اعتراض: اس کے تو آپ خود بھی قائل ہیں کہ شریعت کا ایک حتمی فیصلہ بھی حالات کے سازگار ہونے تک ملتوی رکھا جا سکتا ہے۔ مثلاً: آئین پاکستان کے سلسلے میں آپ نے کہا تھا کہ:
ایک اِسلامی ریاست کے نظام کو چلانے میں غیر مسلموں کی شرکت شرعاً اور عقلاً دونوں طورپر صحیح نہیں لیکن سردست ایک عارضی بندوبست کی حیثیت سے ہم اس کو جائز اور مناسب سمجھتے ہیں کہ ان کو ملک کی پارلیمنٹ میں نمایندگی دی جائے۔
(ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۵۲ء ص۴۳۰۔۴۳۱)
جواب: یہ معاملہ بھی منکرین حدیث کے نظریے سے بالکل مختلف ہے۔ غیر مسلموں کے متعلق تو ہمیں مثبت طور پر معلوم ہے کہ اِسلام اپنا نظام حکومت چلانے کی ذمہ داری میں انھیں شریک نہیں کرتا۔ اس لیے ہمارا یہ فرض ہے کہ اس پالیسی کو نافذ کریں، اور جب تک ہم اسے نافذ کرنے پر قادر نہیں ہوتے اس وقت تک مجبوراً جو کچھ بھی کریں ایک عارضی انتظام کی حیثیت سے کریں۔ بخلاف اس کے منکرین حدیث ایک نظام ربوبیت خود تصنیف کرتے ہیں جس کے متعلق قرآن کا کوئی ایک مثبت حکم بھی وہ نہیں دکھا سکتے، اور شخصی ملکیت کے اثبات پر جو واضح اور قطعی احکام قرآن میں ہیں ان کو وہ عبوری دور کے احکام قرار دیتے ہیں۔ ان دونوں باتوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ ہمارے نزدیک ’’عبوری دور‘‘ کی تعریف یہ ہے کہ قرآن کے ایک حکم یا اس کے دئیے ہوئے کسی قاعدے اور اصول پر عمل کرنے میں، اگر کچھ موانع موجود ہیں تو ان کو دور کرنے تک عارضی طور پر جو کچھ بھی ہم مجبورًاکریں گے وہ عبوری دور کا انتظام ہو گا۔ اس کے برعکس منکرین حدیث کے نزدیک ان کے اپنے تصنیف کردہ اصولوں پر عمل درآمد کرنے کے لیے جب تک فضا سازگار نہ ہو، اس وقت تک وہ قرآن کے دیے ہوئے احکام او اس کے مقرر کیے ہوئے اصولوں پر محض ایک عارضی انتظام کی حیثیت سے عمل کریں گے۔