم اس قبلے کی طرف تمھیں پھیرے دیتے ہیں جسے تم قبلہ بنانا چاہتے ہو۔ پھیر دو اپنا رخ مسجد حرام کی طرف۔ اس سیاق وسباق میں آیت وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَا الخ کو رکھ کر دیکھا جائے تو ان الٹی سیدھی تاویلات کی کوئی گنجائش نہیں رہتی، جو ڈاکٹر صاحب نے یہاں پیش فرمائی ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ صاف فرما رہا ہے کہ مسجد حرام سے پہلے جو قبلہ تھا، وہ بھی ہمارا ہی مقرر کیا ہوا تھا اور ہم نے اسے اس لیے مقرر کیا تھا کہ یہ دیکھیں کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون اس سے روگردانی کرتا ہے۔